”کاہے کو فکر کرتی ہے پُتری…؟ ایسی دس گاڑیاں تیری جان کا صدقہ سمجھ کر وار دیں تیرے تاؤجی…! اللہ سوہنے کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری دِھی صحیح سلامت ہے۔“
”السلام علیکم…!آئی ایم ہارون کادوانی، فکر نہ کریں، انہیں زیادہ چوٹیں نہیں آئی ہیں۔ بائیں ٹانگ کا فریکچر ہوا ہے، میری ڈاکٹر سے بات ہوگئی ہے۔“
ہارون کادونی آگے بڑھ کر ولید سے مصافحہ کرتے ہوئے بولا تو ولید جو کسی قدر روتی بلکتی ہوئی ایمان کو مضطرب سا دیکھ رہا تھا، چونک کر اس کی سمت متوجہ ہوا۔
”بہت بہت شکریہ جناب…! آپ کے اتنے تعاون کا۔“
ولید واقعی مشکور ہوا تھا کہ ہارون نے نہ صرف ایمان کو ہاسپٹل پہنچایا تھا، بلکہ ایمان کے سیل فون میں جتنے بھی نمبرز تھے، سب پہ کال کر کے اس حادثے کی اطلاع پہنچا کر ہاسپٹل آنے کا کہا تھا، اور ان کے پہنچنے تک خود بھی وہاں موجود رہا تھا اور یہ آج کے اس مفاد پرست دور میں کسی کی اچھائی و بھلائی کا غماز تھا۔
(جاری ہے)
”نو تھینکس سر…! یہ تو میرا فرض تھا، کوئی احسان تھوڑا ہی کیا ہے آپ پر…؟ اگر سچ پوچھیں تو مجھے یہ سب بہت اچھا لگا ہے۔ اس حادثے کے سبب اتنے اچھے لوگوں سے ملاقات ہوگئی۔“
کچھ ایسا تھا انوکھا ہارون کادوانی کے لہجے میں کہ ولید نے چونک کر اُسے دیکھا اور اس کی نگاہوں کو ایمان کے چہرے کا مرکز پا کے اس کا فشارِ خون ہی نہیں بڑھا، چہرے کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں بھی سرخیاں اُتر آئی تھیں کہ ہارون کادوانی کی نگاہوں کا انداز ہی ایسا تھا۔
پھر ولید نے اس سے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی، مگر وہ تو گویا جان کو چپک گیا تھا۔ ایمان کو ڈِس چارج کروا کے جب وہ لوگ آنے لگے، تب بھی ہارون نے اپنی گاڑی میں انہیں گھر تک چھوڑنے کی آفر کی اور اس کے انکار کے باوجود منوا کر ہی دم لیا۔ اس کا یہ التفات ولید کے اعصاب پہ بوجھ بن کر گر رہا تھا۔
اور جس کی وجہ سے یہ سب ہو رہا تھا، وہ ہر بات سے بے نیاز پاپا کے کاندھے سے لگی کتنی مطمئن اور سرشار نظر آ رہی تھی۔
یہ ایک نگاہ اس کے چہرے پر ڈال کر ہی ولید کو اندازہ ہوگیا، اس کی جان جل کر خاک ہونے لگی تھی۔
###
”سکون بھی خواب ہوا نیند بھی ہے کم کم پھر
قریب آنے لگا دُوریوں کا موسم پھر
بنا رہی ہے تیری یاد مجھے سلگِ گہر
پرو گئی میری پلکوں پہ آج شبنم پھر
وہ نرم لہجے میں کچھ کہہ رہا ہے پھر مجھ سے
چھڑا ہے پیار کے کومل سروں مدھر پھر
تجھے مناؤں کہ اپنی اَنا کی بات سنوں
اُلجھ رہا ہے میرے فیصلوں کا ریشم پھر
نہ اس کی بات میں سمجھوں نہ وہ میری نظریں
معاملاتِ زبان ہو چلے ہیں مبہم پھر
بہت عزیز ہیں آنکھیں اُسے میری لیکن
وہ جاتے جاتے انہیں کر گیا ہے پرُ نم پھر“
وہ نڈھال سی بستر پر پڑی تھی۔
آج اس کا دل عجیب وحشتوں میں گھرا ہوا تھا
ایک بار پھر اُسے لگا تھا جیسے واقعی وہ خوش گماں تھی۔ ورنہ وہ واقعی اس میں اِنٹرسٹڈ نہیں تھا۔ صبح شام تاؤ جی کی زبردست ڈانٹ سن کر وہ مارے بندھے ہی اس کی بینڈیج چینج کرنے آیا کرتا تھا، مگر اندازایسا اجنبیت سے بھرپور اور لاتعلقی لئے ہوتاکہ وہ بھی خالی نظروں سے اُسے دیکھتی رہ جاتی۔
”آج ابھی تک ولید نہیں آیا۔
دیکھنا کہیں چلا نہ جائے۔اتنے تو کام ہیں بیچارے کی جان کو لگے ہوئے، یاد بھی بھول سکتا ہے۔“
اُسے ان لایعنی سوچوں سے ماما کی آواز نے نکالا تھا جوفضہ سے مخاطب تھیں۔
”نہیں ماما…! ناشتہ کر رہے ہیں ولی بھائی…!ویسے میں انہیں جا کر یاد کراتی ہوں۔“
فضہ ان کے آگے ناشتے کی ٹرے رکھ رہی تھی۔ماما اس کی بیماری کی وجہ سے مستقل اس کے ساتھ رہتی تھیں۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے زحمت کی،ان سے کہہ دینا،جو وہ دن رات یہ احسان کرتے ہیں، بڑی مہربانی ہوگی جو اُسے اُٹھا لیں گے۔“
وہ جو پہلے ہی بے مائیگی کا شکار تھی،اس قسم کی باتیں سن کر جیسے حواسوں میں نہیں رہی تھی۔ جبھی تو دروازے سے اندر آتے ولید کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ ماما نے بے اختیار گھبرا کر اس کا ہاتھ دبا کر گویا ولید کی موجودگی سے آگاہ کرنا چاہا مگر وہ کچھ اور بھڑک گئی تھی۔
”ہاں تو سن لیں،جو بھی سنتا ہے سن لے، میں کسی سے ڈرتی نہیں ہوں۔“
وہ ضبط گنواتی چیخ پڑی تھی۔ ولید کچھ کہے بغیر آگے بڑھ آیا۔پلنگ کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ کر ہاتھ بڑھا کر بینڈیج اُتارنا چاہی تو ایمان نے بہت شدت سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”آپ تو مجبوراً بھی وہ کام نہیں کرتے جو آپ کا کرنے کو جی نہ چاہے، پھر یہ مجبوریاں کیوں نبھا رہے ہیں…؟“
وہ بے حد زور سے چیخی تھی۔
ولید نے ہونٹ بھینچ کر سرخ آنکھوں سے اُسے دیکھا۔
”کیا ہوگیا ہے ایمی…! کام ڈاؤن…!“
فضہ نے گھبرا کر اُسے کاندھوں سے تھاما، مگر وہ بپھرے ہوئے انداز میں اُسے بھی جھٹک کر سرک کر دُور ہوگئی۔
”پلیز فضہ…! انہیں کہہ دو، اپنی ہمدردیوں کی بھیک لے کر یہاں سے چلے جائیں۔“
وہ چیختے ہوئے نڈھال ہو کر ماما کی گود میں منہ چھپا گئی۔
ولید کچھ کہے بغیر اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ماما سسکتی بلکتی ایمان کو سنبھال رہی تھیں۔ فضہ بھاگ کر ولید کے پیچھے آئی جو لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے سیڑھیوں کی سمت جا رہا تھا۔
”آئی ایم سوری ولید بھائی…! وہ اَپ سیٹ ہے۔“
”کس وجہ سے…؟“
اس نے گہری کاٹ دار نظروں سے اُسے دیکھا۔
”اور پلیز…! آپ اس کی بدسلوکی کی مجھے سے معافی مت مانگا کریں، مجھے اچھا نہیں لگتا۔
“
وہ زندگی میں پہلی بار فضہ سے بھی تلخ کلامی کر گیا۔ فضہ نے متحیر ہو کر اُسے دیکھا، مگر وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگ گیا تھا۔ وہ پریشان سی ہو کر اس کے پیچھے آئی تھی، مگر تب تک وہ ڈیوڑھی میں کھڑی اپنی بائیک گھسیٹتا ہوا باہر نکل رہا تھا۔ وہ ہونٹ بھینچ کر اسے جاتے دیکھتی رہی تھی۔
###