اس کی آنکھ کھلی تو ذہن رات کی دواؤں کے زیر اثر سویا سویا سا تھا۔ وہ لحاف میں کسمسائی اور ذرا سا منہ باہر نکال کر کمرے کا جائزہ لیا۔ بستر اور لحاف سمٹے ہوئے تھے۔ رات کی بے ترتیبی کا کوئی منظر نہیں تھا۔ گویا فضہ اور ماما بیدار ہو چکی تھیں۔ مگر کمرے میں نہیں تھیں۔ اچھی خاصی خاموشی تھی جو مکینوں کی غیر موجودگی میں ہی تخلیق ہو پاتی ہے یا پھر آدھی رات کے مخصوص خوابیدہ تصور سے منسوب ہوتی ہے۔
معاً ٹھنڈی صبح ہوا کے تیز جھونکے دروازے سے ٹکرانے لگے اور دروازہ ہولے ہولے لرزنے لگا۔
ایک دم سے خاموشی کے پردے پر سلوٹیں نمودار ہوگئی تھیں۔ وہ یوں ہی سر اونچا کیے کمرے میں آتی روشنی کو دیکھتی رہی۔ دُھندلی سی صبح تھی۔ کھلے دروازے سے کہر کے بادل اندر چلے آرہے تھے۔
(جاری ہے)
اس نے گہرا سانس کھینچا اور پھر سے سر تکیے پہ ڈال دیا۔ معاً سائیڈ ٹیبل پہ پڑے موبائل کی اسکرین بلنک کرنے لگی۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اُٹھایا۔ اسکرین پہ پاپا کالنگ لکھا ہوا تھا۔ کچھ دیر یوں ہی اسکرین کو گھورتے رہنے کے بعد اس نے کال ریسیو کر لی تھی۔
”السلام علیکم…! صبح بخیر زندگی…! پاپا کی جان…! ہاؤ آر یو…؟“
پاپا کی فریش بھاری آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تو دل بھر آیا۔ آج کتنے دنوں بعد وہ یہ آواز سن رہی تھی۔
”ایمی…! بیٹا…! بولو ناں…! کیسی طبیعت ہے اب…؟“
”مجھے کیا ہونا ہے…؟“
اس نے نروٹھے پن سے جواب دیا۔
اتنی ہی خفا تھی وہ ان سے۔
”تمہیں رات سے ٹمپریچر ہے۔ سویٹ ہارٹ…! بے احتیاطی کیوں کی آپ نے…؟“
وہ سرزنش کر رہے تھے۔ اس کا موڈخراب ہونے لگا۔
”فضہ نے آپ سے میری شکا یتیں کی ہیں…؟“
”نہیں…! فضہ نے تو کچھ نہیں کہا۔ ولید کا فون آیا تھا۔ اسی نے بتایا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اُس کا خیال ہے تم مجھے مس کر رہی ہو۔
بیٹا…! میں بھی اپنی خوشی سے آپ سے الگ نہیں ہوا ہوں۔ بسا اوقات مجبوریاں آپ کو جکڑ لیتیں ہیں۔ میری بیٹی تو بہت سمجھدار ہے ناں…!“
پاپا اور بھی بہت سی باتیں کر رہے تھے۔ مگر وہ تو وہیں اٹک گئی تھی۔
”ولید نے کال کی…؟“
”میں بہت جلد اپنی بیٹی سے ملنے آؤں گا۔ مگر ایک شرط ہے۔ مجھے اپنی ڈول ہمیشہ کی طرح مسکراتی، خوش باش، صحت مند ملنی چاہئے۔
پرامس…!“
وہ چونک کر متوجہ ہوئی۔
”ولید نے آپ کو کال کیوں کی تھی پاپا…؟“
”بیٹے…! مجھے آپ کے متعلق بتا رہا تھا ناں…!“
پاپا کا لہجہ وانداز نارمل تھا۔ یوں جیسے یہ معمولی کی بات ہو۔
”یہ اتنی اہم بات تو نہیں تھی پاپا…! جسے بتانے کو اس نے آپ کو کال کر لی…؟“
وہ پتہ نہیں کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہتی تھی مگر پاپا اس کی بات سن کر ہنس پڑے تھے۔
”ہمارے لئے تو اہم ہے ناں بیٹے…!“
”ہمارے…؟“
وہ اس ایک لفظ سے کچھ اور بھی اُلجھی۔
”صرف پاپا یا وہ بھی…؟“
”کیا وہ اس سے پہلے بھی آپ کو کال کرتا رہا ہے پاپا…؟“
”ہاں…! ہماری اکثر بات ہوتی رہی ہے۔ “
پاپا کا انداز ہنوز نارمل تھا جبکہ ایمان کے لئے یہ کسی انکشاف سے کم نہیں تھا۔
”آپ کو پتا ہے پاپا…! وہ ڈاکٹر بھی ہے اور سی ایس ایس بھی کر رہا ہے…؟“
”آئی نو بیٹا…! میں جانتا ہوں۔
آخر بھتیجا ہے ولید میرا…!“
اب کی بار شاید پاپا مسکرائے بھی تھے۔ وہ کچھ خفت زدہ ہوگئی۔ آخر وہ اُسے کیوں مسلسل ڈِسکس کر رہی ہے…؟
پاپا اُسے باقاعدگی سے دوا لینے۔ خوراک پہ توجہ دینے اور اپنا خیال رکھنے کی تاکید کر رہے تھے۔
”جی بہتر…! کسی اور سے بات کریں گے…؟“
اس نے سعادت مندی سے سرہلا کر سوال کیا۔
”نہیں…! میری بات ہوتی رہتی ہے سب سے۔
بس تم سے نہیں ہو پاتی۔بہت خفا تھی میری بیٹی…؟“
انہوں نے اس پہ ہلکی سی گرفت کی تو ایمان بے تحاشا خجل ہو کر رہ گئی۔
”نہیں تو پاپا…!“
اور جس پل وہ الودعی کلمات ادا کرکے فون بند کر رہی تھی، ادھ کھلے دروازے پہ ہونے والی دستک پہ چونک کے متوجہ ہوئی۔ دروازے کے باہر ولید کی جھلک دیکھ کر اس کی نگاہیں ساکن ہوگئیں۔ وہ کھنکارتا ہوا اندر چلا آیا تو ایمان نے خود کو سنبھال کر جب اور کچھ نہ سوجھا تو چہرے اور گردن کے ساتھ کاندھوں پر بکھرے بالوں کو سمیٹ کر کیچر میں جکڑنے لگی۔
”بابا نے مجھے آپ کی خیریت دریافت کرنے بھیجا ہے۔ چیک اَپ کی بھی تاکید کی ہے۔“
ولید کی نگاہ اس کے گلابی مائل حسین و دلفریب نقوش سے سجے ساحرانہ چہرے پہ اُٹھتی گرتی ریشمی پلکوں میں ایک لمحے کو اُلجھی تھی۔ وہ گویا اپنی وہاں موجودگی کی وضاحت پیش کر رہا تھا۔ایمان نے جواب میں خاموشی کو اختیار کیے رکھا تو وہ خود کو احمق تصور کرنے لگا۔
”کیسا محسوس کر رہی ہیں اب آپ خود کو… ؟“
وہ کچھ توقف سے بولا تو لہجے میں خفیف سی تپش تھی۔
”جی بہتر…!“ اس نے دھیمے سے جواب دیا۔
”بہتر ہوگا، آپ مجھے نبض چیک کرا دیں۔“
وہ کسی قدر جھجک کر کہہ رہا تھا۔ اسی کترائے ہوئے انداز میں ایمان نے بھی اپنی کلائی آگے کی تھی۔ ولید کی نگاہ میں سعادت مندی کے اس مظاہرے پہ حیرت در آئی مگر جلد خود کو سنبھال کر اس کی سفید کلائی پہ انگشت شہادت اور انگھوٹھے سے دباؤ ڈالا۔
”ٹمپریچر کم ہے، بہتر ہے آپ سوپ یا دلیہ کھالیں۔ زیادہ چلنے پھرنے سے پرہیز کیجئے۔ دوا رات والی ہی استعمال کر لیجئے گا۔ شام تک مزید بہتری کی توقع ہے۔“
وہ اپنا ہاتھ ہٹا چکا تھا۔ بات کرنے کا انداز مخصوص ڈاکٹری پیشہ ورانہ تھا۔
”آپ کی طبیعت اب کیسی ہے…؟ عاقب بھائی بتا رہے تھے آپ کو بھی شاید ٹھنڈ لگ گئی تھی…؟“
###