اس کے ایگزام نزدیک آگئے تھے۔ پاپا نے اُسے کالج جانے اور پڑھائی پہ توجہ دینے کی خاص تاکید کی تھی اور وہ خود بھی سنجیدہ تھی۔ بابا نے کہا تھا، وہ اس کی بکس وغیرہ کل تک بھیج دیں گے۔ آج ہی نیہاں نے بھی طویل مسیج میں اُسے ڈیٹ شیٹ بھیجی تھی۔
”پریشان کیوں ہوتی ہو…؟اگر پڑھائی میں کسی قسم کی مشکل ہو تو ولید بھائی اور عاقب ہیں ناں…!“
اُسے سوچ میں گم دیکھ کر فضہ جو بیڈ شیٹ دھونے کے ارادے سے اُتار رہی تھی، مشورے سے نوازا۔
”ولید بھائی اور عاقب ہیں ناں…؟“
ایمان نے زیر لب اس کا فقرہ دُہرایا اور اُسے بے دریغ گھورا۔
”اگر ولید بھائی ہو سکتا ہے عاقب سے چھوٹا ہو کر، تو عاقب کیوں نہیں…؟“
بھنوؤں کو جنبش دیتے ہوئے وہ بے حد کڑے انداز میں اس کا گھیراؤ کر رہی تھی۔
(جاری ہے)
فضہ بیچاری واقعی ہی گڑبڑا گئی، اور خفت مٹانے کو بولی۔
”اچھا…! میں نے ایسا کہا، مجھے تو خیال ہی نہیں آیا۔
“
”پہلے خیال آیا ہوگا، جبھی تم نے یہ فضول حرکت کی ہے۔ فٹافٹ اُگلو، اصل بات کیا ہے…؟“
وہ اُسے کسی طور بھی بخشنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ فضہ کھسیا کر ہنس پڑی۔
”حولدارنی صاحبہ…! تفتیش پھر کبھی کر لینا، ابھی مجھے کپڑے دھونا ہیں۔“
وہ بھی صاف کترائی تھی، مگر ایمان نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں سے پردے اور بیڈ شیٹ جھپٹ کر دُور پھینک دی۔
”فضہ…! مجھے پتا چل چکا ہے، تم کن ہواؤں میں اُڑنے کی کوشش کر رہی ہو…؟ یعنی حد ہوگئی۔ اتنا لو ہوگیا ہے تمہارا سینڈر کہ تم اب معمولی شکل کے ایک پینڈو شخص کی محبت کا شکار ہوگئی…؟ کان کھول کر سن لو…! تم اگر چاہو بھی تو میں تمہیں یہ حماقت نہیں کرنے دوں گی، سمجھی…؟“
وہ جس طرح آنکھیں نکال کر غرا کر بولی تھی، اس کے لہجے میں جو تضحیک اور حقارت کا عنصر تھا، اس نے فضہ کا بھی اشتعال بڑھا دیا تھا۔
جبھی وہ جواباً اُسے گھورتے ہوئے سرد لہجے میں بولی۔
”دِس اِز ٹو مچ ایمان…! انف…! تم مجھے صرف ایک بات بتا دو…! کیا سمجھتی ہو تم خود کو…؟ آسمان سے اُتری ہوئی ہو…؟ یا ہمارے وجود کو کوئی ہیرے موتی جَڑے ہوئے ہیں۔ عاقب یا تاؤ کی فیملی ہرگز بھی گری پڑی نہیں ہے کہ تم ان کے متعلق اتنی سطحی بات کہو۔ اگرعاقب مجھے پسند کرتا ہے یا میں عاقب کو، تو اس میں ہمیں تمہارا فیصلہ لینے کی ہرگز بھی ضرورت نہیں پڑتی، اس لئے کہ زندگی ہمیں گزارنی ہوگی۔
تکبر کی جس سیڑھی پر تم کھڑی ہو ناں…! وہاں سے انسان ہمیشہ منہ کے بل ہی گرتا ہے۔ بہتر ہے کہ سنبھل جاؤ۔“
فضہ نے جارحانہ انداز میں کہا تھا اور اُتھل پتھل سانسوں کے ساتھ جب پلٹ کر دروازے سے نکل کر باہر آئی تو برآمدے میں ولید حسن کو ایک سکتے کی سی کیفیت میں کھڑے پا کر اس کا اضطراب اور تھکن جیسے ایک دم ہی مزید بڑھ گئی تھی۔ کچھ بھی کہے بغیر اس نے انتہائی بے کسی کی کیفیت میں کسی مجرم کی طرح ہی سر جھکا دیا تھا۔
ولید حسن نے ہاتھ میں پکڑا کتابوں کا بنڈل وہیں کونے میں پڑے میز پر رکھا اور انہی قدموں سے پلٹ گیا۔ فضہ کے دل کا بوجھ کچھ اور بڑھنے لگا۔
###
”چلو پھر شرط لگ جائے
میں ثابت آج کر دوں گی
کہ تم نے دل لگی کی ہے
محبت نام کی ،کی ہے
سن کر اس کی باتوں کو میں بولا
سادہ دل لڑکی
اگر میں دل لگی کرتا
تو جینے سے نہ یوں ڈرتا
محبت نام کی کرتا
وفائیں عام سی کرتا
مگر پھر بھی انا تیری
تیری تسکین کی خاطر
یہ کہتا ہوں
ہاں میں نے دل لگی کی تھی
تجھے اپنا ہی سمجھا تھا
تجھے دل سے لگایا تھا
جہاں نہ کوئی غم پہنچے
وہاں تجھ کو چھپایا تھا“
وہ خاموش، اُداس بیٹھی جیسے پہلے چولہے کی راکھ بلیسن سے کرید رہی تھی، ویسے ہی کریدتی رہی۔
عاقب جس نے محض اس کا موڈ بدلنے کو یہ طویل نظم بنائی تھی، بدمزہ سا ہوگیا۔
”کیابات ہے بھئی…! یہ اُداس بلبل کیوں بنی بیٹھی ہیں…؟“
”نہیں تو…!“
وہ سرجھٹک کر بولی، مگر عاقب کو ہرگز اس کی بات کا یقین نہیںآ سکا تھا۔
”کوئی پریشانی ہے یا آپ پہ بھی ایمان والی کیفیت طاری ہو رہی ہے…؟“
”ایمی کی وجہ سے پریشان ہوں۔
وہ خفا ہوگئی ہے مجھ سے۔“
اس کی آواز جیسے آن کی آن میں بوجھل ہونے لگی۔ عاقب نے اُلجھ کر اُسے دیکھا تھا۔
”خفگی کی کوئی وجہ بھی تو ہوگی…؟“
”یہ مت پوچھیں پلیز…!“
اس نے عاجزی سے کہا تھا۔ آنکھوں کی سطح بہت سرعت سے گیلی ہونے لگی تھی۔
”اوکے…! نہیں پوچھتا،یہ بتائیں…!غلطی کس کی طرف سے ہوئی تھی…؟آپ کی یا اس کی…؟“
”اس کی…! وہ شدید قسم کی غلط فہمیوں کا شکار ہے۔
“
فضہ نے بلا جھجک کہا ۔ اندر داخل ہوتے ولید حسن کے چہرے پہ ایک تلخ مسکراہٹ بکھر گئی۔
”وہ حقیقت پسند ہیں فضہ جی…! میں انہیں غلط نہیں کہوں گا۔“
ولید حسن کسی قدر سرد آواز میں کہتا، ساس پین میں چائے کے لئے پانی رکھنے لگا۔ عاقب نے بہت حیران کن نگاہ سے اُسے دیکھا تھا۔
”تم جانتے ہو ساری بات…؟“
”جی…! بس اتفاقاً سن لی تھیں، جیسے ابھی آپ کی باتیں سن لی ہیں۔
“
وہ نارمل انداز میں کہہ کر شلف سے چینی اور پتی کے ڈبے اُٹھانے لگا۔ فضہ ہونٹ بھینچے بیٹھی تھی۔
”آپ لوگ چائے پئیں گے…؟“
ولید نے ساس پین کے پانی میں پتی ڈالتے ہوئے دونوں کو باری باری دیکھا۔عاقب نے ہاں، جبکہ فضہ نے نفی میں جواب دیا۔
”پی لیں…! سر کے درد کو افاقہ ہوگا۔ ورنہ حالات تو سدھرنے والے ہیں نہیں۔“
اس کے مدہم لہجے میں فضہ کے لئے ہمدردی تھی۔
فضہ نے شاکی نگاہ اس پر ڈالی اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”مجھے صرف اس سے نہیں، آپ سے بھی شکایت ہے۔“
اس کی بات پہ ولید چکرا کر رہ گیا تھا۔
”یہ تو خیر، اب زیادتی ہے۔ میں نہ تین میں نہ تیرہ میں۔“
وہ بے ساختہ بلبلایا۔ انداز ایسا تھا کہ اتنی ٹینشن اور ناراضگی کے باوجود فضہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔
”اگر آپ اپنی بے نیازی اور اکڑ کو ذرا سا ڈھیلا کر لیں تو اُسے راستے پہ بھی لایا جا سکتا ہے، مگر آپ…“
”ایں…؟“
ولید کا منہ کھل گیا۔
پھر بے چارگی سے بولا۔
”آپ کو میرے سر کے یہ حسین اور گھنے بال اچھے نہیں لگتے…؟کیوں مجھ بیچارے کو گنجا دیکھنے کی متمنی ہیں…؟اپنی خونخوار ڈئیر سسٹر کا پتا ہے ناں آپ کو…؟“
اس کے بات کرنے کے انداز پہ فضہ کا ہنستے ہوئے برا حال ہونے لگا۔عاقب جو نافہم نظروں سے باری باری دونوں کو دیکھ رہا تھا، کسی قدر تپ اُٹھا تھا۔
”میں تم دونوں کو احمق اعظم نظر آتا ہوں…؟ بیچ میں مجھے بٹھا کر خود دونوں کھی کھی کر رہے ہو…؟“
”یہ لیجئے…! جل گئے محترم…! ہنستے مسکراتے توکسی کو دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں یہ۔
چلیے…! آپ ہی بتا دیجئے انہیں ساری بات، میں ابا کو چائے دے آؤں۔“
وہ چھان کر چائے پیالی میں نکال کر باہر نکل گیا، جبکہ فضہ مخمصے میں پڑ گئی۔ کیسے بتائے…؟ جبکہ عاقب سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے سنسر کر کے بتانا شروع کیا۔
###