”شام بھی ہوگئی دُھندلا گئیں آنکھیں بھی میری
بھولنے والے میں کب تک تیرا رستہ دیکھوں
کاش صندل سے میری مانگ اُجالے آکر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں
تو میرا کچھ نہیں لگتا مگر اے جانِ حیات
جانے کیوں تیرے لئے دل کو دھڑکتا دیکھوں
بند کر کے میری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں
تب ضدیں میں اس کی پوری کروں ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح اُسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جاتے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پھول کی طرح میرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایہ دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اُسے بس ایک بار
خواب بن کے تیری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں“
اُسے ماما کی طرف آئے ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا، اور اس دوران ولید حسن نے پلٹ کر بھی اس کی خبر نہیں لی تھی۔
(جاری ہے)
کئی بار دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے اس کا نمبر ڈائل کیا، مگر پھر ارادہ ترک کر دیا کہ اس کے موڈ کا کچھ پتا نہیں چلتا تھا، بلکہ اس کے لئے تو اس کا ایک ہی انداز تھا، مخصوص آتش فشانی روپ، ہتک آمیز، بے لچک آنکھوں سے اس کے سامنے کے ساتھ ہی جارحیت سمٹ آئی، کتنا بدل گیا تھا وہ۔
ایمان لان میں ٹہلتے ٹہلتے تھک گئی تو کچھ سوچ کر فضہ کا نمبر ڈائل کر لیا۔
”کیسی ہو فضہ…؟“
رابطہ بحال ہونے پر اس نے سلام کے بعد پوچھا تھا۔
”فٹ فاٹ…! تم سناؤ…! ہماری یاد کیسے آگئی…؟“
”بور ہو رہی تھی، سوچا تم سے بات کر لوں…!“
وہ جھولے پر آکر بیٹھ گئی اور آہستگی سے جواب دیا۔
”تو واپس آجاؤ ناں…! مجھے پتا ہے، تم ساجن کے بن اُداس ہو رہی ہو۔“
فضہ کے وثوق بھرے لہجے پہ اس کے چہرے پر بھولی بھٹکی مسکان کی جھلک لہرائی تھی۔
”ولید سے کہو ناں، مجھے آکر لے جائیں۔“
اس کا مدہم لہجہ سرگوشی میں ڈھلنے لگا۔
”تم خود کہو ناں، تم سے زیادہ تو میری بات اہمیت نہیں رکھتی۔“
فضہ نے ٹوکا تھا، اور وہ ملول ہونے لگی۔
”تم کیا جانو کہ میری حیثیت کتنی ڈاؤن ہوگئی ہے، ان کی نظروں میں۔“
وہ خود سے سوچ رہی تھی۔
”چپ کیوں ہوگئی ہو…؟ یہ لو، ولید آگیا ہے، خود بات کر لو اس سے۔
“
فضہ کی بات پر وہ ایک دم گھبرا گئی۔
”ہیلو…!“
ایمان نے اس کی آواز کے ساتھ اپنی دھڑکنوں کو بے ترتیب ہوتے پایا تھا۔
”کیسے ہیں آپ…؟“
سوکھتے ہونٹوں پر زبان پھیر کر وہ گڑبڑا کر بولی۔
”کتنی بار کہوں کہ اس قسم کے ڈرامے مت کیا کرو…؟“
وہ طیش سے پھٹ پڑا۔ ایمان اس قدر بے مروّتی پہ جیسے خفت سے سرخ پڑ گئی۔
اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ گلے میں آنسوؤں کا پھندا لگنے لگا تھا۔ کچھ کہے بغیر اس نے سلسلہ کاٹ دیا تھا۔ آنکھوں میں آئے آنسو پلکیں جھپک جھپک کر اندر اُتار رہی تھی، جب ایک بار پھر موبائل پہ بیل ہونے لگی۔ اس نے دُھندلائی ہوئی نظروں سے دیکھا، اسکرین پر ولید کا نام تھا۔ اُسے کال ریسیو کرنا پڑی تھی۔
”کیوں فون کیا تھا تم نے…؟“
اس کی خاموشی پہ وہ کسی قدر تنک کر پوچھ رہا تھا۔
”آپ کو نہیں، فضہ کو کیا تھا۔“
ایمان نے تمام آنسو اندر اُتار کر کسی قدر سرد مہری سے جتایا۔ اس کا اس قدر انسلٹنگ انداز اُسے کوڑے کی طرح لگا تھا۔ دوسری سمت یک لخت خاموشی چھا گئی۔ پھر وہ کسی قدر تاخیر سے مگر تپے ہوئے انداز میں گویا ہوا تھا۔
”مجھے بہت اچھی طرح سے اندازہ ہے، جتنی اہمیت تمہارے نزدیک میری ہے۔“
”عجیب انداز تھا، نفرت سے بھینچا ہوا، شاکی پن سموئے۔
ایمان گہرا سانس بھر کے رہ گئی۔
”میں آپ کی غلط فہمیاں دُور کرنے سے قاصر ہوں۔“
اس نے کسی قدر عاجز ہو کر کہا تو ولید طنزیہ ہنسی ہنسا۔
”غلط فہمیاں ہوں تو دُور کروں ناں…؟“
ایمان نے ہونٹ بھینچ لئے۔ محبت کے اس سفر میں وہ کتنی اکیلی تھی، اس کا دل بوجھل ہونے لگا۔
”آپ مجھے لینے کب آئیں گے…؟“
”تمہیں اس بات میں دلچسپی ہے…؟“
جواباً وہ زہر خند سے بولا تھا اور ایمان نے خود پر ضبط کرنے کی خاطر ہونٹ بھینچ لئے تھے۔
”مجبوریوں کے رشتے غیر مستقل اور غیر متوازن ہی ہوتے ہیں۔ سمجھ لو فی الحال مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ اگر کبھی محسوس کی تو آجاؤں گا۔“
اس قدر بے مروّت، توہین آمیز انداز پہ ایمان غیض اور خفت سے منجمد بیٹھی رہ گئی۔ اس مرتبہ ولید نے خود رابطہ منقطع کیا تھا۔ وہ ساکن سی اپنے ہاتھ میں موجود موبائل کی تاریک ہوتی اسکرین کو گھورتی رہی۔
اس سے کوئی بہت اچھی توقعات تو اس نے وابستہ ہی نہیں کی تھیں، مگر وہ ایسی انتقامی کارروائی پہ اُتر آئے گا…؟یہ بھی کم از کم ایمان نے نہیں سوچا تھا۔
ماما جو اس سے اسی ایک ہفتے میں ہی متعدد بار ولید کے نہ آنے اور اس کے واپس جانے کے متعلق استفسار کر چکی تھیں، اب آنے والی صورتِ حال سے کیسے نپٹنا ہے، ہر سوال کرتی نظروں کو سہنا ہے۔ یہ سوچ کر ہی اس کا دل بے کل ہو جا رہا تھا۔
###