Episode 80 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 80 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”شام بھی ہوگئی دُھندلا گئیں آنکھیں بھی میری
بھولنے والے میں کب تک تیرا رستہ دیکھوں
کاش صندل سے میری مانگ اُجالے آکر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں
تو میرا کچھ نہیں لگتا مگر اے جانِ حیات
جانے کیوں تیرے لئے دل کو دھڑکتا دیکھوں
بند کر کے میری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں
تب ضدیں میں اس کی پوری کروں ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح اُسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جاتے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پھول کی طرح میرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایہ دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اُسے بس ایک بار
خواب بن کے تیری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں“
اُسے ماما کی طرف آئے ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا، اور اس دوران ولید حسن نے پلٹ کر بھی اس کی خبر نہیں لی تھی۔

(جاری ہے)

کئی بار دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے اس کا نمبر ڈائل کیا، مگر پھر ارادہ ترک کر دیا کہ اس کے موڈ کا کچھ پتا نہیں چلتا تھا، بلکہ اس کے لئے تو اس کا ایک ہی انداز تھا، مخصوص آتش فشانی روپ، ہتک آمیز، بے لچک آنکھوں سے اس کے سامنے کے ساتھ ہی جارحیت سمٹ آئی، کتنا بدل گیا تھا وہ۔
ایمان لان میں ٹہلتے ٹہلتے تھک گئی تو کچھ سوچ کر فضہ کا نمبر ڈائل کر لیا۔
”کیسی ہو فضہ…؟“
رابطہ بحال ہونے پر اس نے سلام کے بعد پوچھا تھا۔
”فٹ فاٹ…! تم سناؤ…! ہماری یاد کیسے آگئی…؟“
”بور ہو رہی تھی، سوچا تم سے بات کر لوں…!“
وہ جھولے پر آکر بیٹھ گئی اور آہستگی سے جواب دیا۔
”تو واپس آجاؤ ناں…! مجھے پتا ہے، تم ساجن کے بن اُداس ہو رہی ہو۔“
فضہ کے وثوق بھرے لہجے پہ اس کے چہرے پر بھولی بھٹکی مسکان کی جھلک لہرائی تھی۔
”ولید سے کہو ناں، مجھے آکر لے جائیں۔“
اس کا مدہم لہجہ سرگوشی میں ڈھلنے لگا۔
”تم خود کہو ناں، تم سے زیادہ تو میری بات اہمیت نہیں رکھتی۔“
فضہ نے ٹوکا تھا، اور وہ ملول ہونے لگی۔
”تم کیا جانو کہ میری حیثیت کتنی ڈاؤن ہوگئی ہے، ان کی نظروں میں۔“
وہ خود سے سوچ رہی تھی۔
”چپ کیوں ہوگئی ہو…؟ یہ لو، ولید آگیا ہے، خود بات کر لو اس سے۔
فضہ کی بات پر وہ ایک دم گھبرا گئی۔
”ہیلو…!“
 ایمان نے اس کی آواز کے ساتھ اپنی دھڑکنوں کو بے ترتیب ہوتے پایا تھا۔
”کیسے ہیں آپ…؟“
سوکھتے ہونٹوں پر زبان پھیر کر وہ گڑبڑا کر بولی۔
”کتنی بار کہوں کہ اس قسم کے ڈرامے مت کیا کرو…؟“
وہ طیش سے پھٹ پڑا۔ ایمان اس قدر بے مروّتی پہ جیسے خفت سے سرخ پڑ گئی۔
اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ گلے میں آنسوؤں کا پھندا لگنے لگا تھا۔ کچھ کہے بغیر اس نے سلسلہ کاٹ دیا تھا۔ آنکھوں میں آئے آنسو پلکیں جھپک جھپک کر اندر اُتار رہی تھی، جب ایک بار پھر موبائل پہ بیل ہونے لگی۔ اس نے دُھندلائی ہوئی نظروں سے دیکھا، اسکرین پر ولید کا نام تھا۔ اُسے کال ریسیو کرنا پڑی تھی۔
”کیوں فون کیا تھا تم نے…؟“
اس کی خاموشی پہ وہ کسی قدر تنک کر پوچھ رہا تھا۔
”آپ کو نہیں، فضہ کو کیا تھا۔“
ایمان نے تمام آنسو اندر اُتار کر کسی قدر سرد مہری سے جتایا۔ اس کا اس قدر انسلٹنگ انداز اُسے کوڑے کی طرح لگا تھا۔ دوسری سمت یک لخت خاموشی چھا گئی۔ پھر وہ کسی قدر تاخیر سے مگر تپے ہوئے انداز میں گویا ہوا تھا۔
”مجھے بہت اچھی طرح سے اندازہ ہے، جتنی اہمیت تمہارے نزدیک میری ہے۔“
”عجیب انداز تھا، نفرت سے بھینچا ہوا، شاکی پن سموئے۔
ایمان گہرا سانس بھر کے رہ گئی۔
”میں آپ کی غلط فہمیاں دُور کرنے سے قاصر ہوں۔“
اس نے کسی قدر عاجز ہو کر کہا تو ولید طنزیہ ہنسی ہنسا۔
”غلط فہمیاں ہوں تو دُور کروں ناں…؟“
ایمان نے ہونٹ بھینچ لئے۔ محبت کے اس سفر میں وہ کتنی اکیلی تھی، اس کا دل بوجھل ہونے لگا۔
”آپ مجھے لینے کب آئیں گے…؟“
”تمہیں اس بات میں دلچسپی ہے…؟“
جواباً وہ زہر خند سے بولا تھا اور ایمان نے خود پر ضبط کرنے کی خاطر ہونٹ بھینچ لئے تھے۔
”مجبوریوں کے رشتے غیر مستقل اور غیر متوازن ہی ہوتے ہیں۔ سمجھ لو فی الحال مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ اگر کبھی محسوس کی تو آجاؤں گا۔“
اس قدر بے مروّت، توہین آمیز انداز پہ ایمان غیض اور خفت سے منجمد بیٹھی رہ گئی۔ اس مرتبہ ولید نے خود رابطہ منقطع کیا تھا۔ وہ ساکن سی اپنے ہاتھ میں موجود موبائل کی تاریک ہوتی اسکرین کو گھورتی رہی۔
اس سے کوئی بہت اچھی توقعات تو اس نے وابستہ ہی نہیں کی تھیں، مگر وہ ایسی انتقامی کارروائی پہ اُتر آئے گا…؟یہ بھی کم از کم ایمان نے نہیں سوچا تھا۔
ماما جو اس سے اسی ایک ہفتے میں ہی متعدد بار ولید کے نہ آنے اور اس کے واپس جانے کے متعلق استفسار کر چکی تھیں، اب آنے والی صورتِ حال سے کیسے نپٹنا ہے، ہر سوال کرتی نظروں کو سہنا ہے۔ یہ سوچ کر ہی اس کا دل بے کل ہو جا رہا تھا۔
                                       ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط