Episode 76 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 76 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”اُسے میں نے ہی لکھا تھا
کہ لہجے برف ہو جائیں 
تو پگھلا نہیں کرتے
اُسے میں نے ہی لکھا تھا
یقین اُٹھ جائے 
تو شاید کبھی واپس نہیں آتا
ہواؤں کا کوئی طوفان کبھی
بارش نہیں لاتا
اُسے میں نے ہی لکھا تھا
آئینہ جب ٹوٹ جائے
پھرکبھی جڑ نہیں پاتا
وابستہ جن سے اُمید ہوں
وہ بدل جائیں
تو جیا نہیں جاتا“
رات وہ ولید حسن کے ایک یکسر نئے روپ سے روشناس ہوئی تھی۔
بے رحم، سفاک، جارح اور وحشی، جس کے کسی بھی انداز میں نہ تو کوئی گنجائش تھی نہ احساس کا کوئی رنگ۔ اگر وہ اس کے سلوک کو سامنے رکھ کر خود کو یہ یقین دلانا چاہتی کہ ولید نے کبھی اس سے محبت کی تھی، تو اُسے یقین نہیں آ سکتا تھا۔
وہ ساری نفرت، وہ ساری تلخی اور بے حسی جو اس نے ایمان کے ٹھکرانے پر محسوس کی تھی، اس کا سارا قہر اس نے ایک ہی رات میں گویا اس سے اپنی بدسلوکی سے چکا دیا تھا۔

(جاری ہے)

مگر پھر بھی یہ نفرت، یہ تلخی، یہ وحشت تھی کہ ختم نہ ہوئی تھی۔ 
ایمان کو اس سے شکایت اس صورت ہوتی، اگر وہ خود کو بے قصور سمجھتی، جب سارا جرم اس کا تھا تو پھرولید حسن کا روّیہ تو عمل کا ردِعمل تھا۔ اس انتہا کی نفرت کو سہہ کر بھی اس کا دل تھا کہ اسی کے نام سے دھڑک رہا تھا۔ جس پل وہ اس کے وجود سے اپنے انتقام کی آگ بجھا کرمنہ پھیر کر سو گیا تھا، ایمان اُٹھ کر بیٹھ گئی ۔
نائٹ بلب کی نیلگوں روشنی میں اس کے ساحرانہ نقوش کچھ اور بھی دلکشی سمیٹ لائے تھے۔ گہری نیند کی آغوش میں ڈوبا اس کا چہرہ کسی معصوم بچے کی طرح بے ریا، سادہ اور حسین نظر آتا تھا۔ ایمان نے دل کی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہو کر نرمی و آہستگی سے اس کی صبیح پیشانی پر بکھرے بال سمیٹ کر بہت دیر تک جی بھر کے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلک گئی تھیں۔
اور جس پل وہ جھک کر اس کی خم دار لانبی پلکوں سے سجی خواب ناک آنکھوں کو اپنے ہونٹوں سے چوم رہی تھی، اس کی آنکھ میں مچلتی نمی پلکوں کی دہلیز پھلانگ کر ولید حسن کے چہرے کو نمناک کر گئی تھی۔
وہ نیند میں کسمسایا تھا، جاگا نہیں تھا۔ مگر ایمان گھبرا کر سرعت سے فاصلے پہ ہوگئی تھی۔ اس نے ٹائم دیکھا، رات کے تین بج رہے تھے۔ کچھ سوچ کر اس نے بستر چھوڑ دیا اور واش روم کی سمت بڑھ گئی تھی۔
دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا بھی تو کوئی حل ہونا چاہئے تھا۔
                                    ###

”موم کی طرح پگھلتے ہوئے دیکھا اس کو
رُت جو بدلی تو بدلتے ہوئے دیکھا اس کو
جانے کس غم کو چھپانے کی تمنا ہے اُسے
آج ہر بات پر ہنستے ہوئے دیکھا اس کو
وہ جو کانٹوں کو بھی نرمی سے چھوا کرتا تھا
ہم نے پھولوں کو مسلتے ہوئے دیکھا اس کو
جانے وہ مانگنے جاتا تھا دُعاؤں میں کسے
ہاتھ اُٹھاتے ہی سسکتے ہوئے دیکھا اس کو
پھر ہاتھ دُعا کو اُٹھائے ہم نے
جب مقدر سے اُلجھتے ہوئے دیکھا اس کو“
ولید حسن کی آنکھ حسب معمول فجر کے وقت کھلی تھی۔
اس نے کروٹ بدل کر دیکھا، اس کا پہلو خالی تھا۔ وہ ایک دم ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ کمرے کے نیم تاریک ماحول میں وہ اُسے جائے نماز پہ بیٹھی، ہاتھ دُعا کو پھیلائے سسکتی ہوئی نظر آئی۔ اس کی ہچکیوں کی آواز سے پورا ماحول سوگوار سا ہو رہا تھا۔ ولید نے ہونٹ بھینچ لئے تھے اور بستر سے پیر لٹکا کر اپنے سلیپر پہننے لگا۔
اس نے الماری سے کپڑے جو بھی ہاتھ لگے، کھینچے اور واش روم میں گھس گیا۔
باتھ لے کر نکلا تو یہ دیکھ کر موڈ کچھ اور خراب ہوگیا کہ وہ ہنوز اسی کیفیت میں بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ ہچکیوں، سسکیوں میں کچھ اور اضافہ ہو چکا تھا۔ اس نے زور سے ہیئر برش ٹیبل پر پٹخا تب وہ ہڑبڑا کر اُٹھی اور جائے نماز تہہ کرنے لگی۔
”بہت شوق ہے تمہیں اپنی نام نہاد مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کا…؟ مگر ایک بات میری کان کھول کر سن لو…! میں اپنے پرسنلز تمہیں کس سے بھی شیئر کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔
انڈر اسٹینڈ…!“
اس کے پاس رُک کر وہ خشک و سپاٹ تحکم بھرے لہجے میں گویا تنبیہ کر رہا تھا۔ ایمان نے خاموشی سے سنا اور تہہ کیا ہوا جائے نماز میز پہ رکھنے لگی۔ اس کی یہ خاموشی ولید کو ناگوار گزری تھی جبھی وہ ہتھے سے اُکھڑ گیا تھا۔
”تم نے سنا نہیں…! میں کیا بکواس کر رہا ہوں…؟“
اس نے ایک دم اس کا رُخ پھیرا اور اس کا چہرہ اپنے فولادی ہاتھ میں لے کر سختی سے استفسار کیا۔
ایمان نے سہم کر اُسے دیکھا تھا۔ پھر عافیت اسی میں سمجھی تھی کہ سر کواثبات میں ہلا دے۔
”کسی کے بھی کمرے میں آنے سے قبل اپنے چہرے پہ چسپاں اس مسکینی کو ختم کرو۔“
اُسے جھٹک کر وہ اپنے مخصوص کھردرے انداز میں ایک نیا آرڈر دیتا خود پلٹ کر کمرے سے نکل گیا۔ ایمان نے اپنے جھلستے وجود کی حدتوں سے اپنا دم اُلجھتا ہوا محسوس کیا تھا توآگے بڑھ کر کھڑکیاں کھول کر پردے بھی ہٹا دیئے۔
 
صبحِ نسیم کے سرد جھونکے اس کے چہرے سے ٹکرائے تو اندر لگی آگ ذرا سی ہلکی ہوئی۔ وہ کتنی دیر وہیں کھڑی گہرے گہرے سانس بھرتی رہی۔ فضاء میں صلوٰة اوردرود کی ملتی جلتی آوازیں تھیں، جن میں چڑیوں کی چہکار بھی شامل ہو رہی تھی۔ بہت پرُنور فضاء تھی۔ وہ نم آنکھوں، دھڑکتے دل اور مضطرب وجود کے ساتھ پھر سے وہی دُعا مانگنے لگی جو اس کی دھڑکنوں میں بس گئی تھی۔
ولید کی سلامتی حفاظت اور زندگی کی دُعا۔
موسیٰ کی وحشت اور طیش سے سرخ آنکھیں اور دھمکیاں یاد آتیں تو اس کی سانسیں بھی تھمنے لگتی تھیں۔ زندگی کا یہ ایسا انوکھا رُخ تھا کہ وہ خود کو ایک پرَ کٹی چڑیا کی طرح حالات کے پنجرے میں پھڑپھڑاتا محسوس کر رہی تھی۔ وجود لہولہان تھا، مگر دل کی وحشت کا انت نہیں تھا۔
”السلام علیکم…! صبح بخیر زندگی…!“
وہ اپنی بے چین اور مضطرب سوچوں میں گم تھی، جب فضہ نے پیچھے سے آکر اس کے نازک سے وجود کو بہت پرُجوش سے انداز میں اپنی بانہوں کے حصار میں مقید کر کے گنگنانے کے انداز میں کہا تو ایمان نے بہت سرعت سے غیر محسوس انداز میں اپنے آنسو پونچھ ڈالے تھے۔
وعلیکم السلام…! جزاک اللہ…!“
اس نے آہستگی سے اپنا رُخ اس کی جانب پھیرا اور کسی قدر متانت سے جواب دیا تھا۔ فضہ نے بہت دھیان سے اس کی جھکی، مگر بھیگی پلکوں کو دیکھا تھا اور ایک دم خاموش ہوگئی تھی۔
”تم خوش نہیں ہو ایمی…؟“
فضہ نے کچھ توقف سے کہا تو ایمان ہونٹ کچلنے لگی تھی۔
”خوشی کی تلاش میں ہوں…!“
اس نے بھیگی آواز میں سرگوشی کی تو فضہ نے بے اختیار اس کے ہاتھ تھام لئے تھے۔
”خوشی تمہارے ہاتھوں کی مٹھیوں میں قید ہے ایمی…! دیکھو تو سہی، محسوس تو کرو۔“
ایمان نے ہونٹ بھینچ لئے۔وہ اُسے کچھ بھی نہیں بتا سکتی تھی۔
”ولید کا روّیہ تمہارے ساتھ کیسا تھا…؟“
اور ایمان نے اس خوف سے نظریں چرا لیں کہ وہ ان آنکھوں میں چھپی تمام حکایتیں نہ پڑھ لے۔ فضہ نے اس کی خاموشی پر رُک کر اس کے سراپے پر نگاہ کی تھی۔
دُھلا دُھلایا، نکھرا سا روپ، وہ جیسے مطمئن ہوگئی۔
”میں تمہیں نماز کے لئے جگانے آئی تھی۔ولید کو مسجد جاتے دیکھا تھاناں،یہاں آئی تو محترمہ نہ صرف بیدار ہیں، بلکہ ازخود اپنے بہت سے کام بھی نپٹا چکی ہیں۔بہت اچھی تبدیلی ہے میری جان…!“
وہ کسی قدر شوخی سے کہتی ایک بار پھر اس کے ساتھ لپٹی۔ ایمان ساکن کھڑی رہی۔
”میں اب تم لوگوں کے ناشتے کا انتظام کرتی ہوں۔
تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتاؤ…؟“
وہ اُٹھتے اُٹھتے بولی۔ایمان نے فی الفور سر کو نفی میں ہلا دیا۔ پھر اس کے جانے کے بعد خود کو نڈھال سا محسوس کیا تو بستر پہ جانے سے قبل پہلے الماری کھول کر کسی قدر شوخ سا لباس منتخب کیا تھا، مگر اُسے پہننے کی وہ چاہنے کے باوجود ہمت نہیں کر پائی کہ سر ایک دم ہی بہت بوجھل سا ہونے لگا تھا۔ 
کپڑے وہیں چھوڑ کر وہ خود کو گھسیٹتی ہوئی بستر تک لائی تھی، اور لیٹنے کے بعد اپنے اوپر کمبل کھینچ لیا تھا۔ تب ہی اس کے سیل پر وائبریشن ہوئی تھی۔اس نے نمبر دیکھے بغیر کال ریسیو کی تھی ا ور ایک دم سرد پڑ گئی تھی۔
                                                 ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط