”اس کی چاہت کا صلہ یاد نہیں
یاد ہے جرم، سزا یاد نہیں
توڑ کر ہمسفری کا رشتہ
وہ کہاں چھوڑ گیا یاد نہیں
اپنے گرنے کا سبب یاد تو ہے
کس بلندی سے گرا یاد نہیں
یاد ہے اس کا بچھڑنا ہم کو
پھر ہمیں جو بھی ملا یاد نہیں“
رات چونکہ وہ بہت دیر تک جاگی تھی، تبھی صبح آنکھ کھلی تو گیارہ بج رہے تھے۔ اوپر مکمل طور پر خاموشی تھی۔
وہ فریش ہونے کے بعد نیچے آگئی تو صحن میں بچھی چارپائی پہ موبائل فون پڑا تھا، جس پہ یہ غزل چل رہی تھی۔ وہ نظر انداز کئے کچن کی سمت بڑھ گئی کہ ڈیوڑھی میں کھڑی بائیک کو پائپ لگا کر دھوتے ہوئے ولید کو دیکھ کر وہ اتنا تو جان گئی تھی کہ یہ سیل فون اُسی کا ہے۔
کچن صاف ستھرا تھا اور فضہ کچن میں نہیں تھی۔
(جاری ہے)
”فضہ…! فضہ…!“
جب نیچے کے دونوں کمرے بھی چیک کر لئے تو اس نے برآمدے میں کھڑے ہو کر فضہ کو آواز دی تھی۔
دادا اپنے کمرے میں سو رہے تھے جبکہ تائی ماں کا کمرہ خالی تھا۔ ولید کے کمرے اور بیٹھک میں اس نے اس لئے نہیں جھانکا کہ وہاں فضہ کی موجودگی کا امکان بہت کم تھا۔
ولید حسن نے اس کی پکار پہ مُڑ کے دیکھا۔ گلابی لانگ سکرٹ اور بلیو ٹاپ پہنے، لانبے بالوں کی چوٹی بنائے، سر پہ اونی گلابی ہی ٹوپی تھی۔ وہ کوئی خوب صورت نازک سی گڑیا دکھائی دے رہی تھی۔
”فضہ گھرپہ نہیں ہیں۔ اماں اور چاچی جان کے ساتھ حرا آپا کی طرف گئی ہیں۔ شاید ثانیہ کی شاپنگ کے سلسلے میں۔“
ولید حسن نے اس کی تسلی کی خاطر جامع اور تفصیلی جواب دیا تھا۔ وہ جو پانی کی دھار کے ساتھ بائیک کے پہیوں سے گدلے پانی کو بہہ کر تیزی سے نشیب کی طرف جاتے دیکھ رہی تھی، بری طرح سے ٹھٹکی۔
”واٹ…؟ یعنی وہ سب لوگ مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے…؟“
وہ پہلے زور سے چیخی تھی، پھریہ انداز خودکلامی اور انتہائی غمگین ہو کر رہ گیا تھا۔
”ڈونٹ وری…! اشعر کے علاوہ دادا بھی گھر پہ ہیں۔“
اُسے لگا کہ وہ مسکرایا ہے۔ ایمان کا روم روم سلگ اُٹھا۔ وہ پیر پٹختی ہوئی دوبارہ کچن میں جا گھسی۔
”سوئی ہوئی ہی تھی ناں…! مر تو نہیں گئی تھی کہ مجھے ناشتہ بھی کرنا تھا، کم از کم کھانے کو تو کچھ دے جاتی مجھے۔جانتی بھی تھی مجھے کچھ بنانا نہیں آتا۔“
دُھلے دُھلائے برتن پٹختے ہوئے وہ اتنی زور زور سے بول رہی تھی کہ باہر ڈیوڑھی میں مصروف ولید تک اس کی آواز بآسانی جا پہنچی۔
اُسے اس کے موڈ کی خرابی کا اندازہ ہوا تو پائپ پھینکا، نل بند کیا اور ہاتھ دھو کر کچن کی سمت بڑھ آیا جہاں بڑبڑاہٹوں اور برتن پٹخنے کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔ وہ اُسے متوجہ کرنے کو کھنکارا۔ ایمان جو غم و غصے کی زیادتی میں اس کے وجود کو فراموش کر بیٹھی تھی، چونک کر متوجہ ہوئی اور سلگتی نظروں سے اُسے گھورا۔
”جی فرمائیے…؟“
عجیب انداز تھا، تنفر سے بھرپور۔
”میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں، اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو…؟“
وہ بہت محتاط سے انداز میں بولا تھا۔ ایمان نے کھا جانے والی نظروں سے اُسے دیکھا۔
”کیا کریں گے…؟ ناشتہ بنا کر دے سکتے ہیں مجھے…؟“
”جی…! آئی تھنک…!“
وہ مسکرایا اور آگے بڑھ آیا۔ فریج کھول کرانڈے اور ڈبل روٹی نکالی، ساتھ میں دودھ کا برتن بھی۔ تینوں چیزیں سلیپ پر رکھیں، پھرماچس اُٹھا کر مٹی کے تیل کا چولہا جلانے لگا۔
بلیک جینز جس کے پائنچے فولڈ کر رکھے تھے، آسمانی شرٹ کی دونوں آستینیں کہنیوں تک موڑی ہوئی تھیں۔ ماتھے پہ بکھرے بالوں سمیت وہ اس عام سے حلیے میں بھی ہرگز نظر انداز کئے جانے والا نہیں تھا۔ وہ اس کی خاطر اپنا کام اُدھورہ چھوڑ آیا تھا اور اب اس کی بھوک کا خیال کرتے ہوئے خود اس کے لئے اہتمام کر رہا تھا۔ اس انداز کی یہ اہمیت اس کے اندر ایک انوکھا احساس جگانے لگی۔
پہلی بارایمان کو اس کی جاذبِ نظر پرسنالٹی کا ادراک ہوا۔ وہ عجیب قسم کی کیفیات کا شکار ہوتی، بے دھیانی میں مسلسل اُسے تکنے لگی اور یقینا یہ اس کی نگاہوں کے ارتکاز کا ہی نتیجہ تھا کہ سلائس گرم کرتے ہوئے ولید نے مصروفیت کے عالم میں سرسری سا سر اُٹھا کر دیکھا اور اُسے یوں یک ٹک نکتہ پا کر ہلکا سا چونکا۔
”پلیز…! صرف پانچ منٹ ویٹ کریں۔
“
وہ سادگی و متانت سے بولا۔ ایمان نے فی الفور نگاہ کا زاویہ بدل ڈالا۔
”یہ لیجئے…! آپ کا گرما گم ناشتہ…!“
وہ واقعی اگلے چند لمحوں میں ٹرے اس کے سامنے لے آیا۔
”ہاف فرائی انڈہ، سنکے ہوئے سلائس، چائے کا مَگ اور دودھ کا گلاس۔ اُسے یہ دیکھ کر گہرے استعجاب نے آن لیا کہ یہ وہی ناشتہ تھا جو وہ ہر روز کرتی تھی۔ اس نے متحیر نگاہوں کو اُٹھایا اور جیسے خائف سی ہوگئی۔
وہ جھک کر ٹرے اس کے سامنے رکھ گیا تھا۔ اس کا لمبا چوڑا مضبوط وجود ایک لمحے کو سہی، گویا اس کے نازک سراپے پہ چھا سا گیا تھا۔ اس کے منہ سے اُٹھتی آفٹر شیو لوشن کی مہک نے اس کے حواسوں کو جکڑ لیا تھا۔ محض ایک لمحے کی بات تھی، مگر وہ اسی ایک لمحے میں جیسے گم ہوگئی تھی۔
ولید حسن نے پھر سے پلٹ کر بہت سلیقہ مند سگھڑ خاتون کی طرح دودھ کا برتن، بریڈ کا پیکٹ واپس فریج میں رکھا اور انڈوں کے چھلکوں کو کچن میں ہی سائیڈ پہ دھری ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔
دھونے والے برتن اُٹھا کر سنک میں رکھ دیئے۔ ہر شے پہلے کی طرح معمول پر آگئی تھی، سوائے ناشتہ کرنے والی کے۔
”سنیں…!“
وہ پلٹ کر دروازے سے نکل رہا تھا، جب وہ بے اختیار پکار بیٹھی۔
”جی…!“
وہ وہیں سے گردن موڑ کر سوالیہ انداز میں اسے دیکھ رہا تھا۔ انداز میں وہی بے نیازی اور ٹھہراؤ تھا۔
”یہ سب کیوں کیا آپ نے…؟ آئی مین…“
وہ کچھ کہہ نہیں پائی تو ہونٹ بھینچ لئے۔
ولید جیسے اس کی اَن کہی بات سمجھ کر رواداری سے مسکرایا تھا۔
”آپ ہماری مہمان ہیں، آپ کی ضرورت کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری…!“
نرمی سے اپنی بات مکمل کر کے وہ باہر نکل گیا تھا۔ ایمان سر جھٹک کر ناشتہ کرنے لگی۔ مگر یہ سچ تھا کہ دل کہیں اندر ہی اندر پہلی بار اس کی اچھائی کا قائل ہوا تھا۔
###