”ایمی…!“
وہ ہنوز اسی منظر میں گم تھی جب ولید حسن نے اُسے پکارا۔
”جی…! وہ چونکی اور سوالیہ نگاہوں سے اُسے تکنے لگی۔
”وہ دیکھو ادھر…!“
اس نے اونچی نیچی پگ ڈنڈی کی سمت اشارہ کیا جو شہتوت اور سفیدے کے درختوں کے بیچ سے گزرتی نہر تک جا رہی تھی۔
”آؤ…! دوڑ لگاؤبھئی…! جو پہلے نہر تک پہنچا، وہی ونر…! ٹھیک ہے…؟“
اس کے لہجے میں بچوں کی سی معصومیت اور جوش تھا۔
ایمان نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہامی بھر لی۔
”اوکے…! سٹارٹ…! ون…! ٹو…! تھری…! گو…!“
ولید نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا ا ور اگلے ہی لمحے دونوں بھاگ پڑے تھے۔ ولید تمام تر کوشش کے باوجود اس سے پہلے ریلنگ اسٹینڈ تک نہیں پہنچ پایا جبکہ اس کا سانس بھی پھول چکا تھا۔
”میں جیت گئی…! میں جیت گئی…!“
وہ بچوں کی طرح اُچھل اُچھل کر تالیاں بجاتے ہوئے ہنس رہی تھی۔
(جاری ہے)
ولید نے رُک کر اس کے اس انداز کو بہت دلچسپی سے دیکھا تھا۔ اس کے دل کی بے ایمان اُبھرتی دھڑکنوں نے اُسے شرارت پر اُکسایا اور اس نے آگے بڑھ کر ایک دم سے بازوؤں میں لے کر گھما ڈالا۔
”تم ہنستی اچھی لگتی ہو، ہمیشہ ہنستی رہنا۔“
وہ اس پہ جھک کر بے حد شوخی سے گنگنایا۔ اس کی چمکدار آنکھ میں بلا کی شرارت تھی۔ ایمان کا چہرہ کچھ غصے، کچھ شرم سے سرخ پڑا تھا۔
حیا کے غلبے اور لمس کی میٹھی میٹھی دہکتی ہوئی مدہوشی اپنی جگہ تھی مگر اُسے ولید کی یہ جسارت خفت زدہ کر گئی تھی۔
”ہٹیں چھوڑیں…! آپ کو شرم نہیں آتی ہے…؟“
زبردستی اس سے الگ ہو کر وہ بے ترتیب دھڑکنوں پر بمشکل قابو پاتے ہوئے لرزتی آواز میں بولی۔
”جس نے کی شرم
اس کے پھوٹے کرم“
وہ جواباً اسی ڈھٹائی سے اس کی آنکھوں میں جھانک کر وارفتگی سے بولا۔
”میں ان لمحات کو یادگار، حسین اور خوب صورت بنا دینا چاہتا ہوں ایمی…! تاکہ جب ہم بوڑھے ہو جائیں تو پھر اپنے بچوں کو یہ قصے سنا کر خود بھی محظوظ ہوں اور انہیں بھی کریں۔“
دھیما، جذباتی، بے قابو سا لہجہ ایمان کو کانوں کی لوؤں تلک سرخ کر گیا۔
”یہ بچے کہاں سے آگئے بیچ میں، حد ہے بھئی…!“
وہ بے طرح جھینپتی جزبز سی ہوتی اس سے نظریں چرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
”میں بھی بڑھاپے کی بات کر رہا ہوں، ابھی کی نہیں…! ویسے میں بچوں کے بعد بھی تمہیں یوں ہی چاہتا رہوں گا۔ وہ ایک شعر سنا ہے تم نے…؟“
معاً وہ رُک کر سر کھجانے لگا جیسے ذہن پر زور ڈال رہا ہو۔
”میں وہ عاشق ہوں جو اپنے بچوں سے حسد کرتا ہے
اپنی ماں سے لپٹ جاتے ہیں جب وہ پیار کے ساتھ“
اس نے بڑے ہی شوخ و شنگ سے انداز میں شعر پڑھا تھا، پھر اسے دیکھ کر ایک آنکھ دبا کر بولا تھا۔
”ایسا ہی شوہر ثابت ہونے والا ہوں میں تمہارے لئے…!“
”بہت شکریہ جناب…! اب گھر چلیں، آپا انتظار کر رہی ہوں گی۔“
وہ اس کے رومینٹک موڈ سے خائف، کترائے ہوئے انداز میں بولی تو ولید نے منہ لٹکا لیا تھا۔
”ابھی تو جان چھڑا رہی ہو ناں مجھ سے، کبھی سر پہ ہاتھ رکھ کر یاد کرو گی مجھے۔“
”کیوں…؟ آپ کہیں تشریف لے جانے والے ہیں کیا…؟“
ایمان کو اس کی بات چبھی تھی، جبھی نخوت سے کہہ ڈالا۔
”ہاں…! جانا تو ہے۔“
وہ جیسے ایک دم سنجیدہ ہوا۔ ایمان نے قدرے چونک کر اُسے دیکھا تھا اور وہ مضطرب ہو اُٹھی۔
”کہاں جانا ہے آپ کو…؟ بتائیے…!“
”یار…! ابھی تو نہیں جا رہا، بتا دوں گا۔“
وہ جیسے صاف ٹال رہا تھا، بلکہ اپنے منہ سے پھسل جانے والی بات پہ خود کو کوس رہا تھا۔
”جانا کہاں ہے…؟ ولید…! بتائیں مجھے ابھی اسی وقت۔
“
ایمان نے بے اختیار اس کا بازو پکڑ کر روکا۔ وہ یوں گہرا سانس بھر کے رہ گیا گویا ہار مان لی ہو۔
”جس کمپنی میں پارٹ ٹائم جاب کر رہا ہوں ناں میں، اس کی طرف سے چار چھ ماہ کے لئے فارن کنٹری بھیجا جارہا ہے مجھے۔ یہ تقریباً ایک سال قبل کی بات ہے، تب میں نے بھی اپنا نام لکھوا دیا تھا۔ اب میری سلیکشن ہوگئی ہے تو بس موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہ رہا ہوں۔
میرے اس ٹور اور وہاں حاصل کئے جانے والے تجربے کی بدولت نہ صرف میری سیلری میں اضافہ ہوگا، بلکہ میری پروموشن بھی ہو جائے گی۔ میں نے منگنی کی بجائے نکاح کا آئیڈیا بھی اسی لئے دیا تھا کہ اس بندھن کو پائیدار کرنا چاہتا تھا۔“
”آپ نہیں جا رہے ہیں ولید…!“
اس نے گویا پوری بات سنی ہی نہیں تھی۔ ولید نے ٹھٹک کر اُسے دیکھا۔
”کیا مطلب…؟“
”مطلب واضح ہے۔
آپ نہیں جائیں گے۔ آپ کے لئے یہاں بھی ترقی کے چانسز ہیں۔“
وہ اپنی بات پہ زور دے کر بولی تو ولید نے سر کو نفی میں جنبش دی تھی۔
”میرے خواب بہت اونچے ہیں ایمان…! ان تک رسائی کی خاطر مجھے مستقل جدوجہد کرنا ہے۔“
”آپ سب کچھ یہاں رہ کر بھی تو کر سکتے ہیں ولید…؟“
”صرف چند ماہ کی تو بات ہے۔“
وہ زِچ ہوا۔
”مہینے صدیاں بن جاتے ہیں ولید…! جب یہ انتظار میں گزارنے ہوں۔
بس…! میں آپ کو نہیں جانے دوں گی۔“
اس کا لہجہ دو ٹوک اور قطعی تھا۔ ولید نے ہونٹ بھیج کر اُسے دیکھا تھا، پھر نرمی سے بولا۔
”اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔“
”میں بڑی ہو چکی ہوں، اب بچی نہیں ہوں۔“
وہ نروٹھے پن سے بولی تو ولید ہنس پڑا۔
”اوکے…! اچھی بیویاں ضد نہیں کرتیں۔ اب ٹھیک…؟“
”ولید…! بحث مت کریں۔ میں کہہ چکی جو مجھے کہنا تھا۔“
اس نے اب کے کسی قدر غصے سے کہا تو ولید کو بھی تاؤ آگیا۔
”تم بھی ضد مت کرو، مجھے جانا ہے اور ہر صورت جانا ہے، انڈر اسٹینڈ…!“
اس نے کسی قدر برہمی سے کہا اور قدموں کی اسپیڈ بڑھا دی۔ ایمان اس سے پیچھے رہ گئی تھی۔
###