Episode 97 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 97 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”سفر آسان لگتا ہے
دلِ برباد تجھ کو یہ
سفر آسان لگتا ہے
ادھر تو سو چتا تھا اور ادھر
آنکھوں سے کوئی خواب چہرہ آن لگتا تھا
دلِ برباد ہم نے تو کہا تھا
یہ سفر آسان لگتا ہے مگر
آکھیں بدن سے چھین لیتا ہے“
اگلی صبح وہ جلدی بیدار ہوگئی تھی۔ چونکہ آپا کو رات ہی اشعر نے ولید کے ایکسیڈنٹ کے متعلق بتا دیا تھا، جبھی وہ سورج نکلنے سے بھی پہلے آن موجود ہوئی تھیں۔
ولید کی خیرخیریت دریافت کی، مطمئن ہوئیں اور کچن میں آگئیں۔
”آپا…! میں ناشتہ بنا لوں گی۔“
ایمان کو انہیں مصروف دیکھ کر انجانی سی خفت ہوئی۔
”ارے…! کچھ نہیں ہوتا چندا…! تم سب کو ناشتہ دو، بس…!“
ان کے لہجے میں مخصوص قسم کی نرمی و محبت تھی۔

(جاری ہے)

ان کے ناشتہ بناتے بناتے ایمان نے تاؤ جی کے ساتھ ساتھ اشعر اور ددا کو بھی ناشتہ پہنچا دیا۔

ان کے کمروں میں اس دوران وہ دو بار ولید کوبھی دیکھنے آئی تھی، جو ہنوز سو رہا تھا، مگر جب تیسری بار وہ اندر آئی، تب وہ نہ صرف اُٹھ چکا تھا، بلکہ منہ ہاتھ دھو کر واش روم سے نکلا تھا۔
”اُٹھ گئے آپ…! ناشتہ لے آؤں…؟“
”تم نے جگایا کیوں نہیں مجھے…؟“
ناشتے کے لئے سر کو اثبات میں جنبش دے کر اس نے بال ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے کہا تھا۔
”میں نے سوچا آپ کی نیند پوری ہو جائے۔“
وہ مسکرا کر کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔ ناشتے کی ٹرے لے کر آئی تو ولید گرے اور وائٹ لائیننگ کی شرٹ اور بلیو جینز میں تیار ہو چکا تھا۔
”کہیں جا رہے ہیں آپ…؟“
ایمان نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔
”کیوں…؟ چھٹی کر کے بیٹھ جاؤں کیا…؟“
وہ جوتے اپنے سامنے رکھ کر موزے پہنتے ہوئے بولا۔
”جی بالکل…! آرام کریں گھر پہ، بس…!“
ایمان نے ٹرے میز پر رکھتے ہوئے دو ٹوک انداز اختیار کیا، مگر ولید نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی تھی۔ اس نے جوتے پہنے اور اُٹھ کر ہاتھ دھونے چلا گیا۔
”میں ایک گھنٹے بعد واپس آؤں گا۔ تم تیار رہنا، ہاسپٹل لے جاؤں گا تمہیں۔ وہاں سب تمہارا پوچھ رہے تھے۔“
وہ بہت عجلت میں ناشتہ کر رہا تھا۔
”آپ کہیں جائیں گے، تب واپس بھی آئیں گے ناں…!“
ایمان کی سنجیدگی بھرے انداز پہ ولید نے ہاتھ روک کر اسے گھور کر دیکھا۔
”کیا فضول بات کر رہی ہو بار بار…؟ کہہ رہا ہوں ناں، معمولی چوٹ ہے۔“
”جو بھی ہو، میں بھی آپ سے کہہ چکی ہوں، آپ نہیں جائیں گے تو بس نہیں جانے دوں گی۔“
اس کے لہجے میں ہٹ دھرمی تھی، اس ہٹ دھرمی نے ولید کو چراغ پا کیا تھا۔
”اس طرح روک سکتی ہو مجھے…؟“
اس کا لہجہ تنا ہوا سا تھا۔ ایمان نے مسکرا کر کاندھے اُچکائے۔
”روک چکی ہوں۔ دروازہ لاکڈ ہے اور چابی میرے پاس۔“
اس کے چہرے پر ہی نہیں، آنکھوں میں بھی فاتحانہ چمک تھی۔ ولید کے چہرے پر جھنجلاہٹ بکھر گئی۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھا اور دروازے کے پاس جا کر ناب گھما کر دروازہ کھولنا چاہا تو ایمان کی بات کی تصدیق ہوگئی۔
اس نے طیش کے عالم میں ایک ٹھوکر بند دروازے کو رسید کی تھی، پھر جارحانہ تیوروں کے ساتھ اس کی جانب لپکا تو آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔
”چابی دو گی مجھے…؟“
ایمان اس کے سرد تاثرات سے خائف ہوئی تھی جبھی اکڑ چھوڑ کر فوراً مفاہمت پر اُتر آئی۔
”ولید…! پلیز میری بات مان لیں۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے، جس نے کل آپ کو نشانہ بنایا، وہ آج پھر وہی حرکت کر سکتا ہے۔
پلیز…!“
وہ اتنی ملتجی ہو کر کہہ رہی تھی کہ ولید کو اپنا طیش دبانے کو ہونٹ بھینچنا پڑے۔
”اتنا کمزور عقیدہ کیوں ہے تمہارا ایمان…؟ حد ہوگئی…! تم کیا سمجھتی ہو، اپنے گھٹنے سے لگا کر مجھے محفوظ کر لو گی…؟“
وہ بے حد مشتعل ہو کر کہہ رہا تھا۔ ایمان کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے، جب ولید نے آگے بڑھ کر ایک ہی کوشش میں اس کی بند مٹھی سے چابی نکالی تھی اور دروازہ کھول کر باہر چلا گیا تھا۔
وہ آنسو پیتی مضطرب سی اس کے پیچھے آئی تھی۔
”ذرا ٹھہرو ولید…! یہ فضہ کا بیگ لیتے جانا۔“
آپا نے اسے آندھی طوفان کی طرح سیڑھیاں اُتر کر ڈیوڑھی کی سمت جاتے دیکھا تو زور سے آواز دی۔ وہ رُکا اور کسی قدر جھنجلاہٹ میں مبتلا ہوگیا۔
”افوہ آپا…! ابھی رہنے دیں۔ میں ابھی ہاسپٹل نہیں جا رہا ہوں، آفس جا رہا ہوں۔ محترمہ کی حماقتوں کی وجہ سے آل ریڈی لیٹ ہوگیا ہوں۔
”کیا ہوا…؟ ایمان سے پھر تمہاری لڑائی ہوگئی ہے کیا…؟“
آپا جو کچن کے دروازے تک آئی تھیں، آخری سیڑھی پہ کھڑی ایمان کا سرخ چہرہ اور نم آنکھیں دیکھ کر مشکوک ہوئیں۔
”ان کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ تعویذ بنا کر مجھے گلے میں لٹکائے پھرنے کا ارادہ کئے بیٹھی ہیں۔ سمجھائیں انہیں، میں انسان ہوں۔“
وہ بے حد نالاں ہو کر کہتا ہوا بائیک اسٹارٹ کر کے دروازے سے نکل گیا۔
آپا نے پہلے دروازہ بند کیا تھا، پھر واپس آکر سر جھکائے کھڑی، ہونٹ کچلتی ایمان کو بڑھ کر اپنے ساتھ لگا لیا۔
”مجھے بتاؤ ایمی جان…! کیا ہوا ہے…؟ دیکھنا، اگر اس کا قصور ہوا تو واپسی پہ کیسے اس کے کان کھینچتی ہوں۔“
ایمان کی آنکھیں پھر سے چھلکنے کو بے تاب ہوگئیں۔ بہت آہستگی سے اس نے اپنا خدشہ ان کے سامنے رکھ دیا تھا، جسے سن کر وہ بے ساختہ مسکرائی تھیں، پھر اسے لپٹا کر پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔
”وہ صحیح کہتا ہے، بے جا ضد ہے تمہاری…! مرد گھر میں سنبھال کر رکھنے کی چیز نہیں ہے ایمی…! انہیں رزق کی تلاش میں گھروں سے نکلنا ہی پڑتا ہے۔ حفاظت تو اللہ کی ہوتی ہے۔ اللہ کی امان میں دے دو اسے۔“
وہ یوں ہی اسے تھامے ہوئے اپنے ساتھ کچن میں لے آئیں۔
”بیٹھو یہاں، میں تمہارے لئے ناشتہ لے کر آتی ہوں۔“
”مجھے بھوک نہیں ہے۔“
اس نے جھٹ سے کہا تو اب کی بار آپا نے اسے گھورا تھا۔
”خبردار…! آئندہ یہ نہ سنوں میں، اپنی خوراک کا خیال رکھو، دن بدن کمزور ہو رہی ہو۔“
ان کی ڈانٹ میں بھی پیار کا گہرا رنگ تھا۔ وہ خاموشی سے سر جھکا گئی۔
                                  ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط