”دسمبر کے دنوں میں تم نے مجھ سے یہ کہا تھا ناں
کہ تنہا ہوں مگر پھربھی تمہارا ساتھ میں دوں گا
اپنے ہاتھ آنکھوں پر میری رکھ کر کہا تھا ناں
بھری دُنیا سے ٹکرا کے تمہارا ساتھ میں دوں گا
نہ بدلوں گا کبھی میں جیسے یہ موسم بدلتے ہیں
بدلتے موسموں میں بھی تمہارا ساتھ میں دوں گا
تمہاری ان ہی باتوں سے بہت مجبور ہو کر میں
سب کے سامنے تم سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ
تمہارے عہدو پیماں سے تو یہ موسم ہی اچھے ہیں
تم عہد کر کے نہیں لوٹے یہ موسم لوٹ آئے ہیں
دسمبر میں کہا تھا ناں کہ واپس لوٹ آؤں گا
ابھی تک تم نہیں لوٹے دسمبر لوٹ آیا ہے“
اس نے سلائیڈ کھولی اور گلاس وال کے پار دُور تک پھیلے سرسبز لان میں کھیلتے دونوں بچوں کو دیکھا۔
(جاری ہے)
سرخ، خوب صورت فراک میں ملبوس چھ سالہ فاطمہ اور سوا پانچ سالہ خوب صورت گل گوتھنا سا اُمید حسن جو ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے کلر فٹ بال سے کھیل رہے تھے۔
معاً ایک سفید پروں والی تتلی کہیں سے اُڑتی ہوئی آکر گلاب کے ادھ کھلے پھولوں پہ بیٹھ گئی۔ سرخ دہکتے ہوئے گلاب پر سفید تتلی بہت نمایاں تھی، جبھی بچوں کی نگاہ کی زد میں آنے سے بچ نہیں سکی۔
دونوں بال چھوڑ کر تتلی کے تعاقب میں بھاگے۔ اُمید حسن کو ٹھوکر لگی تھی، اگلے ہی پل وہ منہ کے بل گرا ہوا حلق پھاڑ رہا تھا۔ ایمان کے ہاتھ سے پردہ چھوٹ گیا، مگر اس سے قبل اشعر اس تک پہنچ گیا تھا۔
”چپ چپ…! روتے نہیں ہیں، مائی سن…! بی بر یو…!“
اشعر اُسے بہلا رہا تھا۔ ایمان مطمئن ہو کر وہیں لان کی سیڑھیوں سے پلٹ آئی۔ چوبی دروازے سے اندر جاتے وقت اس نے گردن موڑ کر دیکھا۔
اشعر اُمید حسن کو اُٹھائے فاطمہ کی اُنگلی پکڑے گیٹ کی طرف جا رہا تھا۔ یقینا ارادہ چاکلیٹ دلانے کا تھا۔
سب کچھ بدل گیا تھا ان چھ سالوں میں۔ پاپا نے جائیداد سے ان دونوں کا حصہ انہیں دے دیا تھا اور خود حج کرنے چلے گئے تھے۔ ماما بھی ان کے ساتھ تھیں۔ واپس آکر انہوں نے جب اپنے گھر میں رہنا چاہا تو عاقب نے منع کر دیا تھا اور انہیں اپنے ہاں لے آیا۔
وہی گاؤں کا گھر جہاں دو منزلہ بہت خوب صورت عمارت کھڑی تھی۔
فضہ نے گاؤں میں رہنے کو ترجیح دی تھی تو ایمان اکیلی کہاں جاتی…؟ جبھی اس نے بھی اپنا پیسہ اسی مکان کی آرائش و زیبائش میں لگا دیا۔ ایک سال کے اندر بہترین اندازِ زندگی ان کو میسر آگیا تھا۔ وہی جس کی کبھی وہ عادی تھیں مگر پھر انہوں نے حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیا تھا تو قدرت نے انہیں پھر سے نواز دیا کہ بے شک دینے والی ذات تو اسی کی ہے۔
فضہ کے ہاں فاطمہ کے بعد ایک بیٹا ہوا تھا جو ابھی صرف چھ ماہ کا تھا اور اس کا نام عالیان تجویز ہوا تھا۔ تاؤ جی اور تائی ماں بھی حج کی سعادت حاصل کر چکے تھے۔ ددا کا پچھلے سال انتقال ہوگیا تھا۔ آخر دم تک انہیں ولید سے ملنے کی آس رہی تھی۔
سب کچھ دھیرے دھیرے معمول پہ آگیا تھا۔ عاقب کی طرح اشعر کو بھی اچھی جاب مل گئی تھی۔ پچھلے دنوں خالصتاً تائی ماں کی پسند کی گئی لڑکی سے اس کی منگنی بھی کر دی گئی تھی۔
پاپا، تاؤ جی کے ساتھ سارا دن باغات اور کھیتوں میں گزارتے جبکہ ماما کا زیادہ وقت تائی ماں کی طرح عبادت میں گزرنے لگا تھا۔ دونوں کا دُکھ بھی تو مشترکہ تھا۔
پچھلے سال ہارون کادوانی بھی موسیٰ کے ساتھ تشریف لائے تھے اور ایمان، موسیٰ کو دیکھ کر گنگ ہونے لگی تھی۔ ٹریفک حادثے میں وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔
”مجھے معاف کر دیں ایمان…! میں جان گیا ہوں، مجھے آپ سے کی گئی زیادتی کی ربّ کی طرف سے سزا ملی ہے۔
“
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر سسک اُٹھا تھا۔ اس کی آنکھ سے بہتے آنسو ایمان کے دل کو گداز کر گئے تھے اور وہ جو اُسے کبھی معاف نہ کرنے کا تہیہ کئے ہوئی تھی، ہر کوتاہی معاف کر گئی۔ گو کہ اس کی معافی سے ایمان کی زندگی میں در آنے والے نقصانات اور ویرانیوں کو دُور کرنے سے قاصر تھے، مگر احساسِ ندامت انسان کی سچائی کی علامت ہوا کرتی ہے۔
ندامت انہیں ہی ہوتی ہے جن کے ضمیر زندہ ہوتے ہیں، جو ازالے کی کوشش کفارے کی سعی شروع کرا دیتی ہے۔ ندامت جو گناہوں کو دھو ڈالتی ہے۔ جہنم کا ایندھن بننے سے بچا کر جنت کے باغوں میں لا ڈالتی ہے۔ یہ سزاُ سے پہلے دل میں جاگ اُٹھے تو سزا جزا بن جاتی ہے۔ اُسے دیر ہوئی تھی، مگر اتنی دیر تو نہ ہوئی تھی۔
ندامت آنسوؤں کا خراج لیتی ہے اور بخشش کا سامان مہیا کرتی ہے۔
دُنیا میں عزائیل کے بعد آنے والے ہر ظالم، شداد، نمرود و ابوجہل نادم نہ ہونے کی وجہ سے ہی ذلیل و خوار ہوئے۔ ندامت آدم کے سر پہ بخشش کا تاج پہنا دیتی ہے۔ ندامت عمر بن خطاب کو فاروق اعظم بنا کر امیر المومنین بنا دیتی ہے۔ ندامت اگر حکمرانوں کو میسر آجائے تو انہیں فاروق ثانی بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ پھر اگر اس کے سامنے کوئی ندامت کا احساس لے کر معافی کا طلب گار بن کر آیا تھا تو وہ اسے معاف نہ کر کے گنہگار کیسے ہو جاتی…؟
###