Episode 42 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 42 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”کاہے کو فکر کرتی ہے پُتری…؟ ایسی دس گاڑیاں تیری جان کا صدقہ سمجھ کر وار دیں تیرے تاؤجی…! اللہ سوہنے کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری دِھی صحیح سلامت ہے۔“
”السلام علیکم…!آئی ایم ہارون کادوانی، فکر نہ کریں، انہیں زیادہ چوٹیں نہیں آئی ہیں۔ بائیں ٹانگ کا فریکچر ہوا ہے، میری ڈاکٹر سے بات ہوگئی ہے۔“
ہارون کادونی آگے بڑھ کر ولید سے مصافحہ کرتے ہوئے بولا تو ولید جو کسی قدر روتی بلکتی ہوئی ایمان کو مضطرب سا دیکھ رہا تھا، چونک کر اس کی سمت متوجہ ہوا۔
”بہت بہت شکریہ جناب…! آپ کے اتنے تعاون کا۔“
ولید واقعی مشکور ہوا تھا کہ ہارون نے نہ صرف ایمان کو ہاسپٹل پہنچایا تھا، بلکہ ایمان کے سیل فون میں جتنے بھی نمبرز تھے، سب پہ کال کر کے اس حادثے کی اطلاع پہنچا کر ہاسپٹل آنے کا کہا تھا، اور ان کے پہنچنے تک خود بھی وہاں موجود رہا تھا اور یہ آج کے اس مفاد پرست دور میں کسی کی اچھائی و بھلائی کا غماز تھا۔

(جاری ہے)

”نو تھینکس سر…! یہ تو میرا فرض تھا، کوئی احسان تھوڑا ہی کیا ہے آپ پر…؟ اگر سچ پوچھیں تو مجھے یہ سب بہت اچھا لگا ہے۔ اس حادثے کے سبب اتنے اچھے لوگوں سے ملاقات ہوگئی۔“
کچھ ایسا تھا انوکھا ہارون کادوانی کے لہجے میں کہ ولید نے چونک کر اُسے دیکھا اور اس کی نگاہوں کو ایمان کے چہرے کا مرکز پا کے اس کا فشارِ خون ہی نہیں بڑھا، چہرے کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں بھی سرخیاں اُتر آئی تھیں کہ ہارون کادوانی کی نگاہوں کا انداز ہی ایسا تھا۔
پھر ولید نے اس سے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی، مگر وہ تو گویا جان کو چپک گیا تھا۔ ایمان کو ڈِس چارج کروا کے جب وہ لوگ آنے لگے، تب بھی ہارون نے اپنی گاڑی میں انہیں گھر تک چھوڑنے کی آفر کی اور اس کے انکار کے باوجود منوا کر ہی دم لیا۔ اس کا یہ التفات ولید کے اعصاب پہ بوجھ بن کر گر رہا تھا۔
اور جس کی وجہ سے یہ سب ہو رہا تھا، وہ ہر بات سے بے نیاز پاپا کے کاندھے سے لگی کتنی مطمئن اور سرشار نظر آ رہی تھی۔
یہ ایک نگاہ اس کے چہرے پر ڈال کر ہی ولید کو اندازہ ہوگیا، اس کی جان جل کر خاک ہونے لگی تھی۔
###
”سکون بھی خواب ہوا نیند بھی ہے کم کم پھر
قریب آنے لگا دُوریوں کا موسم پھر
بنا رہی ہے تیری یاد مجھے سلگِ گہر
پرو گئی میری پلکوں پہ آج شبنم پھر
وہ نرم لہجے میں کچھ کہہ رہا ہے پھر مجھ سے
چھڑا ہے پیار کے کومل سروں مدھر پھر
تجھے مناؤں کہ اپنی اَنا کی بات سنوں
اُلجھ رہا ہے میرے فیصلوں کا ریشم پھر
نہ اس کی بات میں سمجھوں نہ وہ میری نظریں
معاملاتِ زبان ہو چلے ہیں مبہم پھر
بہت عزیز ہیں آنکھیں اُسے میری لیکن
وہ جاتے جاتے انہیں کر گیا ہے پرُ نم پھر“
وہ نڈھال سی بستر پر پڑی تھی۔
آج اس کا دل عجیب وحشتوں میں گھرا ہوا تھا
 ایک بار پھر اُسے لگا تھا جیسے واقعی وہ خوش گماں تھی۔ ورنہ وہ واقعی اس میں اِنٹرسٹڈ نہیں تھا۔ صبح شام تاؤ جی کی زبردست ڈانٹ سن کر وہ مارے بندھے ہی اس کی بینڈیج چینج کرنے آیا کرتا تھا، مگر اندازایسا اجنبیت سے بھرپور اور لاتعلقی لئے ہوتاکہ وہ بھی خالی نظروں سے اُسے دیکھتی رہ جاتی۔
”آج ابھی تک ولید نہیں آیا۔
دیکھنا کہیں چلا نہ جائے۔اتنے تو کام ہیں بیچارے کی جان کو لگے ہوئے، یاد بھی بھول سکتا ہے۔“
اُسے ان لایعنی سوچوں سے ماما کی آواز نے نکالا تھا جوفضہ سے مخاطب تھیں۔
”نہیں ماما…! ناشتہ کر رہے ہیں ولی بھائی…!ویسے میں انہیں جا کر یاد کراتی ہوں۔“
فضہ ان کے آگے ناشتے کی ٹرے رکھ رہی تھی۔ماما اس کی بیماری کی وجہ سے مستقل اس کے ساتھ رہتی تھیں۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے زحمت کی،ان سے کہہ دینا،جو وہ دن رات یہ احسان کرتے ہیں، بڑی مہربانی ہوگی جو اُسے اُٹھا لیں گے۔“
وہ جو پہلے ہی بے مائیگی کا شکار تھی،اس قسم کی باتیں سن کر جیسے حواسوں میں نہیں رہی تھی۔ جبھی تو دروازے سے اندر آتے ولید کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ ماما نے بے اختیار گھبرا کر اس کا ہاتھ دبا کر گویا ولید کی موجودگی سے آگاہ کرنا چاہا مگر وہ کچھ اور بھڑک گئی تھی۔
”ہاں تو سن لیں،جو بھی سنتا ہے سن لے، میں کسی سے ڈرتی نہیں ہوں۔“
وہ ضبط گنواتی چیخ پڑی تھی۔ ولید کچھ کہے بغیر آگے بڑھ آیا۔پلنگ کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ کر ہاتھ بڑھا کر بینڈیج اُتارنا چاہی تو ایمان نے بہت شدت سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”آپ تو مجبوراً بھی وہ کام نہیں کرتے جو آپ کا کرنے کو جی نہ چاہے، پھر یہ مجبوریاں کیوں نبھا رہے ہیں…؟“
وہ بے حد زور سے چیخی تھی۔
ولید نے ہونٹ بھینچ کر سرخ آنکھوں سے اُسے دیکھا۔
”کیا ہوگیا ہے ایمی…! کام ڈاؤن…!“
فضہ نے گھبرا کر اُسے کاندھوں سے تھاما، مگر وہ بپھرے ہوئے انداز میں اُسے بھی جھٹک کر سرک کر دُور ہوگئی۔
”پلیز فضہ…! انہیں کہہ دو، اپنی ہمدردیوں کی بھیک لے کر یہاں سے چلے جائیں۔“
وہ چیختے ہوئے نڈھال ہو کر ماما کی گود میں منہ چھپا گئی۔
ولید کچھ کہے بغیر اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ماما سسکتی بلکتی ایمان کو سنبھال رہی تھیں۔ فضہ بھاگ کر ولید کے پیچھے آئی جو لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے سیڑھیوں کی سمت جا رہا تھا۔
”آئی ایم سوری ولید بھائی…! وہ اَپ سیٹ ہے۔“
”کس وجہ سے…؟“
اس نے گہری کاٹ دار نظروں سے اُسے دیکھا۔
”اور پلیز…! آپ اس کی بدسلوکی کی مجھے سے معافی مت مانگا کریں، مجھے اچھا نہیں لگتا۔
وہ زندگی میں پہلی بار فضہ سے بھی تلخ کلامی کر گیا۔ فضہ نے متحیر ہو کر اُسے دیکھا، مگر وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگ گیا تھا۔ وہ پریشان سی ہو کر اس کے پیچھے آئی تھی، مگر تب تک وہ ڈیوڑھی میں کھڑی اپنی بائیک گھسیٹتا ہوا باہر نکل رہا تھا۔ وہ ہونٹ بھینچ کر اسے جاتے دیکھتی رہی تھی۔
                                         ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط