Episode 28 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 28 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

اشعر آج یونیورسٹی سے آتے ہوئے چلغوزے، مونگ پھلیاں، ریوڑھی کے علاوہ اپنے مند پسند تل کے لڈو بھی لایا تھا۔ اس کا ارادہ آج موج مستی کا تھا، جبھی پہلے گھر کے پچھواڑے کھلے کچن احاطے میں جس کے گرد تاؤ جی نے چار دیواری کر چھوڑی تھی، آگ کا الاؤ روشن کیا، پھر بڑے اہتمام سے پانچ کرسیاں اس کے اطراف سیٹ کیں، ایک چھوٹی سی ٹیبل پہ یہ کھانے کی تمام چیزیں رکھیں، خود چائے بنا کر تھرموس میں بھری اور ٹرے میں کپ سجا کر انہیں بھی ٹیبل پہ رکھ آیا۔

”اب آپ لوگ بھی اُٹھ جاؤ…!“
اس نے ٹی وی کے آگے کسی ٹاک شو میں مگن عاقب، فضہ اور ولید کو باری باری ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔
”مگر کیوں…؟“
سب سے زیادہ اختلاف ولید کو ہوا تھا۔ وہ ابھی اُٹھ کر اسٹڈی کا ارادہ باندھ رہا تھا۔

(جاری ہے)

”اُفق کے اس پار جہاں زمین و آسمان ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ زمین و آسمان کے ملاپ کا مطلب سمجھتے ہیں ناں…؟“
اس کا لہجہ و انداز دونوں ہی معنی خیز تھے۔
فضہ نے چونک کر دیکھا، جبکہ ولید نے گھور کر۔ عاقب ہنسنے لگا۔
”سمجھتے ہیں جناب…! یہ بتاؤ…! تم نے ولید کو آسمان کہا ہے یا زمین…؟“
”میں اگر کچھ کہوں گا تو چھوٹا منہ بڑی بات ہو جائے گی۔ سمجھنے والے نادان تھوڑا ہی ہیں۔“
وہ خوب صورت مسکان کے ساتھ کن اکھیوں سے ولید کو دیکھ کر بدستور اس کا ہاتھ پکڑے ساتھ گھسیٹ رہا تھا۔
ولید نے سنجیدہ مگر سرد نگاہ اس پہ ڈال کر گویا اُسے حد میں رہنے کی تائید کی، مگر وہ بسور اُٹھا تھا۔
”پلیز ولی بھائی…! ہر وقت میرے ٹیچر نہ بنا کریں۔ اس وقت میرا موڈ اچھا ہے۔ اپنے بہت قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا اس مسکین کو بھی دے دیں ناں…!ساری عمر دُعائیں دے گا۔“
اس کے انداز میں ایسی لجاجت تھی کہ ولید گہرا سانس بھر کے جیسے بے بس ہوگیا۔
”پلیز…! تشریف کے ٹوکرے رکھئے، میں ذرا ایک اور پہاڑ سر کر آؤں، تاکہ کورم مکمل ہو۔“
وہ دانت نکالتا واپس بھاگ گیا۔ فضہ تو جیسے ماحول کے سحر میں گم ہوگئی تھی۔ تاریک سرد رات، آسمان پہ کہیں کہیں ستارہ تھا، چاند سرے سے غائب، ایسے میں کھلے آسمان تلے جلتی آگ کے گرد اپنی من پسند شخصیت کی قربت کو محسوس کرنا بے حد خوب صورت احساس تھا۔
”محترم کے ارادے خطرناک لگتے ہیں۔“
عاقب چیئر سنبھال کر بیٹھ گیا۔ فضہ نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ جب سے ولید نے وہ انکشاف کیا تھا، وہ فطری طور پر اس سے ہچکچا رہی تھی۔اس وقت بھی خاموشی سے لفافوں میں سے چیزیں پلیٹوں میں منتقل کرتی رہی۔
”آپ بہت خاموش ہیں، خیریت…؟“
عاقب نے کچھ اچھنبے میں گھِر کر اُسے دیکھا تھا۔
ولید، عاقب کے برابر چیئر سنبھالتے ہوئے خواہ مخواہ کھنکارا مگر عاقب کا سارا دھیان فضہ کی جانب تھا۔ وہ پہلے توکبھی ایسے چپ نہیں رہی تھی۔ یہ تشویش فطری تھی۔
”اینی پرابلم…؟“
وہ اب کے کچھ بے چینی سے گویا ہوا تو ولید کی ہنسی چھوٹ گئی۔
”نو… نو پرابلم…! بس…! آگاہیوں کی زد پہ ہیں۔“
ولید نے کسی قدر شرارت سے کہا تو فضہ نے بے اختیار مگر دھمکی آمیز انداز میں اُسے گھورا۔
”خبردار جو مزید کچھ بولے آپ…! ابھی اُٹھ کے چلی جاؤں گی ورنہ۔“
”ہائیں ہائیں…؟ یہ غضب مت کیجئے، چراغوں میں روشنی نہیں رہے گی۔“
مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائے وہ مسلسل اسے زِچ کرنے کے موڈ میں تھا۔
”آپ اپنے چراغوں کی روشنیوں کی خیر منائیے…! موصوف ابھی پہاڑ سر کر کے لوٹے نہیں ہیں۔“
وہ سخت چڑ کر بولی۔ ولید اس کی جھنجلاہٹ پہ اور بھی زور سے ہنس پڑا۔
”ہماری بات مت کیجئے…! ہم صابروں کے قبیلے میں سے ہیں۔“
”تو آپ باز نہیں آئیں گے…؟“
فضہ نے آنکھیں نکالیں۔
”نہ ہماری مجال…! یہ لیں، ہونٹوں پر اُنگلی بھی رکھ لی۔“
وہ سہمنے کی اداکاری کرنے لگا۔ عاقب دلچسپی سے ان کا مکالمہ سن رہا تھا۔ پھر کچھ کئے بغیر ذرا سا آگے جھک کر ٹی پارٹ سے چائے کپ میں نکالنے لگا۔
”ویسے سر…! آپ کی خام خیالی ہے کہ موصوف کچھ جانتے نہیں ہیں۔
گھنے ہیں پورے، ہماری گفتگو کے ایک ایک حرف سے آگاہ تھے کہ ہم کون سی ٹون میں، کس کے حوالے سے بات کر رہے تھے…؟“
وہ خاموش رہ جائے، یہ تو اب ناممکن تھا۔ فضہ نے چونک کر اُسے دیکھا۔ پھر شدید خفت کے عالم میں اُسے ایک گھونسہ دے مارا تھا۔ وہ خواہ مخواہ بلبلانے لگا۔
”مائی گاڈ…! ریسلر تو نہیں رہی ہیں آپ کسی دور میں…؟ مجھے تو عاقب کی ہڈیوں پسلیوں کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔
فضہ کوئی جواب دینا چاہ رہی تھی، مگر اشعر کے ساتھ ایمان کو آتے دیکھ کر اسی سمت متوجہ ہوگئی۔
”دن میں نہائی تھیں محترمہ…! مگر آنے سے اس وجہ سے انکاری تھیں کہ سردی لگ رہی ہے۔ اسی لئے تو کہتا ہوں، کھایا پیا کریں، ماڑی جان کے سو سیاپے ہوتے ہیں۔ بیٹھیں یہاں…!“
اشعر نے اُسے جو کرسی پیش کی تھی، وہ ولید کے برابر تھی، اس نے دانستہ اس کرسی کو چھوڑا اور جا کے فضہ کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گئی۔
اب وہ ولید کے بالکل مدمقابل تھی۔درمیان میں آگ روشن تھی۔ نارنجی شعلوں کا رقص جاری تھا اور ان کی تپش اس کے ہوش ربا چہرے کو کچھ اور بھی حسین تر بنا کر دکھا رہی تھی۔ ولید کی نگاہ اپنے اختیار سے باہر ہونے لگی۔
”آپ سب کو اندازہ تو ہوگیا ہوگا، ہم یہاں وقت کو یادگار بنانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ آغاز اشعر حسن شاہ کریں گے، پھر حسب توفیق سب کو اپنا ذوق آشکار کرنا پڑے گا، اور یہی اس محفل میں بیٹھنے کی شرط ہے۔
وہ چند ثانیوں کو خاموش ہوا، پھر گلا کھنکار کر بڑے درد مند سے انداز میں شروع ہوا تھا۔
”نظروں سے نظریں ملائیں تو برا مان گئے
ہم نے آنکھوں سے کیا اشارہ تو برا مان گئے
محبتوں کا اظہار اپنوں نے بھی کیا تھا
حالِ دل ہم نے سنایا تو برا مان گئے
ہر بات پہ مسکرانا عادت تھی ان کی
ہم نے ذرا سا ہنسایا تو برا مان گئے
ہمیں آزمانے کی بات کرتے تھے وہ اکثر
جب ہم نے آزمایا تو برا مان گئے
پیار میں بے وفائی نہ کرنا اکثر وہ کہا کرتے تھے
اس بات کو ہم نے دُہرایا تو برا مان گئے“
”یار…! اِسے برا ماننے کے سوا بھی کچھ آتا تھا…؟ لعنت بھیج ایسی لڑکی پہ…!“
عاقب کی طرف سے مفت مشورہ حاضر ہوا۔
اشعر نے فرمانبرداری سے سر ہلایا، پھر چلغوزوں کی پلیٹ سے مٹھی بھر کے اپنی شرٹ کی جیب میں منتقل کی اور تِل کے لڈو اُٹھا کر کھانے لگا۔ سب ہی کچھ نہ کچھ کھا رہے تھے، سوائے ایمان کے، جو بند مٹھی ٹھوڑی پہ ٹکائے شال لپیٹے آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں پہ نگاہ جمائے ہوئے تھی اور اس کی غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ولید اُسے حفظ کر رہا تھا۔ چائے کا مَگ اس کے ہاتھ میں پکڑا ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ وہ گویا جیسے اُسے دیکھتا ہوا پورے ماحول سے کٹ چکا تھا۔
”ولی بھائی…! آپ کچھ سنائیے ناں…!“

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط