”سفر آسان لگتا ہے
دلِ برباد تجھ کو یہ
سفر آسان لگتا ہے
ادھر تو سو چتا تھا اور ادھر
آنکھوں سے کوئی خواب چہرہ آن لگتا تھا
دلِ برباد ہم نے تو کہا تھا
یہ سفر آسان لگتا ہے مگر
آکھیں بدن سے چھین لیتا ہے“
اگلی صبح وہ جلدی بیدار ہوگئی تھی۔ چونکہ آپا کو رات ہی اشعر نے ولید کے ایکسیڈنٹ کے متعلق بتا دیا تھا، جبھی وہ سورج نکلنے سے بھی پہلے آن موجود ہوئی تھیں۔
ولید کی خیرخیریت دریافت کی، مطمئن ہوئیں اور کچن میں آگئیں۔
”آپا…! میں ناشتہ بنا لوں گی۔“
ایمان کو انہیں مصروف دیکھ کر انجانی سی خفت ہوئی۔
”ارے…! کچھ نہیں ہوتا چندا…! تم سب کو ناشتہ دو، بس…!“
ان کے لہجے میں مخصوص قسم کی نرمی و محبت تھی۔
(جاری ہے)
ان کے ناشتہ بناتے بناتے ایمان نے تاؤ جی کے ساتھ ساتھ اشعر اور ددا کو بھی ناشتہ پہنچا دیا۔
ان کے کمروں میں اس دوران وہ دو بار ولید کوبھی دیکھنے آئی تھی، جو ہنوز سو رہا تھا، مگر جب تیسری بار وہ اندر آئی، تب وہ نہ صرف اُٹھ چکا تھا، بلکہ منہ ہاتھ دھو کر واش روم سے نکلا تھا۔
”اُٹھ گئے آپ…! ناشتہ لے آؤں…؟“
”تم نے جگایا کیوں نہیں مجھے…؟“
ناشتے کے لئے سر کو اثبات میں جنبش دے کر اس نے بال ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے کہا تھا۔
”میں نے سوچا آپ کی نیند پوری ہو جائے۔“
وہ مسکرا کر کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔ ناشتے کی ٹرے لے کر آئی تو ولید گرے اور وائٹ لائیننگ کی شرٹ اور بلیو جینز میں تیار ہو چکا تھا۔
”کہیں جا رہے ہیں آپ…؟“
ایمان نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔
”کیوں…؟ چھٹی کر کے بیٹھ جاؤں کیا…؟“
وہ جوتے اپنے سامنے رکھ کر موزے پہنتے ہوئے بولا۔
”جی بالکل…! آرام کریں گھر پہ، بس…!“
ایمان نے ٹرے میز پر رکھتے ہوئے دو ٹوک انداز اختیار کیا، مگر ولید نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی تھی۔ اس نے جوتے پہنے اور اُٹھ کر ہاتھ دھونے چلا گیا۔
”میں ایک گھنٹے بعد واپس آؤں گا۔ تم تیار رہنا، ہاسپٹل لے جاؤں گا تمہیں۔ وہاں سب تمہارا پوچھ رہے تھے۔“
وہ بہت عجلت میں ناشتہ کر رہا تھا۔
”آپ کہیں جائیں گے، تب واپس بھی آئیں گے ناں…!“
ایمان کی سنجیدگی بھرے انداز پہ ولید نے ہاتھ روک کر اسے گھور کر دیکھا۔
”کیا فضول بات کر رہی ہو بار بار…؟ کہہ رہا ہوں ناں، معمولی چوٹ ہے۔“
”جو بھی ہو، میں بھی آپ سے کہہ چکی ہوں، آپ نہیں جائیں گے تو بس نہیں جانے دوں گی۔“
اس کے لہجے میں ہٹ دھرمی تھی، اس ہٹ دھرمی نے ولید کو چراغ پا کیا تھا۔
”اس طرح روک سکتی ہو مجھے…؟“
اس کا لہجہ تنا ہوا سا تھا۔ ایمان نے مسکرا کر کاندھے اُچکائے۔
”روک چکی ہوں۔ دروازہ لاکڈ ہے اور چابی میرے پاس۔“
اس کے چہرے پر ہی نہیں، آنکھوں میں بھی فاتحانہ چمک تھی۔ ولید کے چہرے پر جھنجلاہٹ بکھر گئی۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھا اور دروازے کے پاس جا کر ناب گھما کر دروازہ کھولنا چاہا تو ایمان کی بات کی تصدیق ہوگئی۔
اس نے طیش کے عالم میں ایک ٹھوکر بند دروازے کو رسید کی تھی، پھر جارحانہ تیوروں کے ساتھ اس کی جانب لپکا تو آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔
”چابی دو گی مجھے…؟“
ایمان اس کے سرد تاثرات سے خائف ہوئی تھی جبھی اکڑ چھوڑ کر فوراً مفاہمت پر اُتر آئی۔
”ولید…! پلیز میری بات مان لیں۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے، جس نے کل آپ کو نشانہ بنایا، وہ آج پھر وہی حرکت کر سکتا ہے۔
پلیز…!“
وہ اتنی ملتجی ہو کر کہہ رہی تھی کہ ولید کو اپنا طیش دبانے کو ہونٹ بھینچنا پڑے۔
”اتنا کمزور عقیدہ کیوں ہے تمہارا ایمان…؟ حد ہوگئی…! تم کیا سمجھتی ہو، اپنے گھٹنے سے لگا کر مجھے محفوظ کر لو گی…؟“
وہ بے حد مشتعل ہو کر کہہ رہا تھا۔ ایمان کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے، جب ولید نے آگے بڑھ کر ایک ہی کوشش میں اس کی بند مٹھی سے چابی نکالی تھی اور دروازہ کھول کر باہر چلا گیا تھا۔
وہ آنسو پیتی مضطرب سی اس کے پیچھے آئی تھی۔
”ذرا ٹھہرو ولید…! یہ فضہ کا بیگ لیتے جانا۔“
آپا نے اسے آندھی طوفان کی طرح سیڑھیاں اُتر کر ڈیوڑھی کی سمت جاتے دیکھا تو زور سے آواز دی۔ وہ رُکا اور کسی قدر جھنجلاہٹ میں مبتلا ہوگیا۔
”افوہ آپا…! ابھی رہنے دیں۔ میں ابھی ہاسپٹل نہیں جا رہا ہوں، آفس جا رہا ہوں۔ محترمہ کی حماقتوں کی وجہ سے آل ریڈی لیٹ ہوگیا ہوں۔
“
”کیا ہوا…؟ ایمان سے پھر تمہاری لڑائی ہوگئی ہے کیا…؟“
آپا جو کچن کے دروازے تک آئی تھیں، آخری سیڑھی پہ کھڑی ایمان کا سرخ چہرہ اور نم آنکھیں دیکھ کر مشکوک ہوئیں۔
”ان کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ تعویذ بنا کر مجھے گلے میں لٹکائے پھرنے کا ارادہ کئے بیٹھی ہیں۔ سمجھائیں انہیں، میں انسان ہوں۔“
وہ بے حد نالاں ہو کر کہتا ہوا بائیک اسٹارٹ کر کے دروازے سے نکل گیا۔
آپا نے پہلے دروازہ بند کیا تھا، پھر واپس آکر سر جھکائے کھڑی، ہونٹ کچلتی ایمان کو بڑھ کر اپنے ساتھ لگا لیا۔
”مجھے بتاؤ ایمی جان…! کیا ہوا ہے…؟ دیکھنا، اگر اس کا قصور ہوا تو واپسی پہ کیسے اس کے کان کھینچتی ہوں۔“
ایمان کی آنکھیں پھر سے چھلکنے کو بے تاب ہوگئیں۔ بہت آہستگی سے اس نے اپنا خدشہ ان کے سامنے رکھ دیا تھا، جسے سن کر وہ بے ساختہ مسکرائی تھیں، پھر اسے لپٹا کر پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔
”وہ صحیح کہتا ہے، بے جا ضد ہے تمہاری…! مرد گھر میں سنبھال کر رکھنے کی چیز نہیں ہے ایمی…! انہیں رزق کی تلاش میں گھروں سے نکلنا ہی پڑتا ہے۔ حفاظت تو اللہ کی ہوتی ہے۔ اللہ کی امان میں دے دو اسے۔“
وہ یوں ہی اسے تھامے ہوئے اپنے ساتھ کچن میں لے آئیں۔
”بیٹھو یہاں، میں تمہارے لئے ناشتہ لے کر آتی ہوں۔“
”مجھے بھوک نہیں ہے۔“
اس نے جھٹ سے کہا تو اب کی بار آپا نے اسے گھورا تھا۔
”خبردار…! آئندہ یہ نہ سنوں میں، اپنی خوراک کا خیال رکھو، دن بدن کمزور ہو رہی ہو۔“
ان کی ڈانٹ میں بھی پیار کا گہرا رنگ تھا۔ وہ خاموشی سے سر جھکا گئی۔
###