حرا آپا نے دونوں نئے جوڑوں کی وجہ سے ایک بار پھر پوری فیملی کی دعوت کی تو ولید ایمان کے لئے پہننے کو اپنی پسند کا سوٹ خرید کر لایا۔ ڈبہ اس کے سامنے پھینک کر وہ بے نیازی سے بولا تھا۔
”شام کو یہی کپڑے پہن کر تیار ہونا۔“
فضہ اتنی متجسس ہوئی کہ فوراً پیکٹ کھولنے لگی۔ میرون کلر کا بہت اسٹائلش سوٹ تھا۔ فضہ نے بے ساختہ تعریف کی۔
”لیکن ولید…! میرے اور فضہ کے لئے تو تائی ماں نے سوٹ اپنی پسند سے پہلے ہی نکال دیئے ہیں۔“
ایمان نے واش بیسن کے آگے کھڑے ہو کر پانی کے چھپاکے منہ پہ مارتے ولید سے کہا تھا۔ تائی ماں نے بہت شوق سے دونوں کے ایک جیسے لباس دیکھے تو پہننے کی فرمائش کر دی تھی۔ گو کہ ایمان کو وہ سوٹ اتنا خاص پسند نہیں تھا، لیکن وہ محض تائی ماں کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی، جبھی وہی سوٹ پہننے کا ارادہ کر لیا تھا۔
(جاری ہے)
”نہ نہ میری دِھی…! تو یہ ہی سوٹ پہن جو تیرے سر کا سائیں لے کر آیا ہے۔ میں نے تو یوں ہی اِک بات کہہ دی تھی۔ اِسے پھر کسی دن پہن لینا۔“
تائی ماں اس کی اس سعادت مندی پہ نہال ہی ہو اُٹھیں تھیں۔ اچھا تو ولید کو بھی بہت لگا تھا، مگر اس کی مجبوری یہ تھی کہ وہ اماں کی طرح نہ اس کی بلائیں لینے کی پوزیشن میں تھا نہ ہی ماتھا چوم کر گلے لگانے کی۔
البتہ آئینے میں دکھائی دیتے اس کے عکس پہ نظریں جما کر جتانے والے انداز میں بولا تھا۔
”بس…! ہوگئی تسلی…! اب رات کو اسے ہی یہ اعزاز بخش دیجئے گا۔“
ایمان کچھ جھینپ سی گئی، جبھی اُسے منہ چڑھا کر وہاں سے بھاگ گئی تھی۔ مگر شام کو جب وہ تیار ہو کر آئی تو ولید مکمل تیاری کے ساتھ صحن میں کرسی پہ بیٹھا چائے پیتے ہوئے ساتھ ساتھ فضہ کو بھی زِچ کر رہا تھا۔
کرنڈی کے وائٹ کُرتا شلوار پہ میرون دھسا اپنے چوڑے شانوں پر ڈالے وہ اتنا وجیہہ لگ رہا تھا کہ اُسے اپنی دھڑکنیں منتشر ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔
”اچھا لگ رہا ہوں ناں…؟“
وہ سیڑھیاں اُتر کر آنگن میں اس کے پاس آئی تو ولید کے سوال پہ آنکھیں پھیلا کر رہ گئی۔
”اب یہ مت کہنا کہ مجھے کیا پتا…؟ محترمہ…! ہم آپ کا ٹھٹکنا ملاحظہ کر چکے ہیں۔
“
اس کے جتلانے پر وہ کھسیا گئی۔
”بہت خوش فہم ہیں۔“
”خوش فہمی نہیں محترمہ…! اسے خود آگاہی کہتے ہیں۔“
”وہ اِترایا۔ پھر کسی قدر نخوت سے بولا تھا۔
”ویسے اگر تعریف کر دیتیں تو انا کے اونچے مینار کی بلندی میں کچھ خاص فرق نہ پڑتا۔ میں بھی تو کرتا ہوں تمہاری تعریف۔“
”یہ آپ کا کام ہے، کرتے رہیں۔“
وہ بے نیازی سے کہہ کر آگے بڑھ گئی تھی۔
ولید اُسے دیکھ کر رہ گیا۔ راستے میں جب ان کی گاڑی حرا آپا کے گاؤں کی حدود میں داخل ہوئی تو ولید نے عاقب سے کہہ کر گاڑی رُکوا دی تھی۔
”خیریت…؟ کچھ بھول آئے ہو…؟“
عاقب نے گردن موڑ کر اچنبھے سے اُسے دیکھا اور وہ گہرا سانس کھینچ کر بولا تھا۔
”یار…! مجھے اس وقت ایک جوک یاد آ رہا ہے۔ میں اُسے شیئر کرنا چاہتا ہوں، تم لوگوں سے۔
“
”ہاں تو کرو…! گاڑی رُکوانے کی کیا ضرورت تھی…؟“
عاقب نے تحیرسے ایسے دیکھا اور پھر سے گاڑی کو اسٹارٹ کرنا چاہا، مگر ولید نے اسٹیئرنگ وہیل پہ رکھے اس کے ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھ کے گویا یہ کوشش ناکام بنا دی تھی، پھر کسی قدر سنجیدگی سے بولا تھا۔
”ایک آدمی اپنے ہمسائے کے گھر چارپائی مانگنے گیا تو صاحب خانہ نے دروازے پر ہی اُسے روک لیا مدعا سن کر بولے۔
بھائی…! ہمارے گھر میں بھی صرف دو ہی چارپائیاں ہیں۔ ایک پہ میں اور میرے ابا سوتے ہیں، جبکہ دوسری چارپائی پر میری اماں اور بیوی سو جاتے ہیں۔“
اس آدمی نے ہمسائے کی بات سنی اور جواباً بولا۔
”بھائی…! چارپائی نہیں دینی تو نہ دو۔ لیکن اپنی ترتیب تو صحیح کر لو۔“
اس نے جتنی سنجیدگی سے جوک سنایا تھا، ان تینوں کا مشترکہ قہقہہ اسی قدر بلند تھا۔
”بات صرف ہنسنے کی نہیں ہو رہی ہے جناب…! ہمیں بھی اپنی ترتیب صحیح کرنی چاہئے۔اگر یہاں آپ کے پہلو میں فضہ جی اور میں اپنی زوجہ کے ساتھ ہوتا تو ذرا تصور کریں، یہ سفر کیسا سہانا ہو سکتا تھا…؟“
وہ کچھ توقف سے بولا تو لہجہ ہنوز شرارتی تھا۔ عاقب نے اب کی بار اپنی مسکراہٹ چھپا لی تھی۔
”تو گویا آپ نے یہ ترتیب صحیح کرنے کی خاطر گاڑی رُکوائی تھی…؟“
عاقب نے گہرا سانس بھر کے اس کی صورت دیکھی تو وہ کاندھے جھٹک کر بولا۔
”یہ قیاس آدھا صحیح کیا جا سکتا ہے۔“
”کیا مطلب…؟“
عاقب حیران ہوا۔
”گاڑی اس لئے رُکوائی ہے کہ فضہ جی کو آپ کے پہلو میں بٹھا دیا جائے اور ہم یہاں آپ کو تنہا چھوڑ دیں تاکہ آپ کو بھی تھوڑا رومانس کا موقع مل سکے۔“
اس نے کسی قدر شوخ مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے اُتر کر پچھلا دروزاہ کھولا اور حیران نظر آتی ایمان کا ہاتھ پکڑ کر باہر کھینچ لیا۔
”بائے…! ہم آپ سے آپا کے گھر پہ ملاقات کرتے ہیں۔“
وہ انہیں ہاتھ ہلانے لگی۔ عاقب سر جھٹک کر رہ گیا، جبکہ فضہ جھینپ گئی تھی۔
”کیا کر رہے ہیں…؟ میں اتنی دُور تک مارچ پاسٹ نہیں کر سکتی۔“
ایمان نے گاڑی کو بڑھتے دیکھ کر بے اختیار احتجاج کیا تو ولید نے جواباً اُسے بے حد خاص نگاہوں سے دیکھا۔
”نہیں چل سکتیں تو ہم ہیں ناں…! بخوشی اُٹھا لیں گے آپ کو…!“
ایمان اس کی نگاہوں کی بہکتی چمک پہ اُسے ڈھنگ سے گھور بھی نہ سکی۔
”آپا کا گاؤں بہت خوب صورت ہے۔ میں یہاں کچھ یادگار وقت گزارنے کا متمنی تھا۔“
سیاہ تارکول کی سڑک پر ہوا خشک پتے اُڑا رہی تھی۔ وہ ان ہی خشک پتوں کو روند کر چلتا ہوا مزے سے بولا۔ سڑک کے دونوں جانب کھیت تھے۔ وہ سڑک کنارے سفید پھولوں کے جھنڈ کو دیکھ کر رُک گئی اور جھک کر کچھ پھول توڑ کر مٹھی میں قید کر لئے۔ موڑ مُڑتے ہی سنبل کے درختوں کا سلسلہ تھا۔ بھیگی ہوا کی شرارت سے لانبے درخت ذرا سا جھکتے اور روئی کے سفید گالوں سے فضاء بھر جاتی۔ ایمان نے مبہوت ہو کر روئی کے ان گالوں کو دھیرے دھیرے زمین پر اُترتے دیکھا تھا اور ولید حسن نے اس نازک بے حد حسین لڑکی کو۔