Episode 60 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 60 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”تیرے پیلے ہوں گے ہاتھ کڑے! تیری ہوگئی پکی بات کڑے!
تیرے من ہی من لڈو پھوٹیں اور آنکھوں سے برسات کڑے!“
تاریخ طے ہوگئی تو گھر میں شادی کا ہنگامہ جاگ اُٹھا۔ دادا کی خواہش تھی کہ شادی اسی گھر میں ہو۔ یوں پاپا نے فی الحال شہر واپس جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ شادی کی ساری رسومات یہیں ہونا تھیں۔
ایسے میں جہاں سب کے حصے میں مصروفیت آئی تھی، اشعر نے بھی ایک کام ذمے لیا۔
وہ تھا، فضہ اور عاقب کو تنگ کرنے، زِچ کرنے کا، جسے وہ بہت خوبی سے نبھا رہا تھا۔ ابھی بھی اس نے فضہ کو دیکھتے ہی کچن میں ہی کھڑے ہو کر راگ الاپنا شروع کیا تھا۔ فضہ نے ایسے گھورا مگر اس پہ خاک اثر ہونا تھا، سو مگن رہا۔
”ہے سانولا رنگ، نقش تیکھا، قد کا بڑا، ہنس مکھ، سوہنا
سب دیکھ بھال کے ڈھونڈا ہے اب آگے تیری برأت کڑے!
اِک نند اور دو نٹ کھٹ دیور تینوں اسکول میں پڑھتے ہیں“
”یہاں تھوڑا مضائقہ ہے، مگر شاعری میں چلتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ ذرا سا رُکا اور دانت نکوس کر پھر سے کہنے لگا۔
”تیرے سسر ساس کے ناں تھاں کو مانے سارا کڑے!
سب اپنا آپ بھلا رکھنا سائیں سے خوب نبھا رکھنا
مردوں کے سر نہ نویں پکے کڑیوں کی کچی ذات کڑے!
ہر وقت نماز، قرآن پڑھیں کم کاج سبھی جچ نال کریں
میٹھا بولیں کہ اب ماں باپ کی ہے لاج تمہارے ہاتھ کڑے!
کہتے ہیں پیدا ہوتے ہی بیٹی پردیسن ہوتی ہے
ہو اِک دیوار ادھر چاہے یا پار سمندر سات کڑے!
مت آنکھیں بھر بھر تک بیٹی تیرا جانا ہے برحق بیٹی
یہ حکم ہے اس کا اور اس کی ذات صفات کڑے!“
فضہ کی آنکھیں بھیگتی دیکھ کر وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بزرگانہ انداز میں بولا تو فضہ نے جھلا کر اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”بہت بدتمیز ہو…! جیسے سچ مچ میرے ابا ہو ناں…؟“
فضہ کی رنگت دہک گئی، وہ دانت نکالنے لگا۔ پھر کچن سے منہ نکال کر ایمان کو آوازیں دیتے ہوئے ہانک لگائی۔
”آئیں…! ہم وہ والا گانا گاتے ہیں،
ساڈا چڑیاں دا چنبا اے 
بابل اساں اُڈ جانا“
”یہ گانا مجھے تو نہیں آتا، ویسے ضروری بھی نہیں ہے۔“
ایمان کمرے سے نکل کر چلی آئی تھی۔
ہاتھ میں زیور کا ڈبہ تھا۔جو لاکر فضہ کے آگے رکھ دیا تھا۔
”تائی ماں کہہ رہی ہیں، یہ گلو بند پہن کر دکھا دو۔“
”کیوں بھئی…؟ کیا ضرورت ہے…؟ ایسے ہی ٹھیک ہے ناں…!“
فضہ گھبرائی اور اشعر کو ایک اور موقع مل گیا، اسے زِچ کرنے کا۔
”ہاں تو کیا ضرورت ہے…؟ ابھی توعاقب بھائی بھی گھر پہ نہیں ہیں۔ وہ ہوتے توکوئی فائدہ بھی ہوتا…؟ کوئی افسانوی ٹچ آتا سچوایشن میں…؟ خیر…! آپ کوشش تو کریں، ابھی بھی ایسا حسین واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔
ادھر آپ اپنی مرمریں گردن سے اس گلو بند کو لپیٹیں، ادھر ٹھک سے عاقب بھائی کمرے میں آجائیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے ناں کہانیوں میں ایمی بھابی…؟“
وہ شرارتاً بولا تھا۔ آنکھیں شوخی کے احساس سے جگمگ جگمگ کر رہی تھیں۔ فضہ بے تحاشہ خجل ہوگئی۔ اسے مارنے کو دوڑی تھی مگر وہ ہاتھ آنے والا کہاں تھا…؟
                                ###

فضہ کی مہندی کی تقریب بہت شاندار رہی تھی۔
ایمان نے بلڈ ریڈ کلر کا بہت اسٹائلش سوٹ پہنا تھا جو اس کی دہکتی ہوئی رنگت پر بہت جچا تھا۔ میچنگ کی ہلکی پھلکی جیولری اور مہک نے اس کی چھب ہی بدل ڈالی تھی۔جب وہ فضہ کو رسم کے لئے پنڈال میں لے کر آئی تو ولید حسن صحیح معنوں میں مبہوت ہو کر رہ گیا تھا۔ 
پیلے جوڑے اور ہم رنگ کھنکھناتی چوڑیوں کے ساتھ فضہ بھی غضب ڈھا رہی تھی، مگر ایمان کا سن تو گویا شعاعیں بکھیر رہا تھا۔
سب اس سے گانے کی فرمائش کرنے لگے۔ اس کی نگاہ ایمان پر جا ٹھہری اور الفاظ خودبخود گویا زبان پر آ ٹھہرے۔
”گوری کرت سنگھار گوری کرت سنگھار
بال بال موتی چمکائے روم روم مہکار
مانگ سندور کی سندرتا سے چمکے چندن وار
گوری کرت سنگھار گوری کرت سنگھار“
پروین شاکر کے کلام کو اپنے جذبات کے ہم آہنگ بنا کر گایا تو ماحول میں اِک سماں بندھ گیا۔
ایمان نے اس کی نگاہوں سے چھلکتے ہوئے رنگوں سے اپنا چہرہ رنگین ہوتا محسوس کیا تھا۔
”جوڑے میں جوہی کی بینی بانہہ میں ہار سنگھار
کان میں جگمگ بالی پتہ گلے میں جگنو ہار
صندل ایسی پیشانی پہ بندیا لائی بہار
گوری کرت سنگھار گوری کرت سنگھار“
اس کے لبوں پہ دل آویز مسکان تھی اور آنکھوں میں محبت کو پا لینے کا خمار۔
وہ جانتا تھا، اس وقت محفل میں موجود متعدد لوگوں کی نظریں انہیں ہی فوکس کئے ہوئے ہیں۔ مگر وہ کسی کو خاطر میں لائے بغیر ایمان کے دلکش روپ کو نگاہوں کے رستے دل میں اُتار رہا تھا۔
”تیز کٹار اس آنکھوں میں کجرے کی دو دھار
گالوں کی سرخی میں جھلکے پردے کا اقرار
ہونٹوں پہ کچھ پھولوں کی لالی کچھ ساجن کے کار
گوری کرت سنگھار گوری کرت سنگھار
ہاتھوں کی اِک اِک چوڑی میں موہن کی جھنکار
سہج چلے پھر بھی پائل میں بولے پی کا پیار
اپنا آپ دامن میں دیکھے اور شرمائے نار
نارک کے روپ کو انگ لگائے دھڑک رہا سنسار
گوری کرت سنگھار گوری کرت سنگھار“
تالیوں کی گونج میں اس نے گیت ختم کیا تو ایمان کے ہونٹوں پر بھی ایک مہکی ہوئی مسکان تھی۔
اشعر جو ہینڈی کیم سے ان لمحات کو محفوظ کر رہا تھا، ایمان کو فوکس کرتے ہوئے بولا تھا۔
”ایمان…! پلیز، آپ چل کر بھائی کے ساتھ بیٹھیں۔“
”کیوں…؟“
ایمان چونکی تھی اس حکم پہ، وہ سب کے بیچ واقعی ہی کترائی تھی۔
”بھئی…! یہ آپ کا گجرا جو بندھ نہیں رہا ہے، اُسے بھائی گرہ لگا دیں گے اور میرے کیمرے کو ایک حسین منظر قید کرنے کا موقع میسر آجائے گا۔“
اس کی بات پر جہاں ایمان کھسیائی، وہاں باقی سب کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔
”اونہہ…!“
ایمان نے زور سے سر جھٹکا، گویا خجالت مٹائی تھی، اور فضہ کو وہاں سے اندر لے جانے کے ارادے سے اُٹھ گئی۔ ولید ایک خوب صورت چانس مس ہو جانے پہ دل مسوس کر رہ گیا۔
                                        ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط