Episode 35 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 35 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”آر یو اوکے…؟“
وہ جتنی تیزی سے بھاگ کر اس تک پہنچا تھا، نزدیک آکر اتنی ہی آہستگی سے جھجک زدہ آواز میں گویا ہوا۔ایمان جو ایک دو زینے تک ہی پھسلی تھی،پھر ریلنگ تھام کر سنبھل گئی تھی، جبھی چوٹ تو اتنی نہیں آئی، مگر اس کے سامنے گرنے پہ سبکی کا احساس ضرور آنکھوں کو نم کر گیا تھا۔ بھینچے ہوئے ہونٹوں سمیت چھلکتی آنکھوں میں خفگی بھرے ایک نظر ہی اُسے دیکھ پائی کہ تب تک اندرکمرے سے مما کے ساتھ تائی ماں اور فضہ بھی بدحواسی میں اُٹھ کر باہر آگئیں تھیں کہ اس کی چیخ بآسانی اندر سُنی گئی تھی۔
”ہائے میں مر گئی، کیسے گر گئی ہے بچی…؟“
تائی ماں نے دیکھتے ہی شور مچا دیا، جبکہ فضہ آگے بڑھ کر اُسے سہارا دے کر اُٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔
”کہاں چوٹ آئی ہے بیٹے…؟ بتاؤ توسہی…!“
ماما کی تشویش بھی فطری تھی۔

(جاری ہے)

اُسے وہاں سے اُٹھا کر صحن میں بچھی چارپائی پہ بٹھا دیا گیا تھا۔

”ویاہ پہ جانے کو تیار ہونے آئی تھی میری دھی…!لگ بھی تو اتنی سوہنی رہی تھی۔
جانے کس بدخواہ کی نظر لگ گئی…؟“
تائی ماں کی اپنی باتیں تھیں۔ ایمان کی نگاہ بے ساختہ اُٹھی۔ وہ وہیں خفیف سے تاثرات لئے کھڑا تھا۔ اس الزام پے جیسے جزبز ہو کر رہ گیا۔ فضہ کی ہنسی چھوٹنے لگی۔
”حد ہے تائی ماں…! یہاں بھلا کس کی نظر لگتی ہے…؟سب ہی تو اپنے ہیں۔“
فضہ نے گویا بات اڑائی،مگر تائی ماں کا یقین کامل تھا۔
”ارے…! نظر بھی تو اپنوں کی لگتی ہے۔
ہماری ساس اللہ بخشے کہا کرتی تھیں،بچے کو سب سے زیادہ نظر اپنی ماں کی ہی لگتی ہے۔ ماں کو ہی زیادہ پیارا جو لگتا ہے۔“
”مائی گاڈ…! تائی ماں…! ماما توہمارے ساتھ تھیں ناں کمرے میں، جبکہ محترمہ اوپر کے پورشن سے تیار ہو کر نیچے آ رہی تھیں، اوپر صحن میں کوئی نہیں تھا، سوائے ولید کے۔“
فضہ نے یوں ہی وضاحت کی، مگر آخری فقرہ اس نے کسی قدر شرارت میں ادا کیا۔
ولید اتنا جزبز ہوا کہ فی الفور وہاں سے پلٹ گیا۔
”کدھر جارہا ہے اب…؟ بچی کو دیکھ تو سہی…! پیرمیں موچ تو نہیں آگئی…؟“
تائی ماں نے اندر کمرے میں گھستے ولید کو بے ساختہ آواز دی۔وہ رُک تو گیا، مگر پلٹ کر واپس نہیںآ یا۔
”آجائیے آجائیے…! آپ کی عافیت اِسی میں ہے۔“
اماں نے بھلے منہ سے نہیں کہا، مگر ان کا انداز صاف کہہ رہا ہے۔
”نظر لگا کر اب کدھر جارہے ہو…؟ اپنا بھگتان بھگتو…!“
واش روم کے دروازے پر کھڑے تولیے سے سر کے بال رگڑ کر خشک کرتے اشعر نے مزہ لے کر سرگوشی کی۔ ولید کی سرخ ہوتی رنگت گویا اس کے ضبط کی گواہ تھی۔ وہ پیر پٹختا ہوا واپس آیا تھا۔
”آپ خاموش کیوں ہیں…؟انہیں بتاتی کیوں نہیں کہ میں نے آپ کو نہیں گرایا ہے…؟یہ سب کا غلط خیال ہے کہ میں نے آپ کو نظر لگائی ہے۔
اس ساری صورتِ حال نے جتنی بدمزگی اور کڑواہٹ اس کے اندر بھری تھی، وہ ساری ولید نے ایمان پر اُلٹ دی۔ تائی ماں ”ہائیں ہائیں“ کرتی رہ گئی تھیں۔ ولید کے تاثرات بے حد کبیدہ تھے۔ تائی ماں نے اُسے گھورا۔
”میں تجھے کہہ رہی ہوں بچی کا پیر دیکھ…! تو اُلٹا اس پر برسنا شروع ہوگیا ہے…؟“
”پہلے اپنی بچی سے تو پوچھ لیں، وہ مجھ سے چیک کرانا چاہے گی بھی کہ نہیں…؟“
وہ کچھ اور بدمزہ ہوا کہ ایمان کے چہرے پر اُمڈتی محظوظ کن مسکان اُسے پتنگے لگا چکی تھی۔
”میں نے کب انکار کیا ہے تائی ماں…؟ شاید ان کی اَنا کو گوارہ نہیں ہے کہ یہ میرے پیر کو ہاتھ لگائیں…؟“
ایمان نے اتنی معصومیت سے کہا تھا کہ ولید اس کی مکاری پہ دانت کچکچا کر رہ گیا۔ فضہ کو اپنی مسکراہٹ چھپانے کی غرض سے منہ پھیرنا پڑا۔
”ادھر کریں سامنے اپنا پاؤں…!“
وہ جیسے طوعاً و کرہاً پنجوں کے بل چارپائی کے پاس اکڑوں بیٹھ گیا۔
چہرے کے ناخوش گوار تاثرات ایمان کو اس سچوایشن میں لطف اندوز کرنے لگے۔ اُسے کہیں بھی چوٹ نہیں آئی تھی، کہنی اور گھٹنے پہ گھسیٹ کر لڑھکنے سے ایک آدم کھرونچ ضرور آئی تھی، مگر اس پل وہ اس مغرور، نک چڑھے اور بے نیاز نظر آنے والے ولید کو محض زِچ کرنا چاہ رہی تھی۔ جبھی سلور سینڈل سمیت اپنا سفید مرمریں پیپر یوں ہی اس کے آگے کر دیا۔ ولید نے اس حرکت پہ اچنبھے میں گھِر کر اس کی صورت دیکھی اور آنکھوں میں مچلتی شرارت پہ جل کر راکھ ہوگیا۔
”کم از کم جوتا تو خود اُتار لیں…؟ میں ڈاکٹر ضرور ہوں، زر خرید غلام نہیں۔“
اب کے وہ صحیح معنوں میں بھڑکا تھا۔ فضہ دفعتاً ایمان کی اس حرکت پہ متحیر رہ گئی تھی۔
”افوہ…! ایمی…! حد ہے بھئی…! لاؤ میں اُتاروں جوتا۔“
اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسٹریپ کھولا اور جوتا پیر سے نکال لیا۔ ولید نے اس کا پیر ہلا جلا کر معائنہ کیا، پھر سر اُٹھا کر اُسے دیکھا۔
”موچ تو نہیں آئی ہے۔ورم بھی نہیں ہے پیر پہ۔ کہاں درد محسوس کر رہی ہیں آپ…؟مجھے بتائیں…!“
اس کی نگاہوں میں اُلجھن تھی۔
”میں نے کب کہا مجھے درد محسوس ہو رہی ہے…؟وہ تو تائی ماں نے کہا،چیک کرا لو تو میں نے کرا لیا۔“
اس اعلیٰ درجے کی معصومیت کے مظاہرے نے ولید کے اعصاب کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اگلے ہی لمحے وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور ہونٹ بھینچے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں جا گھسا۔
”یہ کیا حرکت تھی ایمی…؟“
فضہ کا انداز بے حد کڑا تھا۔ وہ کاندھے اُچکا کے چیونگ گم چبانے لگی۔
”بتایا تو ہے، تائی ماں…“
”شٹ اَپ…!اتنی فرمانبردار نہیں ہو تم…!“
فضہ بے ساختہ برس پڑی۔
”یو شٹ اَپ…! وہ خود کو جانے کیا افلاطون سمجھے بیٹھا ہے…؟میں نے ذرا اُسے جتایا ہے کہ بہرحال اُسے بھی بے وقوف بنایا جا سکتا ہے، اینڈ دیٹ سیک…!“
اس کے اطمینان میں ذرّہ برابرجو فرق آیا ہو،فضہ متاسفانہ نظروں سے اُسے دیکھ کر رہ گئی۔
تب ہی تائی ماں چمٹے سے تھالی اُٹھائے برآمد ہوئی تھیں، جس میں جلتی ہوئی مرچیں تھیں،جن کی باس سے ان دونوں کے ساتھ ماما بھی چھینکنے لگیں۔ مگر تائی ماں بہت مگن سے انداز میں تھالی کو ایمان کے سر پر گول گول چکر دینے میں مصروف رہی تھیں۔
”افوہ…! تائی ماں…! یہ کیا کر رہی ہیں آپ…؟“
فضہ نے ہاتھ سے دُھوئیں کو ہٹاتے ہوئے آنکھوں سے بہتا پانی صاف کیا۔
”نظر آتار رہی ہوں بچی کی، اتنے لوگوں میں جا رہی ہے۔“
ان کے جواب پہ فضہ کا جی چاہا تھا، اپنا سر پیٹ لے۔ کچھ کہے بغیر اس نے سب سے پہلے چمٹے سمیت تھالی ان کے ہاتھ سے پکڑی اور کچن میں جا کر سنک میں رکھنے کے بعد ٹونٹی کھول دی۔
”اس سے کچھ نہیں ہوتا تائی ماں…! محض رزق کی بے حرمتی ہے۔ آپ نظر بد سے حفاظت کے لئے آیت الکرسی پڑھ کر اس پہ پھونک مار دیں، ہر قسم کی حفاظت اللہ کے ذمے…!“
فضہ نے باہر آکے رسانیت و نرمی سے سمجھایا۔
تائی ماں کچھ خفیف سی ہوگئیں۔
”ارے بیٹا…! ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا تھا ناں…!“
”اِٹس اوکے…! اب میں بھی تیارہو لوں۔“
وہ نرمی سے کہہ کر سیڑھیوں کی سمت چلی گئی۔ تب ہی اپنے کمرے سے اشعر کھانستا ہوا باہر نکلا تھا۔
”افوہ…! کیا پھونک دیا ہے…؟“
”تمہارا دل…!“
ایمان نے روئے سخن اس کی طرف کیا، وہ کاندھے اُچکانے لگا۔
”اتنا فالتو نہیں ہے میرا دل کہ یوں چولہے میں جھونک دیا جائے۔“
”اتنا خاص بھی نہیں ہے کہ سنبھال کر رکھ لیا جائے۔“
”خدا نہ کرے کہ میرے نصیب میں آپ جیسی نخریلی لڑکی ہو، جس کے پلّے بندھیں گی، بیچارہ عمر بھر سر پکڑ کر روئے گا۔“
”اپنی خیر مناؤ…!“
”ہائیں…؟ کہیں آپ کے ارادے خطرناک تو نہیں…!“
وہ سہمنے کی اداکاری کرنے لگا۔
”یہ منہ اور مسور کی دال…!“
”اس کا کیا مطلب ہے…؟“
وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹانے لگا۔
”شکل دیکھی ہے کبھی آئینے میں…؟“
وہ نخوت سے ناک چڑھا کر بولی۔
”الحمدللہ…! ہر روز کئی بار دیکھتا ہوں، کبھی جی نہیں بھرا، مگر کبھی غرور بھی نہیں کیا۔“
”ایمی…! نیہاں کی کال ہے، آکر بات کر لو۔“
”یہ بحث ابھی طول پکڑتی، اگر جو فضہ اُسے اوپر سے نہ پکارلیتی۔ وہ اُسے منہ چڑھاتی اُٹھ کر بھاگ گئی تھی۔
                                           ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط