”میرا تمام فن، میری کاوش، میری ریاضت
اِک ناتمام گیت کے مصرعے پس جن کے بیچ
معنی کا ربط ہے نہ کسی قافیے کا سیل
میری متاع بس یہی جادو ہے عشق کا
سیکھا ہے جس کو میں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ
لیکن یہ سحرِ عشق کا جادو عجیب ہے
کھلتا نہیں ہے کچھ کہ حقیقت میں کیا ہے یہ
تقدیر کی عطا ہے یا کوئی سزا ہے یہ
کہنے کو یوں تو عشق کا جادو ہے میرے پاس
پر میرے دل کے واسطے اتنا ہے اس کا بوجھ
سینے پہ اِک پہاڑ سا ہٹتا نہیں ہے یہ
لیکن اثر کے باب میں ہلکا ہے اس قدر
تم پہ اگر چلاؤں تو چلتا نہیں ہے یہ“
فضہ کی طبیعت ان دنوں کچھ خراب رہنے لگی تھی۔
آج اسے ویسے بھی ڈاکٹر کے پاس چیک اَپ کے لئے جانا تھا۔ اس کی ڈلیوری بھی نزدیک تھی، جبھی اب ایمان کی کوشش ہوتی، اسے زیادہ سے زیادہ آرام مہیا کرے۔
(جاری ہے)
بہت سارا کام اس نے اپنے کاندھوں پر لے لیا تھا، مگر فضہ کے علاوہ تائی ماں بھی اس کا پورا ہاتھ بٹانے کی کوشش ضرور کرتی تھیں۔
اس وقت اس نے پہلے پورے گھر کی صفائی دُھلائی کی تھی، پھر فضہ کو کپڑے نکال کر دیئے تاکہ وہ ڈاکٹر کے پاس جانے کو تیار ہو جائے۔
عاقب بھائی اسے لینے آنے والے تھے۔ پھر وہ اپنے کمرے میں آگئی۔ آج اسے اتنی فرصت ہی نہ ملی تھی کہ اپنا کمرہ بھی صاف کر لیتی۔ تکیے اور کمبل ہٹا کر اس نے چادر جھاڑ کر بچھانا چاہی تو سیل فون کی بپ پہ چونکی تھی۔ ایک بار پھر انجان نمبر تھا، یقینا موسیٰ کا فون تھا، مگر اس نے خائف ہوئے بغیر کال ریسیو کر لی۔ آج اس کا ارادہ اسے کھری کھری سنانے کا تھا۔
”ہیلو…! کیا تکلیف ہے تمہیں…؟ کیوں جان نہیں چھوڑ دیتے تم آخر میری…؟“
وہ کسی آتش فشاں لاوے کی طرح سے ہی پھٹ پڑی تھی۔
”بے فکر رہیں، میری آج آپ کو لاسٹ کال ہے۔“
”اس میں تمہاری ہی بہتری ہے۔“
وہ جواباً پھنکار کر بولی تو موسیٰ ہنس پڑا۔
”وجہ تو پوچھ لیں، میں آپ کو یہ خوش خبری کیوں سنا رہا ہوں…؟“
میں لعنت بھیجتی ہوں تم پہ، تمہاری ہر بات پہ۔
“
اس کے لہجے کی خباثت پہ دھیان دیئے بغیر وہ سرد لہجے میں بولی تو موسیٰ نے بے ساختہ اسے ٹوک دیا۔
”نو نو…! یہ تو فیئر نہ ہوا ناں…؟ چلیں، آپ نہ پوچھیں، میں بتاتا ہوں۔ گو کہ اب آپ میرے لالہ کے قابل تو نہیں رہیں، برتی ہوئی عورت میں خود بھی ان کے لئے پسند نہیں کروں گا، مگر آپ کے جرم کی سزا کے طور پر میں آپ کو ہمیشہ کے لئے بیوگی کی چادر ضرور اوڑھا سکتا ہوں۔
عنقریب آپ میرے انتقام کا یہ بھیانک رنگ دیکھیں گی۔ گڈ بائے…!“
سلسلہ کٹ گیا، جبکہ ایمان دہشت کے حصار میں گھِری بے ساختہ اسے پکارنے لگی تھی۔
”مم… موسیٰ…! ہیلو…! ہیلو…! میری بات سنو…!“
اس نے ڈوبتے ہوئے دل اور کانپتی ہوئی اُنگلیوں سے اس کا نمبر ملایا، مگر اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔ ایمان کو لگا تھا وہ ابھی بے ہوش ہو کر گر پڑے گی۔
###
اپنی کوشش کی ناکامی پہ انتہائی مایوسی میں گھِرتے ہوئے ہاتھوں میں چہرہ ڈھانپ کر سسکنے لگی۔ خوف کے ساتھ وحشت اور بے بسی کے احساس نے اسے بری طرح سے توڑ پھوڑ ڈالا تھا۔ جانے وہ کب تک اسی طرح آنسو بہاتی رہی تھی کہ کسی خیال کے تحت پہلے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھے، پھر سیل فون اُٹھا کر ولید کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔
ایک بار، دو بار، تین بار ٹرائی کرنے پہ اس کا دل گھبراہٹ کا شکار ہونے لگا۔ پتا نہیں وہ کال ریسیو کیوں نہیں کر رہا تھا…؟ اس نے ایک بار پھر اس کا نمبر ڈائل کیا۔
”کیا مصیبت ٹوٹ پڑی ہے تم پہ…؟ آفس میں ہوں، بزی ہو سکتا ہوں، تمہیں احساس کرنا چاہئے۔“
وہ فون پِک کرتے ہی برس پڑا، مگر ایمان کے دل پہ تو جیسے سکون کے چھینٹے پڑے تھے، اس کی صیح سلامت آواز سن کر۔
”ولید…! پلیز، اسی وقت گھر آجائیں ناں…! میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔“
عجیب فرمائش ہوئی تھی، جس نے ولید کی بدمزاجی کو کچھ اور ہوا دی۔
”دماغ درست ہے محترمہ…؟ حد ہے نخرے کی بھی۔ بند کرو فون اور خبردار جو مجھے اب ڈسٹرب کیا۔“
”ولید…! میری بات…“
مگر وہ سلسلہ کاٹ چکا تھا۔ ایمان کی آنکھیں اس بے اعتنائی کے مظاہرے پر پھر سے بھیگ گئیں۔
”یااللہ…! کیا کروں اب…؟“
وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر سسک اُٹھی۔
”ایمان…! ایمی…!“
نیچے سے فضہ اسے پکار رہی تھی۔ وہ خود کو سنبھال کر اُٹھی، پہلے واش روم جا کر منہ پر پانی کے چھپاکے مارے، پھر سیڑھیوں سے نیچے اُتر آئی تھی۔ عاقب بھائی آچکے تھے، فضہ اور تائی ماں جانے کو تیار کھڑی تھیں۔
”ہم جا رہے ہیں، دروازہ بند کر لو…! کوئی بھی آئے، پوچھے بغیر دروازہ مت کھولنا۔
“
تائی ماں کی تاکید پہ اس نے گردن موڑ کر گھر کی خاموشی پہ غور کیا تھا، پھر مضطرب سی ہو کر بولی تھی۔
”میں تب تک اکیلی رہوں گی…؟“
”پتر…! تمہارے تاؤ جی کچھ دیر میں آنے والے ہیں، پھر ابا جی تو یہیں ناں گھر پہ…!“
تائی ماں کی تسلی پر وہ خاموش ہوگئی تھی۔ اس نے ان کے جانے کے بعد دروازہ بند کیا اور پلٹ کر سکھ چین کے پیڑ کے نیچے رکھی پلاسٹک کی کرسی پہ گرے گلابی پھول سمیٹنے لگی۔
انداز میں بے دلی اور تھکان تھی۔ منڈیر پہ بیٹھے کوّے نے اپنی آواز کا سُر بکھیرا، تب وہ ہاتھ میں اکٹھے کئے پھول پھینک کر اسی کرسی پہ بیٹھ گئی۔
”اتنا تو میرے حال پہ احسان کیا کر
آنکھوں سے میرا درد پہچان لیا کر“
ہوا کے دوش پہ لہراتی گیت کی آواز اس کی سماعتوں میں اُتری تو ساری توجہ اسی سمت ہوگئی۔
”کوئی ساتھ دے سفر میں بہت تھک گیا ہوں میں
کچھ پل ہوں تیرے ساتھ میری مان لیا کر“
اس کا دل درد سے بوجھل ہونے لگا۔ کرسی کی بیک سے سر ٹکا کر اس نے آنسوؤں کو بہنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا۔