Episode 96 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 96 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”پتر…! خیر ہے، میں نماز پڑھ رہا تھا، جب مجھے ایسا لگا جیسے کوئی چیخا ہو…؟“
”جی کچھ نہیں…! ولید کو چوٹ لگ گئی ہے ناں، تو میں خون دیکھ کر پریشان ہوگئی تھی۔“
تاؤ جی اس کی بات سن کر بری طرح سے چونکے۔
”کیسے چوٹ لگ گئی اسے…؟“
”یہ سب تو انہوں نے نہیں بتایا، اوپر کمرے میں ہیں، آپ خود پوچھ لیں ان سے۔“
وہ آہستگی سے بولی۔
تاؤ جی عجلت بھرے انداز میں اوپر چلے گئے۔ تب وہ آہستگی سے چلتی کچن میں آگئی۔ چولہا جلایا اور فریج سے دودھ کی کیتلی نکال کر گرم ہونے کو رکھ دی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں ابھی بھی معمول پہ نہیں آئی تھیں۔ اسے کامل یقین تھا، یہ حرکت صرف موسیٰ کی ہی تھی۔
”اگر انہیں کچھ ہو جاتا…؟“
اس کا دل ڈوبنے لگا۔
”اپنی کوشش کی ناکامی پر کیا وہ دوبارہ یہ حرکت نہیں کرے گا…؟“
ایک نئی سوچ نے اس کے دماغ میں جگہ بنائی اور اسے لگا جیسے اس کا سانس اُلجھنے لگا ہو۔

(جاری ہے)

”کیا کروں اب میں…؟ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔“
اس کا دل چاہا وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔ وہ اتنی بے دھیان تھی کہ دودھ اُبل کر برنر میں گرنے لگا، مگر اسے خبر تک نہ ہو پائی تھی۔
”ایمی جی…!“
اس نے گھبرا کر دیکھا، اشعر تھا، ہمدردی سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
”کنٹرول یور سیلف…! بھائی بالکل ٹھیک ہیں۔“
وہ اس کا سر تھپک کر تسلی دے رہا تھا۔
اس نے ہونٹ کا کنارہ دانتوں تلے داب کر ہچکیوں پرقابو پا کر سر کو اثبات میں جنبش دی اور چولہا بند کر دیا۔
”بابا کہہ رہے ہیں، گرم دودھ میں دیسی گھی ڈال کر ولی بھائی کو پلا دیں۔“
”ہاں…! میں لا رہی ہوں۔“
ایمان نے گلاس میں دودھ نکالتے ہوئے کہا تو اشعر پلٹ کر چلا گیا۔ جس وقت وہ دودھ کے گلاس سمیت اوپرآئی، ولید کمرے میں اکیلا تھا۔
بہت سارے تکیوں کے سہارے نیم دراز کشادہ پیشانی پر سفید پٹی بندھی تھی، شرٹ بھی تبدیل ہو چکی تھی، آسمانی شرٹ کا گریبان کھلا تھا، جس سے سینے پر پڑی کھرونچیں بہت واضح ہو رہی تھیں۔ ایمان نے ہونٹ بھینچ کر زاویہ بدل ڈالا۔
”واش روم میں شرٹ پڑی ہے میری، پہلے اسے دھو دینا، اماں کی نظر میں نہیں آنی چاہئے۔“
اس کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس لیتے ہوئے وہ آہستگی سے بولا تھا۔
ایمان نے محض سرہلانے پر اکتفا کیا۔
”اور کہاں چوٹ لگی ہے آپ کو…؟“
اس کی ساری تشویش اسی حوالے سے تھی۔
”چوٹ تو بس سر پہ ہی لگی ہے، باقی تو بائیک سے گرنے کے باعث خراشیں ہی آئی تھیں۔“
وہ گھونٹ گھونٹ دودھ پی رہا تھا۔
”کون تھا وہ…؟ حلیہ یاد ہے آپ کو اس کا…؟“
وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ولید نے خالی گلاس اسے تھمایا اور خود سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔
”مجھے نیند آ رہی ہے ایمان…! پلیز، جو پوچھنا ہے، صبح پوچھ لینا۔“
ایمان نے دیکھا، اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ ایمان کا دل انجانے خدشات کا شکار ہوگیا۔
”ولید…! ابھی مت سوئیں، مجھ سے باتیں کریں ناں…!“
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر زور سے جھنجوڑتے ہوئے بولی۔ ولید نے خفیف سی ناراضگی سمیت اسے دیکھا۔
”ایمان…! میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
”اسی لئے تو کہہ رہی ہوں ولید…! آپ کو پتا بھی ہے، سر پہ چوٹ لگے تو فوری سونا نہیں چاہئے، خطرناک ہوتا ہے۔“
اس اہم اطلاع پہ ولید کے ہونٹوں پر مبہم سی مسکان اُتری۔
”وہ شدید چوٹ کے لئے ہوتا ہے۔ میری چوٹ معمولی ہے، ڈونٹ وری…!“
”آپ کو کیسے پتا آپ کی چوٹ معمولی سی ہے…؟“
وہ دانستہ بحث پہ اُتری۔ مقصد اسے جگانا تھا، مگر ولید کو اس بحث نے شدید کوفت میں مبتلا کر دیا تھا، جبھی بے دریغ اسے جھڑک ڈالا۔
”شٹ اَپ ایمان…! اگر تم خاموش نہیں ہو سکتی ہو تو جاؤ، چلی جاؤ کمرے سے۔“
ایمان نے ہونٹ بھینچ کر جلتی آنکھوں سے اسے کروٹ بدل کر بے خبر ہوتے دیکھا تو اپنے آنسو روکتی وہاں سے اُٹھ گئی تھی۔ مگر دل کو چین بھی تو نہیں تھا۔ جلے پیرکی بلی کی طرح پھرتے پھرتے بار بار اسے دیکھنے لگتی۔ اس کی ہموار سانسوں کا زیرو بم اس کی پرُسکون اور گہری نیند کا گواہ تھا۔
مگر اسے جانے کون سا خوف لاحق تھا کہ کئی بار اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس کی سانسوں کو محسوس کرتے اپنا اطمینان کرتی، مگر چند لمحے بعد پھروہی بے چینی، پھر سے وہی عمل دُہرانے پر مجبور کر دیتی۔
جب چوتھی سے پانچویں بار اس نے یہی حرکت کی، تب ولید نے نیند میں ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیا تھا۔ ایمان ایک دم ساکن ہوگئی۔ اس نے جھک کر بغور اسے دیکھا۔
وہ مکمل طور پر نیند کی آغوش میں تھا، مگر اس بے خبری کے عالم میں بھی اس کے لبوں نے اس کے ہاتھ کو جہاں سے چوما تھا، وہ وہی جگہ تھی جہاں سے اس کا ہاتھ جل چکا تھا۔ 
اس کے متفکر، بے چین چہرے پرایک دم ہی ایک الوہی مسکان اُتر آئی۔ ہاتھ کو اس کی گرفت سے نکالے بغیر وہ آہستگی سے اس کے ساتھ لگ کر لیٹ گئی تو چند لمحوں کے بعد خود بھی غافل ہوگئی تھی۔
                           ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط