Episode 33 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 33 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”آج بناؤں گی اپنی دھی کے لئے، دیسی گھی اور کھویا ڈال کر۔ ولید بھی شوق سے کھاتا ہے۔“
تائی ماں نے گویا اطلاع دی تھی، مگر وہ فضہ کی سمت متوجہ ہوگئی۔
”کیا پکایا ہے آج…؟“
گھر میں چکراتی پکوڑوں کی مہک محسوس کر کے اس نے بیسن پر ہاتھ دھوتے ہوئے استفار کیا۔
”کڑھی…! بھوک لگی ہے تو روٹی ابھی ڈال دوں تمہارے لئے…؟“
فضہ نے کچن کی کھڑکی سے جھانکا، مگر وہ منع کرتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
 
ماما اپنے کمرے میں بستر میں لیٹی سیل فون پر مصروف تھیں، یقینا بابا سے بات کر رہی تھیں۔
”کب ہوگا یہ مسئلہ حل…؟ کب تک پڑے رہیں گے ہم یوں کسی کے در پر…؟ میری بیٹی یہاں نوکرانی بنی ہوئی ہے۔ آپ کو احساس ہے کچھ…؟“
ایمان اُلٹے قدموں باہر نکل گئی۔

(جاری ہے)

اس کے دل پہ ایک بوجھ سا آگرا تھا۔

”ماما صحیح کہتی ہیں۔ کتنی آکورڈ پوزیشن ہوگئی ہے ہماری…!“
اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں تو ہونٹ بھینچ کر دیوار کے ساتھ لگی چارپائی بچھا کر تھکے ہوئے انداز میں اس پر بیٹھ گئی۔
 
”ایمی…! ایمان گڑیا…!“
تبھی عاقب حسن اُسے پکارتا ہوا اوپر آگیا۔ اُسے یوں بیٹھے دیکھ کر ٹھٹکا۔
”خیریت…؟“
اس کی نگاہوں میں اُلجھن تھی۔
”جی…! آپ کو کچھ کام تھا…؟“
اس کا لہجہ پھر سے وہی نخوت اور تلخی سمٹ لایا تھا، جو یہاں آنے کے بعد سے اس کے انداز میں رَچ بس گئی تھی۔
”یہ تمہاری نوٹ بک اور قلم ہے، تم گاڑی میں ہی چھوڑ آئی تھیں۔
ہاتھ میں پکڑی دونوں چیزیں اس کی سمت بڑھاتے ہوئے وہ متانت سے بولا ۔
”تھینکس…! آپ کو زحمت ہوئی۔“
اس کا لہجہ ہنوز تھا۔ عاقب کو اس کے موڈ کی خرابی کا احساس ہوا تو کچھ دیر کو یوں خاموش ہوگیا جیسے اس سچوایشن کو ہینڈل کرنے کا مناسب حل سوچ رہا ہو۔
”میں نے آپ سے ایک بار پہلے بھی کہا تھا ایمان…! کہ اپنوں میں یہ سب نہیں ہوتا۔
ایک ذرا سی نوٹ بک اور قلم آپ تک پہنچانے میں بھلا میری کتنی انرجی ویسٹ ہوئی ہوگی…؟ سویٹ ہارٹ…! ایسی ننھی منی باتوں کو ذہن پہ سوار مت کیا کرو۔ ابھی تمہارے ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں۔ اِنجوائے یور سیلف…!“
وہ اس کا سرتھپک کر واپس مُڑ گیا۔ لہجے میں حلاوت، ٹھہراؤ اور رسانیت کے ساتھ محبت و اپنائیت کا بھی احساس تھا۔ وہ آنسو بھری نظروں سے اُسے جاتے دیکھتی رہی تھی۔
پھر اُٹھ کر اپنے کمرے میں ا ٓکر چپ چاپ بستر میں گھس گئی۔ 
ماما شاید واش روم میں تھیں، ان کا سیل فون مسلسل بج رہا تھا، مگر وہ کان بند کئے پڑی رہی۔ بالآخر گھنٹی بند ہوگئی، مگرچند لمحوں کے توقف سے اس کے سویٹر کی جیب میں پڑا اس کا اپنا سیل فون وائبریٹ کرنے لگا تھا۔ وہ سمجھ گئی، پاپا کال کر رہے ہیں۔ سویٹر کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس نے اسکرین پر نگاہ کئے بغیر آف کا بٹن دبا دیا۔
”اگرآپ کو ہماری اہمیت اورعزتِ نفس کا احساس نہیں ہے تو ہمیں بھی آپ کی بات نہیں سننا۔“
وہ ایک بار پھر ان سے شدید خفا ہو چکی تھی۔ آنسو بہاتے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی…؟ دوبارہ اس وقت کھلی جب فضہ نے اُسے زبردستی جگایا تھا۔
”واٹ نان سنس…! کیا طوفان آگیا ہے کوئی…؟“
وہ نیند خراب ہونے پہ دھاڑی تھی۔
”کھانا کھا لو…! پھر سو جانا…!“
فضہ بیچاری خفیف سی ہوگئی۔
”نہیں کھانا مجھے تمہارا یہ اسپیشل کھانا…! اونہہ…! کڑی پکوڑے نہ ہوئے، مرغ مسلم ہوگیا…؟“
وہ حقارت سے بولی۔ فضہ نے چونک کر اُسے دیکھا۔
”تمہیں جو کھانا تھا، وہ بتا دیتیں، میں بنا لیتی۔“
”ہاں…! تم بنا لیتی، تم نوکرانی ہو ناں…؟ کبھی میری پسند کا بناتی، کبھی گھر والوں کے نخرے اُٹھاتی۔“
فضہ ششدر ہوگئی۔
”ایمی…! کیا ہوگیا ہے…؟“
”پاگل ہوگئی ہوں، دماغ ستیا گیا ہے، اور کیا…؟“
وہ اتنی وحشت سے چلائی کہ آواز پھٹ گئی۔ فضہ نے ہونٹ بھینچ لئے تھے۔
”جس دن میں گھر پہ نہیں تھی، اس روز تمہیں ولید نے ناشتہ بنا کر دیا تھا۔ کیا تم نے اُسے اپنے ملازموں کی فہرست میں شامل کر لیا…؟ نہیں ایمی…! یہ محبتوں اور احساس کی بات ہوتی ہے، دلوں میں گنجائش نکلے، تب ہی یہ کام ہو پاتے ہیں۔
مگر تم نہیں سمجھ سکتی۔“
”تمہیں کس نے بتایا کہ مجھے ولید نے اس روز ناشتہ بنا کر دیا تھا…؟“
وہ زہر خند لہجے میں بولی ۔ فضہ نے گہراس سانس کھینچ لیا۔
”کم از کم ولید نے نہیں بتایا۔ ڈونٹ وری…!“
”پھر کس نے بتایا…؟ تب گھر پہ صرف دادا تھے، وہ بھی سو رہے تھے۔“
وہ چٹخنے لگی۔
”اشعر بھی تھا، اشعر نے ہی مجھے بتایا تھا، وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ خوش تھا کہ تمہاری ولی بھائی سے صلح ہوگئی ہے۔
فضہ نے گویا وضاحت دے کرجان چھڑائی۔ ایمان کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
”میں اُسے اس قابل بھی نہیں سمجھتی کہ اس سے لڑائی کروں۔ تعلق ہی کیا ہے میرا اس سے…؟“
اس کے لہجے میں تنفر ہی تنفر تھا۔
”جانتی ہوں، بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔“
فضہ نے بے ساختہ ٹوک دیا اور اُٹھ کر چلی گئی۔ وہ بعد میں بھی بہت دیرتک جلتی کُڑھتی رہی تھی۔
                                              ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط