ماما نے تشویش سے دس کے ہندسے عبور کرتی کلاک کی سوئیوں کو دیکھا۔ گاؤں میں اتنی رات کو نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہ بات اب وہ بھی جان گئی تھیں۔
”اٹس اوکے…! میں لے آؤ ں گا۔“
اس نے جواباً نرمی سے کہا تھا۔ ماما ایک دم ممنون نظر آنے لگیں۔ جبکہ ایمان کو خواہ مخواہ غصہ آگیا۔
”اشعر یا عاقب کو ساتھ لے جانا پُتر…!“
تاؤ جی نے تاکید کی تھی۔
اس نے سر کو اثبات میں ہلا دیا۔
”میں چلتا ہوں۔“
عاقب اسی پل اُٹھ کر کھڑا ہوا۔
”کوئی ضروی نہیں ہے عاقب بھائی…! اتنی بھی خراب طبیعت نہیں ہے میری کہ دوا نہ ملی تو صبح تک مر جاؤں…؟“
اس کا تیز لہجہ ناگواری کی تپش لئے ہوئے تھا۔ ولید کی بے ساختہ نگاہ اُٹھی، وہ اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔
(جاری ہے)
اس کی آنکھوں سے اُمڈتی ناپسندیدگی، ناگواریت اور تلخی۔
گویا چیخ کر کہہ رہی تھی۔ اس احسان کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ گہرا سانس کھینچ کر سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
”خدانخواستہ…! ایمان گڑیا…! کیسی باتیں کر رہی ہو…؟ پہلی بات تو یہ کہ ہم کوئی بہت برا کام نہیں کرنے جا رہے۔ دوسرے اگر ایسا ہوتا بھی، تب بھی ہمیں ہرگز ناگوار خاطر نہ ہوتا۔ اپنوں کے کام آکر روحانی تسکین حاصل ہوا کرتی ہے۔ اور تم ہماری بہت پیاری سی گڑیا ہو۔
“
”ذہن کو ریلیکس کرو۔ ہم یوں گئے یوں واپس آجائیں گے۔“
وہ اس کا سر تھپک کر مسکراتے ہوئے پلٹ گیا۔ ولید اس سے پہلے ہی جا چکا تھا۔ اور جس پل اس نے بائیک اسٹارٹ ہونے اور روانہ ہونے کی آواز سنی، عین اسی پل دستک دیتا اشعر اندر چلا آیا اور اُسے دیکھ کر مسکرایا۔
”نصیب دُشمناں طبیعت ناساز ہے۔“
وہ اُسے دیکھنے لگی۔
کیسے لگے تھے یہ…؟ اس کے ناروا سلوک کے باوجود اس کے آگے پیچھے پھرتے تھے، کیوں… ؟ کیا خصوصیت تھی اس میں… ؟
اس نے سوچا مگر کوئی وجہ نہ ڈھونڈ پائی، سوائے اس کے کہ بقول فضہ وہ پرُ خلوص، سادہ لوگ، محبت کرنا، محبت بانٹنا ان کا احسان نہیں، ان کا مزاج ہے۔
وہ اس نتیجے پہ پہنچی تو جیسے دماغ کی تنی ہوئی رگیں ڈھیلی پڑنے لگیں۔ اُسے واقعی کسی ایک شخص کی وجہ سے سب سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ اس نے فیصلہ کیا اور ریلیکس ہوگئی۔
”بھئی…! اگر خدمتیں کروانا تھیں تو ویسے ہی کہہ دیتیں۔ بیمار پڑنا ضروری تو نہیں تھا…؟“
وہ اس کرسی پہ آبیٹھا جس سے ولید اُٹھ کر گیا تھا۔ تائی جی بھی اب اس کے بستر میں تھیں، اس کا سر انہی کی گود میں تھا۔
جسے وہ بڑی نرمی سے ہولے ہولے دبا رہی تھیں۔
”تم خفا نہیں ہو مجھ سے…؟“
اس نے دل میں چبھتا سوال کیا۔ اشعر نے ٹھنڈا گہرا سانس بھر کے اُسے دیکھا تھا پھر سنجیدگی سے بولا۔
”آپ نے کبھی آئینہ دیکھا ہے غور سے…؟“
”کیا مطلب…؟“
وہ ہونق ہوئی۔ یہ تو وہی بات تھی سوال گندم جواب چنا…!
”آپ کی صورت اتنی معصوم، اتنی پیاری ہے کہ کوئی خفا ہونا بھی چاہے تو رہ نہ پائے۔
“
اس کے جواب پہ ایمان اچھا خاصا جھینپ گئی تھی۔
”شیشے میں اتارنا تو خوب آتا ہے۔ کتنی لڑکیوں کو روز چکر دیتے ہو…؟“
وہ مصنوعی خفگی سے بولی۔ اس کی خفگی دُور ہونے کے خیال سے دل ایک دم ہلکا پھلکا ہو گیا تھا۔
”میں کہاں اُتارتا ہوں…؟یہ صورت ہی ایسی حسین ہے کہ لڑکیاں خود پٹاخ پٹاخ گرتی ہیں مجھ پہ…!“
کالر کھڑے کرتے ہوئے وہ لمبی لمبی چھوڑنے لگا۔
”تاؤ جی…! آپ آرام کریں جا کے، اب ایمی بہتر ہے، میں دوا بھی کھلا دوں گی۔“
تاؤ جی کو نیند کے جھونکے آرہے تھے، جب فضہ نے انہیں مخاطب کیا۔ وہ خفیف سے ہوگئے۔
”نہیں پُتر…! میں ٹھیک ہوں…!“
مگر فضہ نے نہ صرف انہیں، بلکہ تائی جی کو بھی ایمان کی طرف سے مطمئن کرکے سونے کو بھیج دیا۔
جس وقت عاقب اوپر آیا، وہ اشعر کی باتوں پہ ہنس رہی تھی۔
لاشعوری طور پہ اس کی نظروں نے ولید کو کھوجا تھا مگر وہ ساتھ نہیں تھا۔
”ولید کہاں ہے…؟“
سوال ماما کی طرف سے ہوا تھا، وہ لاشعوری طور پہ متوجہ ہوگئی۔
”اپنے کمرے میں چلا گیا ہے۔دوا کا طریقہ مجھے سمجھا دیا۔ شاید اس کو بھی ٹھنڈ لگ گئی ہے۔ بار بار چھینک رہا تھا۔“
عاقب فضہ کو دوا دیتے ہوئے کھلانے کے بارے میں ہدایات دیتے ماما کو جواب دینے لگا۔
ماما لمحوں میں متفکر ہوئی تھیں۔
”سردی بھی تو بہت ہے باہر…! میں دیکھتی ہوں بچے کو۔“
ماما بستر سے نکل کر چلیں گئیں۔ اشعر کی ہنسی کی آواز پہ وہ جو جانے کیا سوچنے لگی تھی، چونک کر متوجہ ہوئی۔
”یہ تو چین ہی بن گئی مریضوں کی۔ دیکھئے ناں…! آپ کی وجہ سے ولی بھائی کو ٹھنڈ لگی وہ بیمار ہو رہے ہیں تو چچی جان ان کی خبر گیری کو اتنی سردی میں نیچے گئی ہیں، اب اس وجہ سے اگر انہیں ٹھنڈ لگ گئی تو یہ چین تو بنے گی ناں…؟“
وہ کھی کھی کے دوران اپنی ہنسی کی وضاحت دے رہا تھا۔
ایمان کی بھی ہنسی چھوٹ گئی۔
”تم جا کے بستر سنبھالو، کہیں تمہیں بھی ٹھنڈ نہ لگ جائے…؟“
فضہ نے اُسے ایک دھپ لگا کر وہاں سے اُٹھایا تو وہ یوں ہی ہنستا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ فضہ اُسے دوا کھلانے لگی۔
###