”پتر…! خیر ہے، میں نماز پڑھ رہا تھا، جب مجھے ایسا لگا جیسے کوئی چیخا ہو…؟“
”جی کچھ نہیں…! ولید کو چوٹ لگ گئی ہے ناں، تو میں خون دیکھ کر پریشان ہوگئی تھی۔“
تاؤ جی اس کی بات سن کر بری طرح سے چونکے۔
”کیسے چوٹ لگ گئی اسے…؟“
”یہ سب تو انہوں نے نہیں بتایا، اوپر کمرے میں ہیں، آپ خود پوچھ لیں ان سے۔“
وہ آہستگی سے بولی۔
تاؤ جی عجلت بھرے انداز میں اوپر چلے گئے۔ تب وہ آہستگی سے چلتی کچن میں آگئی۔ چولہا جلایا اور فریج سے دودھ کی کیتلی نکال کر گرم ہونے کو رکھ دی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں ابھی بھی معمول پہ نہیں آئی تھیں۔ اسے کامل یقین تھا، یہ حرکت صرف موسیٰ کی ہی تھی۔
”اگر انہیں کچھ ہو جاتا…؟“
اس کا دل ڈوبنے لگا۔
”اپنی کوشش کی ناکامی پر کیا وہ دوبارہ یہ حرکت نہیں کرے گا…؟“
ایک نئی سوچ نے اس کے دماغ میں جگہ بنائی اور اسے لگا جیسے اس کا سانس اُلجھنے لگا ہو۔
(جاری ہے)
”کیا کروں اب میں…؟ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔“
اس کا دل چاہا وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔ وہ اتنی بے دھیان تھی کہ دودھ اُبل کر برنر میں گرنے لگا، مگر اسے خبر تک نہ ہو پائی تھی۔
”ایمی جی…!“
اس نے گھبرا کر دیکھا، اشعر تھا، ہمدردی سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
”کنٹرول یور سیلف…! بھائی بالکل ٹھیک ہیں۔“
وہ اس کا سر تھپک کر تسلی دے رہا تھا۔
اس نے ہونٹ کا کنارہ دانتوں تلے داب کر ہچکیوں پرقابو پا کر سر کو اثبات میں جنبش دی اور چولہا بند کر دیا۔
”بابا کہہ رہے ہیں، گرم دودھ میں دیسی گھی ڈال کر ولی بھائی کو پلا دیں۔“
”ہاں…! میں لا رہی ہوں۔“
ایمان نے گلاس میں دودھ نکالتے ہوئے کہا تو اشعر پلٹ کر چلا گیا۔ جس وقت وہ دودھ کے گلاس سمیت اوپرآئی، ولید کمرے میں اکیلا تھا۔
بہت سارے تکیوں کے سہارے نیم دراز کشادہ پیشانی پر سفید پٹی بندھی تھی، شرٹ بھی تبدیل ہو چکی تھی، آسمانی شرٹ کا گریبان کھلا تھا، جس سے سینے پر پڑی کھرونچیں بہت واضح ہو رہی تھیں۔ ایمان نے ہونٹ بھینچ کر زاویہ بدل ڈالا۔
”واش روم میں شرٹ پڑی ہے میری، پہلے اسے دھو دینا، اماں کی نظر میں نہیں آنی چاہئے۔“
اس کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس لیتے ہوئے وہ آہستگی سے بولا تھا۔
ایمان نے محض سرہلانے پر اکتفا کیا۔
”اور کہاں چوٹ لگی ہے آپ کو…؟“
اس کی ساری تشویش اسی حوالے سے تھی۔
”چوٹ تو بس سر پہ ہی لگی ہے، باقی تو بائیک سے گرنے کے باعث خراشیں ہی آئی تھیں۔“
وہ گھونٹ گھونٹ دودھ پی رہا تھا۔
”کون تھا وہ…؟ حلیہ یاد ہے آپ کو اس کا…؟“
وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ولید نے خالی گلاس اسے تھمایا اور خود سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔
”مجھے نیند آ رہی ہے ایمان…! پلیز، جو پوچھنا ہے، صبح پوچھ لینا۔“
ایمان نے دیکھا، اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ ایمان کا دل انجانے خدشات کا شکار ہوگیا۔
”ولید…! ابھی مت سوئیں، مجھ سے باتیں کریں ناں…!“
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر زور سے جھنجوڑتے ہوئے بولی۔ ولید نے خفیف سی ناراضگی سمیت اسے دیکھا۔
”ایمان…! میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
“
”اسی لئے تو کہہ رہی ہوں ولید…! آپ کو پتا بھی ہے، سر پہ چوٹ لگے تو فوری سونا نہیں چاہئے، خطرناک ہوتا ہے۔“
اس اہم اطلاع پہ ولید کے ہونٹوں پر مبہم سی مسکان اُتری۔
”وہ شدید چوٹ کے لئے ہوتا ہے۔ میری چوٹ معمولی ہے، ڈونٹ وری…!“
”آپ کو کیسے پتا آپ کی چوٹ معمولی سی ہے…؟“
وہ دانستہ بحث پہ اُتری۔ مقصد اسے جگانا تھا، مگر ولید کو اس بحث نے شدید کوفت میں مبتلا کر دیا تھا، جبھی بے دریغ اسے جھڑک ڈالا۔
”شٹ اَپ ایمان…! اگر تم خاموش نہیں ہو سکتی ہو تو جاؤ، چلی جاؤ کمرے سے۔“
ایمان نے ہونٹ بھینچ کر جلتی آنکھوں سے اسے کروٹ بدل کر بے خبر ہوتے دیکھا تو اپنے آنسو روکتی وہاں سے اُٹھ گئی تھی۔ مگر دل کو چین بھی تو نہیں تھا۔ جلے پیرکی بلی کی طرح پھرتے پھرتے بار بار اسے دیکھنے لگتی۔ اس کی ہموار سانسوں کا زیرو بم اس کی پرُسکون اور گہری نیند کا گواہ تھا۔
مگر اسے جانے کون سا خوف لاحق تھا کہ کئی بار اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس کی سانسوں کو محسوس کرتے اپنا اطمینان کرتی، مگر چند لمحے بعد پھروہی بے چینی، پھر سے وہی عمل دُہرانے پر مجبور کر دیتی۔
جب چوتھی سے پانچویں بار اس نے یہی حرکت کی، تب ولید نے نیند میں ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیا تھا۔ ایمان ایک دم ساکن ہوگئی۔ اس نے جھک کر بغور اسے دیکھا۔
وہ مکمل طور پر نیند کی آغوش میں تھا، مگر اس بے خبری کے عالم میں بھی اس کے لبوں نے اس کے ہاتھ کو جہاں سے چوما تھا، وہ وہی جگہ تھی جہاں سے اس کا ہاتھ جل چکا تھا۔
اس کے متفکر، بے چین چہرے پرایک دم ہی ایک الوہی مسکان اُتر آئی۔ ہاتھ کو اس کی گرفت سے نکالے بغیر وہ آہستگی سے اس کے ساتھ لگ کر لیٹ گئی تو چند لمحوں کے بعد خود بھی غافل ہوگئی تھی۔
###