”تتلیوں کی بے چینی آ بسی ہے پاؤں میں
ایک پل کو چھاؤں میں اور پھر ہواؤں میں
صرف اس تکبر میں اس نے مجھ کو جیتا تھا
ذکر نہ ہو اس کا بھی کل کو نارساؤں میں“
پچھلے دو دن سے ولید نے اس سے بول چال بند کر رکھی تھی۔ وہ منامنا ہار گئی تھی، مگر اس کا موڈ خوش گوار نہیں ہوا تو بے بسی کے شدید احساس سمیت رونے بیٹھ گئی۔ صرف یہی نہیں، کھانا بھی احتجاجاً چھوڑ دیا، تب وہ تلملاتا ہوا اس کے پاس آیا تھا۔
”کھانا کیوں نہیں کھا رہی ہو تم…؟“
اس کا انداز بے حد کڑا تھا۔ ایمان نے ایک نگاہ اس کے بے زار کن انداز پہ ڈالی، پھر اسے زِچ کرنے کو کاندھے اُچکا دیئے۔
”میری مرضی…!“
”تمہاری مرضی کی ایسی کی تیسی…!“
وہ بھڑک کر بولا تو ایمان نے ہونٹ بھینچ کر اسے دیکھا تھا۔
(جاری ہے)
”جب تک آپ خفا رہیں گے، میں کھانا نہیں کھاؤں گی۔
“
”اتنی پرواہ تو نہیں ہے تمہیں میری خفگی کی…؟“
وہ پھنکار کر بولا تو ایمان نے دونوں ہاتھوں میں اس کی کلائی جکڑ لی۔
”آپ کو یقین کیوں نہیں آ جاتا کہ میں…“
”تم کیوں آخر یہ چاہتی ہو کہ میں تمہارے دامِ فریب سے نہ نکلوں…؟“
”ولید…!“
اس کا چہرہ دُھواں دُھواں ہوگیا تھا۔ ولید نے ہاتھ اُٹھا کر اسے ٹوک دیا، پھر کھانے کی ٹرے درمیان میں رکھی اور خود نوالہ بنا کر اس کے منہ کے نزدیک لایا۔
اب ایمان میں تاب نہیں تھی کہ اس کا ہاتھ جھٹک دیتی۔
”میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں ولید…! ٹرسٹ می…!“
وہ لجاجت سے بولی۔ ولید نے بادل ناخواستہ سر اثبات میں ہلا دیا۔
”مجھے پتا ہے، آپ میری بات کا یقین نہیں کر رہے ہیں۔“
اس کا دل رونے کو چاہنے لگا۔
”کبھی کبھار میرا بھی جی چاہتا ہے ایمان…! کہ تمہارا یقین کر لوں، مگر خود کو دھوکہ تو احمق دیتے ہیں ناں…؟ تم نے کبھی بلور کے اس گلاس کو سلامت بچتے دیکھا ہے جسے بے دردی سے دیوار پہ مار دیا گیا ہو…؟ نہیں ناں…! میں نے خود کو اسی طرح ٹوٹتے پایا تھا، تب میرے دل کی حالت تو اس سے بھی زیادہ تباہ کن تھی۔
تم کیوں چاہتی ہو کہ میں ایک ہی جگہ سے دوسری مرتبہ دھوکہ کھانے کا سامان کروں…؟ مجھ میں تاب نہیں ہے۔“
ایمان شاکڈ اسے دیکھتی رہ گئی۔ جبکہ وہ اُٹھ کر وہاں سے جا چکا تھا۔ ایمان کو قطعی سمجھ نہیں آسکی تھی۔ اپنے اتنے بڑے نقصان پر کیا ردِعمل ظاہر کرے…؟ روئے…؟ بین کرے…؟ یا پھر کچھ کھا کر سو رہے…؟
###
تھکا گیا ہے مسلسل سفر اُداسی کا
اور ابھی بھی ہے میرے شانے پہ سر اُداسی کا
وہ کون کیمیا گر تھا جو بکھیر گیا
تیرے گلاب سے چہرے پہ زد اُداسی کا
میرے وجود کے خلوت کے مے میں کوئی نہ تھا
جو رکھ گیا ہے دیا طاق پر اُداسی کا
میں تجھ سے کیسے کہوں یار مہرباں میرے
کہ تو علاج نہیں میری ہر اُداسی کا
یہ جو آگ کا دریا میرے وجود میں ہے
یہی تو پہلے پہل تھا شرر اُداسی کا
نہ جانے آج کہاں کھو گیا ستارئہ شام
وہ میرا دوست میرا ہم سفر اُداسی کا“
ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے اندر سے جیسے جینے کی تمنا مٹتی جا رہی تھی۔
تائی ماں، فضہ، اشعر، عاقب بھائی، تاؤ جی کے علاوہ ولید بھی اس کا خیال رکھتا تھا، مگر وہ گیلی لکڑی کی طرح سے سلگ سلگ کر ختم ہو رہی تھی۔ فضہ، فاطمہ کے ساتھ پورا گھر بھی سنبھالتی تھی۔
ڈاکٹر نے ایمان کو بہت پرہیز بتایا تھا۔ وہ مکمل بیڈ ریسٹ پہ تھی اور تائی ماں تو اسے بستر سے پیر بھی باہر نہیں نکالنے دے رہی تھیں۔ دن ایسے ہی سست روی سے گزر رہے تھے، جب بہت خاموشی سے، غیر محسوس انداز میں ایک اور طوفان چلا آیا اور گویا تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔
وہ ایک عام سا دن تھا۔ ولید کو اسے لے کر اسی دن شہر چیک اَپ کے لئے بھی جانا تھا۔ وہ موسیٰ کادوانی کو بھول بھال بیٹھی تھی، جب اس کے ایک مسیج نے پھر اس کی زندگی میں ہلچل مچا دی۔ فضہ کے اصرار پر وہ فاطمہ سے کھیلتے ہوئے جوس کے سِپ لے رہی تھی، جب اس کے سیل فون پہ مسیج ٹون بجی، اس نے سرسری سے انداز میں میسج کھولا تھا۔
”اس دن تو بچ گئے تھے ناں آپ کے شوہر محترم، مگر مزید نہیں بچ سکتے۔
پلاننگ تو اس روز بھی مکمل تھی، مگر یقینا ان کی کچھ سانسیں باقی تھیں۔ بس یہی سمجھ میں آتا ہے مجھے تو۔
اینی وے…! میں آؤٹ آف کنٹری تھا، جبھی آپ کو یہ مہلت بھی مل گئی۔ مگر اب میری طرف سے اپنے شوہرِ نامدار کی لاش کا تحفہ قبول کرنے کے لئے تیار رہئے گا۔“
موسیٰ کادوانی…!“
مسیج پورا پڑھنے تک ایمان کی آنکھوں میں اندھیرے چھانے لگے تھے۔
فاطمہ کے ساتھ ساتھ موبائل پہ بھی اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ اسے اپنا پورا وجود برف کی سِل میں ڈھلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ خوف و دہشت کا ایسا غلبہ ہوا تھا اس پر کہ وہ اس نمبر پر کال کر کے اسے کچھ کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہی۔ بے بسی کے مظہر آنسو گالوں پر بہت سرعت سے اُتر آئے تھے۔
کچھ دیر بعد اس نے ہمت کر کے سیل فون اُٹھایا اور اس کا نمبر ڈائل کر کے اس سے بات کرنا چاہی تھی، مگر اسی وقت اس کے موبائل کی اسکرین روشن ہونے لگی۔
وہ اتنی غائب دماغ تھی کہ نہ تو ولید کا نام دیکھ پائی، نہ اس بات پہ دھیان دیا کہ یہ رنگ ٹون اس نے ولید کے نمبر پہ سیٹ کر رکھی ہے۔ اس وقت اس کے ذہن میں صرف موسیٰ کادوانی کا خوف، اس کی دھمکی کی دہشت کا غلبہ تھا، جبھی کال ریسیو کرتے ہی بے ساختہ گڑگڑاتے ہوئے بولی تھی۔
”میری بات سنو موسیٰ…! میری بات سنو پلیز…! دیکھو…! تم جو کہو گے، میں کرنے کو تیار ہوں۔
چاہے وہ ولید سے طلاق کا مطالبہ ہو یا کچھ بھی، مگر خدا کا واسطہ ہے، تم ایسا مت کرنا، تم میری بات سن رہے ہو ناں موسیٰ…؟“
دوسری جانب کی گمبھیر چپ کو محسوس کر کے وہ وحشت بھرے انداز میں چلاّئی تھی۔
”اگر موسیٰ ہوتا تو ضرور مان جاتا۔“
ولید حسن کی سرد پھنکار زدہ آواز پہ وہ ایک دم ٹھٹکی۔ سیل فون کان سے ہٹا کر اسکرین کو دیکھا اور جیسے فضا میں معلق ہوگئی۔
اسے ایک دم اپنا پورا وجود کسی طاقتور بارود سے اُڑتا ہوا محسوس ہوا۔
”کون ہے یہ موسیٰ…؟“
ولید حسن کے لہجے کی غراہٹ نے اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا کر ڈالے تھے۔ سیل فون اس کے لرزتے ہاتھ سے چھوٹ کر بستر پر جا گرا تھا۔ اسے لگا تھا، اس کا دل اندر ہی اندر گہرے پاتالوں میں گرتا جا رہا ہو۔
###