”میری آنکھوں پہ مرتا تھا
میری باتوں پہ ہنستا تھا
نہ جانے شخص تھا کیسا
مجھے کھونے سے ڈرتا تھا
مجھے جب بھی وہ ملتا تھا
یہی ہر بار کہتا تھا
سنو!
اگر میں بھول جاؤں تو
اگر میں روٹھ جاؤں تو
کبھی واپس نہ آؤں تو
بھلا پاؤ گی یہ سب کچھ
یوں ہی ہنستی رہو گی کیا
یوں ہی سجتی رہو گی کیا
یہی باتیں ہیں بس اس کی
یہی یادیں ہیں بس اس کی
مجھے معلوم ہے بس اتنا
مجھے وہ پیارکرتا تھا
مجھے کھونے سے ڈرتا تھا“
اس نے طویل سانس بھرا اورکتاب بند کر دی۔
آج ثانیہ کی مایوں تھی اور فضہ چاہتی تھی، وہ بھی اس کے ساتھ شریک ہو۔ مگر وہ صاف انکار کر چکی تھی۔
”تمہیں پتا ہے ناں…! میرے ایگزام ہو رہے ہیں۔
(جاری ہے)
“
روز کے آنے جانے کا طویل سفر اسے بہت تھکا جاتا تھا۔
”آئی پرامس…! میں تمہیں جلد واپس بجھوا دوں گی، بہت مزہ آئے گا۔“
”میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔“
وہ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی اَڑی دکھا رہی تھی۔
”اتنا حسین سوٹ لائی ہوں تمہارے لئے، اس کا کیا ہوگا…؟“
”تم پہن لینا۔“
اس نے نروٹھے پن سے کہہ ڈالا۔
”میرے پاس اپنا ہے، اس احسان کی ضرورت نہیں…!“
فضہ روٹھے ہوئے انداز میں کہہ کر وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی تھی۔ اس نے کتاب کھولی، مگر پڑھائی میں دھیان نہیں لگ رہا تھا۔ عجیب سی قنوطیت تھی۔ اس نے کتابیں سمیٹ کر رکھ دیں اور وہیں لیٹ گئی۔
”دھی رانی…! ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئی ہے…؟“
تائی ماں جانے کس کام کی غرض سے اوپر آئی تھیں، اسے یوں لیٹے دیکھ کر حیرانی سے پوچھا۔ خود وہ ہلکے بادامی ریشمی سوٹ میں تیار ہو چکی تھیں، ساتھ میں بلوچی کڑھائی کی سیاہ چادر۔
”اس لئے کہ میں نہیں جا رہی ہوں تائی ماں…!“
اس نے کروٹ بدلتے ہوئے بادل ناخواستہ جواب دیا۔
”کیوں پتر…؟ کیوں نہیں جا رہی…؟ سب وہاں تیرا پوچھیں گے۔“
”آپ کہ دیجئے گا، طبیعت ٹھیک نہیں۔“
”ہائیں…؟ کیاہوا میری دھی کو…؟ پھر بخار ہوگیا کیا…؟“
تائی ماں فوراً اس کی پیشانی چھو کر دیکھنے لگیں۔ وہ سخت بے زار ہوگئی۔
”بخار نہیں ہے تائی ماں…! سرمیں درد ہے۔“
اس کے لہجے میں اُکتاہٹ بھر گئی۔
”ولید سے کہتی ہوں، تمہیں سر درد کی گولی دے دے۔
پھر تیار ہو جا پتر…! سب جارہے ہیں، توکیا کرے گی یہاں رہ کر…؟“
اس کا سر تھپک کر کہتی ہوئیں وہ واپس مُڑ گئیں۔ ایمان بڑبڑاتے ہوئے اُٹھ کر تیار ہونے کے لئے چل دی۔ بہرحال وہ جان گئی تھی، کم از کم آج جان چھٹنے والی نہیں ہے۔
###
”نہ وہ ملا نہ ملنے کا اشارہ کوئی
کیسے اُمید کا چمکے گا ستارہ کوئی
حد سے زیادہ نہ کسی سے بھی محبت کرنا
جان لے لیتا ہے جان سے پیارا کوئی“
واش بیسن کے اوپر لگے آئینے کے آگے کھڑا وہ شیو بنانے میں مصروف تھا، جب فضہ کے بآواز بلند پڑھے گئے اشعار پہ مسکرا کر متوجہ ہوا۔
”واٹ یو مین…؟ یہ نصیحت ہے یا…“
”نصیحت ہی سمجھ لیں…! ویسے آپ کے لئے اچھی اطلاع نہیں ہے۔ وہ نہیں جا رہی ہے۔“
فضہ کے انداز میں مایوسی تھی۔ وہ کاندھے اُچکا کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
”میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہا تھا۔ اتنا اصرار مت کریں۔ وہ مشکوک ہو سکتی ہے۔“
”یہی تو بات ہے کہ وہ مشکوک ہوتی نہیں ہے۔ مجھے اکثر حیرانی ہوتی ہے۔
آپ کے جذبوں کی شدت اس تک کیوں نہیں پہنچتی…؟“
”اس لئے کہ یہ فلم یا ناول نہیں ہے سویٹی…! زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے۔“
وہ شیوکر چکا تھا، تولیے سے منہ صاف کرتے ہوئے بولا۔
”جو بھی ہے، بہرحال مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔“
فضہ اپنی بات کہہ کر تائی ماں کے کمرے میں گھس گئی جو اسے پکار رہی تھیں۔ انہیں اس کی صلاح سے وہاں دینے والے کپڑے باکس سے نکالنے تھے۔
مما بھی وہیں تھیں۔
وہ نہانے کے لئے واش روم کی سمت آیا تو اشعر وہاں پہلے سے گھسا ہوا تھا۔ وہ اس کے انتظار میں وہیں چارپائی پر بیٹھ گیا۔ تب ہی فضہ کو پکارتی وہ اپنے دھیان میں سیڑھیاں اُترتی نیچے آتی نظر آئی۔ ولید نے سرسری سے انداز میں نظر اُٹھائی تھی، مگر صحیح معنوں میں وہ مبہوت رہ گیا تھا۔
بلیک جارجٹ شیفون کا اسٹائلش سا سوٹ جس کے دامن اور دوپٹے کے پلوؤں پہ پٹا پٹی کا کام جھلمل جھلمل کر رہا تھا، اس کی گوری رنگت اس میں ایک دم لشکارے مارتی محسوس ہو رہی تھی۔
ہوش رُبا حسن کا بجلیاں گراتا ہوا یہ دل کش روپ کسی کے بھی حواس چھین لینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ تو پھر اس کا پہلے سے اسیر تھا۔ وہ کچھ لمحوں کو اپنی نگاہوں پہ اختیارکھو بیٹھا۔
اور یہ اس کی نگاہوں کی تپش کا ہی شاخسانہ تھا کہ ایمان نے اچانک پلکیں اُٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ اس کی نگاہوں سے ایک ناگواری کا احساس اس کے چہرے سے چھلکا اور اگلا قدم اُٹھائے جانے کیسے اس کا پیر رپٹ گیا۔
اس کے حلق سے ایک دل خراش چیخ نکلتی چلی گئی تھی۔
ولید فوراً اسی گھبراہٹ اور سراسیمگی کے عالم میں اُٹھ کر اندھا دُھند اس کی سمت بھاگا، کچھ اس طرح کہ راستے میں پڑی تپائی اور سبزیوں کی ٹوکری بھی اسے نظر نہیں آئی، وہان سے اُلجھتا ہوا خود گرتا بچا تھا۔
###