”تیرے پیلے ہوں گے ہاتھ کڑے! تیری ہوگئی پکی بات کڑے!
تیرے من ہی من لڈو پھوٹیں اور آنکھوں سے برسات کڑے!“
تاریخ طے ہوگئی تو گھر میں شادی کا ہنگامہ جاگ اُٹھا۔ دادا کی خواہش تھی کہ شادی اسی گھر میں ہو۔ یوں پاپا نے فی الحال شہر واپس جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ شادی کی ساری رسومات یہیں ہونا تھیں۔
ایسے میں جہاں سب کے حصے میں مصروفیت آئی تھی، اشعر نے بھی ایک کام ذمے لیا۔
وہ تھا، فضہ اور عاقب کو تنگ کرنے، زِچ کرنے کا، جسے وہ بہت خوبی سے نبھا رہا تھا۔ ابھی بھی اس نے فضہ کو دیکھتے ہی کچن میں ہی کھڑے ہو کر راگ الاپنا شروع کیا تھا۔ فضہ نے ایسے گھورا مگر اس پہ خاک اثر ہونا تھا، سو مگن رہا۔
”ہے سانولا رنگ، نقش تیکھا، قد کا بڑا، ہنس مکھ، سوہنا
سب دیکھ بھال کے ڈھونڈا ہے اب آگے تیری برأت کڑے!
اِک نند اور دو نٹ کھٹ دیور تینوں اسکول میں پڑھتے ہیں“
”یہاں تھوڑا مضائقہ ہے، مگر شاعری میں چلتا ہے۔
(جاری ہے)
“
وہ ذرا سا رُکا اور دانت نکوس کر پھر سے کہنے لگا۔
”تیرے سسر ساس کے ناں تھاں کو مانے سارا کڑے!
سب اپنا آپ بھلا رکھنا سائیں سے خوب نبھا رکھنا
مردوں کے سر نہ نویں پکے کڑیوں کی کچی ذات کڑے!
ہر وقت نماز، قرآن پڑھیں کم کاج سبھی جچ نال کریں
میٹھا بولیں کہ اب ماں باپ کی ہے لاج تمہارے ہاتھ کڑے!
کہتے ہیں پیدا ہوتے ہی بیٹی پردیسن ہوتی ہے
ہو اِک دیوار ادھر چاہے یا پار سمندر سات کڑے!
مت آنکھیں بھر بھر تک بیٹی تیرا جانا ہے برحق بیٹی
یہ حکم ہے اس کا اور اس کی ذات صفات کڑے!“
فضہ کی آنکھیں بھیگتی دیکھ کر وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بزرگانہ انداز میں بولا تو فضہ نے جھلا کر اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”بہت بدتمیز ہو…! جیسے سچ مچ میرے ابا ہو ناں…؟“
فضہ کی رنگت دہک گئی، وہ دانت نکالنے لگا۔ پھر کچن سے منہ نکال کر ایمان کو آوازیں دیتے ہوئے ہانک لگائی۔
”آئیں…! ہم وہ والا گانا گاتے ہیں،
ساڈا چڑیاں دا چنبا اے
بابل اساں اُڈ جانا“
”یہ گانا مجھے تو نہیں آتا، ویسے ضروری بھی نہیں ہے۔“
ایمان کمرے سے نکل کر چلی آئی تھی۔
ہاتھ میں زیور کا ڈبہ تھا۔جو لاکر فضہ کے آگے رکھ دیا تھا۔
”تائی ماں کہہ رہی ہیں، یہ گلو بند پہن کر دکھا دو۔“
”کیوں بھئی…؟ کیا ضرورت ہے…؟ ایسے ہی ٹھیک ہے ناں…!“
فضہ گھبرائی اور اشعر کو ایک اور موقع مل گیا، اسے زِچ کرنے کا۔
”ہاں تو کیا ضرورت ہے…؟ ابھی توعاقب بھائی بھی گھر پہ نہیں ہیں۔ وہ ہوتے توکوئی فائدہ بھی ہوتا…؟ کوئی افسانوی ٹچ آتا سچوایشن میں…؟ خیر…! آپ کوشش تو کریں، ابھی بھی ایسا حسین واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔
ادھر آپ اپنی مرمریں گردن سے اس گلو بند کو لپیٹیں، ادھر ٹھک سے عاقب بھائی کمرے میں آجائیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے ناں کہانیوں میں ایمی بھابی…؟“
وہ شرارتاً بولا تھا۔ آنکھیں شوخی کے احساس سے جگمگ جگمگ کر رہی تھیں۔ فضہ بے تحاشہ خجل ہوگئی۔ اسے مارنے کو دوڑی تھی مگر وہ ہاتھ آنے والا کہاں تھا…؟
###
فضہ کی مہندی کی تقریب بہت شاندار رہی تھی۔
ایمان نے بلڈ ریڈ کلر کا بہت اسٹائلش سوٹ پہنا تھا جو اس کی دہکتی ہوئی رنگت پر بہت جچا تھا۔ میچنگ کی ہلکی پھلکی جیولری اور مہک نے اس کی چھب ہی بدل ڈالی تھی۔جب وہ فضہ کو رسم کے لئے پنڈال میں لے کر آئی تو ولید حسن صحیح معنوں میں مبہوت ہو کر رہ گیا تھا۔
پیلے جوڑے اور ہم رنگ کھنکھناتی چوڑیوں کے ساتھ فضہ بھی غضب ڈھا رہی تھی، مگر ایمان کا سن تو گویا شعاعیں بکھیر رہا تھا۔
سب اس سے گانے کی فرمائش کرنے لگے۔ اس کی نگاہ ایمان پر جا ٹھہری اور الفاظ خودبخود گویا زبان پر آ ٹھہرے۔
”گوری کرت سنگھار گوری کرت سنگھار
بال بال موتی چمکائے روم روم مہکار
مانگ سندور کی سندرتا سے چمکے چندن وار
گوری کرت سنگھار گوری کرت سنگھار“
پروین شاکر کے کلام کو اپنے جذبات کے ہم آہنگ بنا کر گایا تو ماحول میں اِک سماں بندھ گیا۔
ایمان نے اس کی نگاہوں سے چھلکتے ہوئے رنگوں سے اپنا چہرہ رنگین ہوتا محسوس کیا تھا۔
”جوڑے میں جوہی کی بینی بانہہ میں ہار سنگھار
کان میں جگمگ بالی پتہ گلے میں جگنو ہار
صندل ایسی پیشانی پہ بندیا لائی بہار
گوری کرت سنگھار گوری کرت سنگھار“
اس کے لبوں پہ دل آویز مسکان تھی اور آنکھوں میں محبت کو پا لینے کا خمار۔
وہ جانتا تھا، اس وقت محفل میں موجود متعدد لوگوں کی نظریں انہیں ہی فوکس کئے ہوئے ہیں۔ مگر وہ کسی کو خاطر میں لائے بغیر ایمان کے دلکش روپ کو نگاہوں کے رستے دل میں اُتار رہا تھا۔
”تیز کٹار اس آنکھوں میں کجرے کی دو دھار
گالوں کی سرخی میں جھلکے پردے کا اقرار
ہونٹوں پہ کچھ پھولوں کی لالی کچھ ساجن کے کار
گوری کرت سنگھار گوری کرت سنگھار
ہاتھوں کی اِک اِک چوڑی میں موہن کی جھنکار
سہج چلے پھر بھی پائل میں بولے پی کا پیار
اپنا آپ دامن میں دیکھے اور شرمائے نار
نارک کے روپ کو انگ لگائے دھڑک رہا سنسار
گوری کرت سنگھار گوری کرت سنگھار“
تالیوں کی گونج میں اس نے گیت ختم کیا تو ایمان کے ہونٹوں پر بھی ایک مہکی ہوئی مسکان تھی۔
اشعر جو ہینڈی کیم سے ان لمحات کو محفوظ کر رہا تھا، ایمان کو فوکس کرتے ہوئے بولا تھا۔
”ایمان…! پلیز، آپ چل کر بھائی کے ساتھ بیٹھیں۔“
”کیوں…؟“
ایمان چونکی تھی اس حکم پہ، وہ سب کے بیچ واقعی ہی کترائی تھی۔
”بھئی…! یہ آپ کا گجرا جو بندھ نہیں رہا ہے، اُسے بھائی گرہ لگا دیں گے اور میرے کیمرے کو ایک حسین منظر قید کرنے کا موقع میسر آجائے گا۔“
اس کی بات پر جہاں ایمان کھسیائی، وہاں باقی سب کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔
”اونہہ…!“
ایمان نے زور سے سر جھٹکا، گویا خجالت مٹائی تھی، اور فضہ کو وہاں سے اندر لے جانے کے ارادے سے اُٹھ گئی۔ ولید ایک خوب صورت چانس مس ہو جانے پہ دل مسوس کر رہ گیا۔
###