”یہ اب جو موڑ آیا ہے
یہاں رُک کر کئی باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے
سنا ہے ایک صحرا کے سفر میں
راستے میں دو قدم بھٹکیں
تو منزل تک پہنچنے میں
کئی فرننگ کی دُوری نکلتی ہے
سو اب جو موڑ آیا ہے
یہاں رُک کر
کئی باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے“
وہ تب سے بے حد خاموش تھی، گم سم، حیران، پریشان۔ فضہ کو تو اس کی کیفیت نے پریشان کر ڈالا۔
آپا اور عاقب الگ وجہ پوچھتے رہے۔ وہ ”ہوں، ہاں“ کر کے چپ ہوگئی۔ ولید البتہ نارمل تھا۔ ویسے ہی شوخ جملے، ویسی ہی ہنسی، مذاق اور برجستگی۔
”کتنا آسان ہوتا ہے مرد کے لئے کسی بھی بات کو کہہ دینا، اُسے منوا لینا۔“
اس نے مگن سے انداز میں آپا کے بچوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ولید کو دیکھ کر سوچا تھا۔
(جاری ہے)
”تم نے کچھ کہا ہے ایمان سے…؟“
عاقب کے سوال پہ وہ صاف منکر ہوگیا تھا۔
”میں کیا کہوں گا…؟ سارے راستے ہنساتا لایا ہوں۔ پوچھ لیں جو کوئی بھی نازیبا حرکت کی ہو۔ کیوں ایمی…؟“
اسی بہانے ولید کو بھی اسی سے براہِ راست بات کرنے کا موقع ملا تھا۔ مسکرا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا، مگر ایمان نے کوئی تاثر دئیے بغیر نگاہ کا زاویہ بدل ڈالا۔ عاقب کو جیسے اپنی بات کا ثبوت مل گیا۔ جبھی ولید کھسیاہٹ کا شکار ہوتا سر کھجانے لگا تھا اور دعوت سے واپسی پر جب آپا نے انہیں تحائف دے کر رُخصت کیا، تب تک ولید کی بھی تمام خوش مزاجی جیسے مفقود ہو چکی تھی۔
”اب ترتیب صحیح نہیں رکھنی ہے کیا…؟“
ایمان کو پچھلی سیٹ پہ فضہ کے ساتھ بیٹھتے دیکھ کر عاقب نے شرارت سے کہا تھا۔
”فضہ آگے نہیں آئے گی، عاقب بھائی…! آپ گاڑی چلائیں، جسے بیٹھنا ہے، بیٹھے۔ ورنہ مرضی ہے۔“
وہ نروٹھے پن سے بولی تو ولید گہرا سانس کھینچ کر دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مجھ پر آئندہ سیٹ کرنے کی۔
“
وہ بھڑک کر بولی تھی۔ ولید کا بڑھا ہوا ہاتھ اسی زاویے پہ ساکن ہوگیا۔ چہرے پہ ایک رنگ سا آ کے گزرگیا۔ عاقب نے مسکراہٹ چھپائی تھی۔ جبکہ فضہ اُلجھن زدہ نگاہوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ ولید نے ایک کیسٹ سلیکٹ کی اور ٹیپ آن کر دی۔
”مجھے تم چپکے چپکے سے ایسے جب دیکھتی ہو
اچھی لگتی ہو
کبھی زُلفوں سے کبھی آنچل سے جب کھیلتی ہو
اچھی لگتی ہو“
وہ دانستہ ساتھ ساتھ گنگنانے لگا۔
ایمان کا پارہ چڑ رہا تھا، مگر ہونٹ بھینچے ضبط کرنے لگی۔
”مجھے دیکھ کے جب تم ٹھنڈی آہیں بھرتے ہو
اچھے لگتے ہو
مجھ کو جب لگتا ہے تم مجھ پہ ہی مرتے ہو
اچھے لگتے ہو
تم میں اے مہرباں ساری ہیں خوبیاں
بھولا پن، سادگی، دلکشی، تازگی
تم ہوتے ہم نشیں میں ہوتی اور حسیں
تعریف جو سن کے تم شرما جاتی ہو
اچھی لگتی ہو
کبھی ہنس دیتی ہو اور کبھی اِترا جاتی ہو
اچھی لگتی ہو“
جب اس نے ذرا سا رُخ پھیر کے اُسے براہِ راست مبہم شوخ نگاہوں کی زد پہ رکھا تو ایمان کا ضبط جواب دینے لگا۔
”عاقب بھائی…! ذرا ٹیپ تو آف کریں پلیز…!“
اس نے ماتھے پہ تیوریاں ڈال کر کہا تو ولید مچل اُٹھا۔
”کیا ہے بیوی…! دیکھنے پہ پابندی…؟ساتھ بیٹھنے پہ پابندی…؟ اب میوزک سے دل تو بہلا لینے دو…!“
”میں آپ کے منہ نہیں لگنا چاہتی۔“
وہ نروٹھے پن سے کہتی ہوئی منہ بگاڑ کر بولی تو ولید نے جواباً آنچ دیتی بے لگام نظروں سے اُسے دیکھا اور ذومعنی لہجے میں بولا۔
”اِسے منہ لگنا تو نہیں کہتے ولید…! اتنے فاصلے سے یہ ممکن ہے بھی نہیں…!“
ایمان خفت، حیا اور شرمندگی سے اپنے چہرے سے بھاپ نکلتی محسوس کرنے لگی۔ اس نے دیکھا، فضہ کھڑکی سے باہر دیکھتی گویا دونوں کو اِگنور کئے ہوئے تھی، جبکہ عاقب گاڑی ڈرائیور کرنے میں محو۔ مگر کیا انہوں نے اس کی فضول بات کو نہ سنا ہوگا…؟
امپاسبل…!
اس نے ہونٹ بھینچ لئے اور باقی کا راستہ خاموشی سے کٹا، جبکہ ٹیپ ہنوز چل رہا تھا۔
”سوچتا ہوں کہ میں کیا پکاروں تمہیں
دلنشیں، ماہ رو، نازنیں، ماہ جبیں
میرے اتنے سارے نام میں جب تم یہ کہتے ہو
اچھے لگتے ہو اچھے لگتے ہو“
ایمان نے اس کی نگاہوں کی تپش کو محسوس کرنے کے باوجود نظریں نہیں اُٹھائیں۔ گاڑی گھر کے سامنے رُکی تو سب سے پہلے وہی اُتر کر اندر گئی تھی۔ ولید نے ہونٹ بھینچے اُسے جاتے دیکھا تھا۔
اس کی آنکھوں میں سوچ کے متفکر رنگ گہرے ہوتے چلے گئے تھے۔
رات کو عشاء کی نماز پڑھ کر واپس آیا تو اشعر ٹی وی کے آگے بیٹھا نیوز سن رہا تھا۔
”سب لوگ کدھر ہیں…؟“
”سب سے مراد اگر آپ کی ایمان سے ہے تو وہ اوپر ہیں۔“
اشعر نے کسی قدر شرارت سے جواب دیا تو وہ کچھ سوچتا ہوا کمرے سے نکل کر سیڑھیوں کی سمت آگیا۔ ابھی دو تین اسٹیپ ہی اوپر آیا تھا کہ عاقب سیڑھیاں پھلانگتا ایک دم اس کے سامنے آگیا۔
”آؤ یار…! بیٹھتے ہیں کچھ دیر اور…!“
ولید کے کہنے پہ عاقب نے سر کو نفی میں جنبش دی تھی۔
”میرا دل نہیں لگے گا۔ فضہ گئی ہے ناں…!“
اس نے شرارتی انداز میں کہا تو ولید مسکرایا۔
”اور میری والی محترمہ…؟“
”جاگ رہی ہیں، جائیے جائیے…!“
عاقب اسے پیش کرتا خود سائیڈ سے ہو کر باقی ماندہ سیڑھیاں پھلانگ گیا۔
وہ اوپر آیا تو ایمان کتابیں کھولے بیٹھی تھی، ٹی وی بھی چل رہا تھا۔
”اس طرح کرو گی تو پھر ہو چکی پڑھائی…؟“
ولید نے ریموٹ اُٹھا کر ٹی وی آف کر دیا، مگر ایمان کی لاتعلقی اور بے نیازی میں کمی نہیں آئی۔
”اے لڑکی…! شوہر آیا ہے تمہارا، اس سے چائے کا ہی پوچھ لو…؟“
مقصد اسے چھیڑنا، زِچ کرنا، کسی طور بولنے پہ اُکسانا تھا۔ مگر وہ صاف اِگنور کر گئی۔
”مجھے بات کرنی ہے تم سے۔“