”یہ پاسیبل نہیں ہے۔“
وہ اس کی بات سن کر بھڑک اُٹھا تو ایمان ایک دم ہراساں ہوتی ملتجی ہو کر گڑگڑائی تھی۔
”دیکھو…! میری بات سنو…! میرے جس کزن سے پاپا نے آپ لوگوں کا تعارف کروایا تھا، اس سے پچھلے دنوں میرا نکاح ہو چکا ہے۔ تم خود سوچو، یہ پاسیبل ہے…؟“
موسیٰ کادوانی نے چونک کر، ٹھٹک کر یوں اُسے دیکھا گویا اس کی بات کی صداقت کا اندازہ اس کے چہرے کے تاثرات سے لگانا چاہ رہا ہو، اور جب اُسے یقین آیا تھا تو گویا شعلوں میں گھِر گیا تھا۔
ایمان کو اس کی آنکھوں میں اُتری غضب کی حدتوں سے خوف محسوس ہوا تھا۔
”اگر یہ سچ ہے تو میں اُسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ویسے صرف نکاح ہی ہوا ہے ناں…؟“
اس کے سرد لہجے میں غراہٹ در آئی تھی۔ ایمان کا چہرہ ایک دم سرخ ہوگیا۔
(جاری ہے)
”بکواس بند کرو…!“
اس کا ضبط چھلکا تو وہ چیخ پڑی۔ موسیٰ چونک گیا، ٹھٹکے ہوئے انداز میں اس کا چہرہ دیکھا، بغور دیکھا اور پھر ایک دم زور سے ہنس پڑا۔
ایمان کو اس کی دماغی حالت پہ ایک پل کو شبہ محسوس ہوا تھا۔
”بہت محبت کرتی ہیں اس سے…؟“
ایمان نے دیکھا، اس کی سرخ انگاروں کی مانند دہکتی آنکھوں میں ایک سرد سی کیفیت اُتر رہی تھی۔ وہ لرز سی گئی۔
”اگر چاہتی ہیں کہ وہ زندہ رہے تو پھر اس سے الگ ہو جائیں ایمان…! یہی بہتر ہے آپ کے لئے…! میرے لالہ دوسری مرتبہ بے مراد رہ جائیں، یہ موسیٰ کادوانی برداشت نہیں کر سکتا۔
آپ میری اپروچ سے کچھ آگاہ ہوگئی ہیں، بہت زیادہ اس وقت ہوں گی جب آپ یہ جانیں گی کہ آپ کے وہ رائٹ مین، کیا نام ہے ان کا…؟ خیر…! جو بھی ہو، کسی دن اچانک غائب ہوگئے ہیں۔“
اس کے سفاک لہجے میں اتنی سنگینی، اتنی جنون خیزی اور تنفر تھا کہ ایمان کی روح لرز اُٹھی تھی۔ مگر بظاہر خود کو مضبوط بنانے کو بولی تھی۔
”وہ آؤٹ آف کنٹری ہیں۔
تم ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے ہو۔“
اس کے لہجے میں موجود نفرت نے موسیٰ کے ہونٹوں پر زہر خند بکھیر دیا تھا۔
”یعنی آپ چیلنج کر رہی ہیں میری اپروچ کو…؟ اوکے…! فائن…! اب آپ کو یہاں روکنے کا جواز ختم ہوتا ہے۔ اسی عزت و احترام کے ساتھ آپ کو واپس چھوڑوں گا، مگر اس یقین کے ساتھ کہ آپ دوبارہ یہاں تشریف لائیں گی۔ آپ کے تمام جملہ حقوق لالہ کے نام محفوظ ہو چکے ہوں گے۔
“
اپنی بات مکمل کر کے وہ اُٹھا تو اس کے انداز میں اطمینان تھا، یہی اطمینان ایمان کو مضطرب کر گیا تھا۔ وہ بے اختیار تڑپ کر اس کے راستے میں آئی تھی۔
”کیا کرو گے تم ولید کے ساتھ…؟“
”اچھا…! تو موصوف کا نام ولید ہے…؟ کچھ نہیں…! بس آپ کو لالہ کے لئے فارغ کرنے کی خاطر راستے سے ہٹانا ہوگا، یعنی قتل…!“
وہ تاؤ دلانے والے انداز میں کہہ کر مسکرایا تو ایمان نے فق چہرے کے ساتھ اُسے دیکھا۔
اُسے لگا جیسے اس کی ٹانگیں ایک دم بے جان ہوگئی ہوں۔
”آئیے…! آپ کو واپس چھوڑ آؤں۔“
وہ رُک کر اس کے آگے بڑھنے کا انتظار کرنے لگا، مگر ایمان نے جیسے سنا ہی نہیں تھا۔
”تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔“
وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتی رو پڑی تو موسیٰ نے نخوت بھری نگاہوں سے اُسے دیکھا تھا۔
”ابھی کیسے یقین کر لیا آپ نے میری بات کا کہ جو میں نے کہا ہے، اُسے پورا بھی کر گزروں گا…؟ ابھی میں آپ کو ثبوت پیش کر دیتا، تب آپ اپنی رائے سے نوازتیں ناں…!“
وہ ٹھنک کر بولا تھا۔
ایمان نے آنسوؤں سے جل تھل ہوتی نگاہوں سے اُسے دیکھا تھا۔ پھر گلو گیر آواز میں بولی۔
”میں نے کہا ناں، تم ایسا کچھ نہیں کرو گے، میں تمہاری بات ماننے کو تیار ہوں۔“
اس کا ہر انداز ہارا ہوا تھا۔
”اچھا…! کیا کریں گی آپ…؟“
موسیٰ نے اس کے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے گویا بادل نخواستہ پوچھا۔
”میں ان سے طلاق لے لوں گی، بلیو می…! مگر پلیز…! کچھ وقت دیں مجھے۔
“
سارا طنطنہ، سارا غرور بھلائے وہ گڑگڑا رہی تھی تو وجہ محبت کی بے بسی تھی۔ وہ بے بسی، وہ خوف، انداز بدل گیا تھا، جب اُسے پتا چلا تھا کہ ولید حسن اس کے لئے اہمیت اختیار کر گیا ہے تو اس نے اُسے کھونے کے خوف سے اپنی اَنا سے ہاتھ چھڑا لیا تھا، اور اب جبکہ وہ اس کی زندگی کو خطرہ لاحق محسوس کر رہی تھی، تب اس نے اُسے کھونے کے خوف سے اس سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔
”میں آپ کی بات کا یقین کیسے کروں…؟“
وہ سگریٹ سلگاتے ہوئے پرُنخوت انداز میں بولا۔ ایمان کی شکست، ایمان کی گڑگڑاہٹ، اس کا حد سے بڑھا ہوا خوف، اس کے اندر تسکین اور تفاخر کے کتنے در وا کر رہا تھا، یہ موسیٰ ہی جانتا تھا۔
”تمہیں یقین آجائے گا، جب میں ان سے ڈائیورس لوں گی۔ لیکن مجھے تھوڑا وقت چاہئے۔“
وہ اسی ملتجی، ہارے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
تب موسیٰ نے گویا اس پہ احسان جتلاتے ہوئے کاندھے اُچکا کر اس کی بات مان لی تھی اور اُسے اسی راز داری اور خاموشی کے ساتھ واپس اس کے گھر سے کچھ فاصلے پر چھوڑ دیا گیا، اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو سکی کہ ان چند گھنٹوں میں اس پہ کیا قیامت ٹوٹی اور اس نے کیا کچھ ہار دیا تھا…؟
###