”چاند تاروں سی حسین ذات میرے نام کرو
اپنی زُلفوں کی سیاہ رات میرے نام کرو
اپنی آنکھوں میں مچلتے ہوئے دریا سارے
اپنی آنکھوں کی یہ برسات میرے نام کرو“
وہ اپنے کمرے میں بستر پہ اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا۔ ٹیپ ریکارڈر پہ گیت چل رہا تھا، مگر اس کی ساری توجہ اپنی ڈائری میں رقم نظم پہ تھی۔ ایک عجیب سی یاسیت اس کے رَگ و پے میں سرایت کر چکی تھی۔
تاؤجی نے اس بار چاچو سے بات کی تھی اور انہوں نے فضہ کی رضامندی سے عاقب اور فضہ کی باقاعدہ منگنی کا اعلان کر دیا تھا۔ گھر کی فضاء میں ایک خوش گوار ہلچل اور جوش پایا جاتا تھا۔ مگر ولید کے اندر اضطراب در آیا تھا۔ فضہ نے ایک بار پھر اُسے اُکسایا ۔
”آپ کے اندر کوئی کمی نہیں ہے ولی بھائی…!کہ وہ انکار کرے۔
(جاری ہے)
ایک بار بات تو کر کے دیکھیں اُس سے۔
“
اور وہ اُسے بتا نہیں سکا تھا کہ یہ معاملہ کسی کمی بیشی کا نہیں، اَنا کو توڑنے کا تھا۔ وہ جھکنے پہ آمادہ نہیں تھا کہ اُسے اپنے جذبوں کی توہین گوارہ نہیں تھی۔ ایمان جیسی سر پھری لڑکی سے کچھ بعید نہیں تھا۔ پھر جبکہ وہ اپنی اَنا کی تسکین کی خاطر بار بار تردید بھی کر چکا تھا۔
”تتلیاں پھول محبت کے گلابی لمحے
اپنی یادوں کی بارات میرے نام کرو
اپنے جیون کے سبھی درد مجھے دے دو تم
اپنے جذبات کی ہر بات میرے نام کرو“
اس نے ایک طویل سانس کھینچا اور اُٹھ کر دروازہ کھولنے سے قبل ٹیپ آف کر دیا۔
”کہاں گم ہیں…؟ ابا بلا رہے ہیں آپ کو…!“
دروازے پہ اشعر تھا، اس کا ستا ہوا چہرہ دیکھ کر بولا۔
”تم چلو…! میں آتا ہوں۔“
وہ پلٹ کر پیروں میں سلیپر پہننے لگا۔
”بندے کو اتنا بھی اَنا کا ضدی نہیں ہونا چاہئے کہ زندگی کی خوشیوں کو ہی خود پہ حرام کر لے۔“
اشعر کو اس کی آنکھوں کی سرخیوں نے اذیت دی تھی، جبھی کلس کر بولا۔
ولید نے اُسے آنچ دیتی نظروں سے دیکھا اور سائیڈ سے ہو کر ابا کے کمرے کی سمت آگیا۔
”آپ نے بلایا بابا…؟“
دستک دے کر اس نے اندر قدم رکھا تو انہیں دادا کے ساتھ کسی بحث میں مصروف پایا تھا۔
”ہاں…! آؤ بیٹھو ادھر، آگیا ہے، خود بات کر لیں اب۔“
انہوں نے پہلے اُسے، پھر دادا کو مخاطب کیا تھا۔ انداز کی ناراضگی چھلکی پڑ رہی تھی۔
ولید نے محتاط نظروں سے انہیں دیکھا۔ وہ کیا، گھر کے سبھی افراد اس سے روٹھے بیٹھے تھے۔
”کیا کہہ رہا ہے باپ تیرا…؟تو نے منع کیا ہے کہ تمہارے حوالے سے ارتضیٰ سے کوئی بات نہ کرے…؟“
”یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہے ابا جی…! یہ ہمیشہ سے خود مختاررہا ہے۔ زیادہ پڑھ لکھ گیا ہے ناں…! اس لئے اب ہم جیسوں کی عقل اور فیصلوں پر اعتبار نہیں ہے اسے۔
“
انہوں نے کسی قدر کلس کرباپ کو جواب دیا، مگر اس طرح کہ اُسے ہی سنایا تھا۔ ولید نے بے بس سی نظروں سے باری باری دونوں کو دیکھا ۔
”بابا…! پلیز، آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔“
”ناں تو پھر یہ بات نہیں ہے کیا…؟کیوں تجھے لگتا ہے کہ تیرا چاچو تجھے ہی رشتہ سے منع کرے گا…؟ ارے…!اُسے دونوں بیٹیاں برابر کی عزیز ہیں۔ اگر وہ بڑی بیٹی کا رشتہ ہنس کر دے سکتا ہے تو چھوٹی…“
”میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ چاچو منع کریں گے بابا…! دونوں لڑکیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
فضہ یہاں آئی ہے تو رَچ بس گئی ہے۔ اس گھر کو اپنا گھرسمجھ لیا ہے اس نے، جبکہ وہ…“
وہ کچھ دیر کے لئے رُکا، پھر دوبارہ گویا ہوا۔
”آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ وہ انکار کر کے میری توہین کر دے…“
وہ خفیف سی جھنجلاہٹ سمیت کہہ کر انہیں تکنے لگا تو تاؤ جی کو کچھ اور بھی تپ چڑھ گئی۔
”ہاں…! اُسے تو الہام ہوا ہے ناں کہ بچی نے انکار کر دینا ہے… تمہاری طرح ہی ہر کوئی تھوڑا ہوتا ہے… اکڑو اور بے لحاظ…“
تاؤ جی نے اُسے بے نقط سنائی تھیں۔
وہ سرجھکائے ان کی گرمی سہتا رہا۔
”آپ پتھر سے سر پھوڑ رہے ہیں ابا جی…!چھوڑیں اُسے جانے دیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا…؟میں اپنے سے چھوٹے بھائی کے سامنے شرمندہ ہی ہو جاؤں گا ناں…؟ کہ اگربچپن میں دونوں بیٹیوں کی بات کی تھی تو اب ایک کو کیوں چھوڑ دیا…؟ مجھے تو لگتا ہے، اپنے کالج یونیورسٹی میں ہی کسی لڑکی سے چکر چلا کے بیٹھا ہوا ہے۔
“
تاؤ جی کا پارہ اس کی خاموشی کو دیکھ کر ایک دم چڑھ گیا۔ اس کی یہ چپ انہیں سراسر اس کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی محسوس ہوئی تھی۔ وہ بے ساختہ بوکھلا کر رہ گیا۔
”حد کرتے ہیں بابا…! آپ بھی۔ ایسا سمجھ رہے ہیں مجھے…؟“
وہ سٹپٹا کر وضاحتیں دینے لگا، مگر انہوں نے سنا کہاں تھا…؟
”میں تجھے اس سے بھی کچھ زیادہ ہی سمجھ رہا ہوں۔
آئندہ مجھ سے بات بھی مت کرنا۔ یہی دن دیکھنے کے لئے میں نے خود مشقتیں سہہ سہہ کر تمہیں منزل پہ پہنچایا تھا…؟ایسا ہی ہوتا ہے پُتر…! تو کچھ دُنیا سے نیا اورالگ تھوڑا ہی کر رہا ہے…؟“
وہ اس پر اپنی کوئی تپش نہ جلتی دیکھ کر جذباتی بلیک میلنگ پر اُتر آئے۔ ولید تو چکرا کر رہ گیا تھا اور فوراً ہتھیار ڈال دئیے۔
”معاف کر دیں مجھے…! غلطی پہ تھا میں جو آپ کے سامنے اپنے نظریات رکھنے کی غلطی کی۔
ٹھیک ہے…! آپ کو جو کچھ کرنا ہے کریں، منگنی بھی نہ کریں، سیدھا نکاح کر دیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اب خوش…؟“
جھنجلاہٹ، خفگی،بے بسی، کیا کچھ نہ تھا اس کے لہجے میں…؟ تاؤ جی نے قہر بار نظروں سے اپنے لائق فائق سپوت کو دیکھا جس پر آج سے قبل وہ برملا فخر کرتے رہے تھے۔
”ہماری لڑکی اتنی گری پڑی نہیں ہے کہ زبردستی تیرے پلّے باندھ دیں۔
کوئی ضرورت نہیں ہے یہ احسان کرنے کی۔“
تاؤجی کو تو اس کی بات پہ گویا پتنگے لگ گئے تھے۔ ولید کا جی چاہا، اپنا سر پھوڑ لے۔ وہ سخت عاجز ہوا تھا۔
”اب اور کیا کروں…؟ کسی طرح خوش بھی ہوں گے آپ…؟“
”تو اُٹھ اور جا یہاں سے، ہمیں تم سے کوئی خواہش نہیں ہے۔“
تاؤ جی نے بے رُخی و بے اعتنائی کی حد کر دی تو اُسے بھی تاؤ آگیا۔
اپنے پیچھے زور دار آواز کے ساتھ دروازہ بند کرتا وہ پیر پٹختا باہر چلا گیا۔ تاؤ جی نے ہونٹ بھینچ کر دادا کی سمت دیکھا۔
”دیکھا آپ نے اس کا طنطنہ…؟“
انہوں نے گویا باپ سے شکایت کی۔ وہ آہستگی سے مسکرا دیئے۔
”آپ ہنس رہے ہیں…؟“
تاؤ جی کو گویا شاک لگا۔ پھر کسی قدر شکایتی نظروں سے انہیں دیکھ کر بولے۔
”آپ کی شہہ پہ ہی وہ اتنا بگڑا ہے۔
“
”وہ بگڑا ہوا نہیں ہے۔ تم سے زیادہ سمجھ دار ہے۔ جس بات کو تم اپنی کم فہمی میں نہیں سمجھ سکے، وہ اسی سے خائف ہے۔“
”اس بات میں بھلا کیا مصلحت ہے…؟“
تاؤ جی بھڑک اُٹھے۔
”وہ خود ایمان کو بہت پسند کرتا ہے، مگر…“
دادا نے ساری بات مختصراً بتا دی، جسے سن کر تاؤ جی نے طویل سانس بھرا ، پھر رنجیدگی سے بولے۔
”جانتا ہوں، باپ ہوں اس کا، جب ہی تو چاہتا ہوں، اُسے اُس کے من کی مراد مل جائے۔
آپ کو پتا ہے ناں، میں نے بچوں کو اس لئے پڑھایا لکھایا تھا کہ یہ میرے بھائی کی بچیوں کے مقابل کھڑے ہوں، تو ان کے کسی انداز میں کمتری نہ ہو۔ میں اپنی بات بھی نبھانا چاہتا تھا کہ ارتضیٰ کی شادی کے بعد وہ ایک طرح سے ہم سے چھوٹ گیا تھا۔ میرے پاس اس کے سوا کوئی حل نہیں تھا، اُسے پھر سے خود سے موڑنے کا۔ خدا کا شکر ہے کہ آج اس نے مجھے سرخرو کیا ہے۔
مگر اب یہ آپ کا لاڈلہ…“
”اس نے تمہیں منع نہیں کیا ہے مصطفی…! تم اس کی نوکری لگنے تک انتظار کر سکتے ہو۔ ویسے بھی ایمان کی عمر ہی ابھی کیا ہے…؟ فضہ سے چار سال چھوٹی ہے وہ۔“
دادا نے رسانیت و نرمی سے کہا تو تاؤ جی خاموش ہوگئے تھے۔ ان کے انداز سے لگتا تھا انہیں باپ کی بات سمجھ آگئی ہے۔
###