”مسلسل روکتی ہوں اس کو شہرِ دل میں آنے سے
مگر وہ کوہ کن رُکتا نہیں دیوار ڈھانے سے
بھلا کیا دُکھ کے آنگن میں سلگتی لڑکیاں جاتیں
کہاں چھپتے ہیں آنسو آنچلوں میں منہ چھپانے سے
تجھے تنہا محبت کا یہ دریا پار کرنا ہے
ندامت ہوگی اس کے حوصلوں کو آزمانے سے
ابھی تو عشق میں آنکھیں بجھی ہیں دل سلامت ہے
زمین بانجھ ہوتی ہے کبھی فصلیں جلانے سے
تجھے بھی ضبطِ غم کے شوق نے پتھر بنا ڈالا
تجھے اے دل بہت روکا تھا رسم و راہ نبھانے سے“
وہ بیڈ پر لیٹی تھی، پہلو سے ذرا سہما اُمید حسن چمٹا ہوا تھا۔
چھوٹے سے کمرے میں اس وقت تقریباً گھر کے سبھی افراد سمائے ہوئے تھے۔ پریشانی ختم ہوگئی تھی۔ اب سب ہی تقریباً ایک دوسرے سے محوِ گفتگو تھے۔
(جاری ہے)
مگر اس کا دل و دماغ جیسے غیر حاضر سا تھا۔
ولید حسن کا بدلا بدلا سا یہ روپ، چہرے کی پریشانی، آنکھوں کی ندامت اس کا وہم نہیں تھی۔عاقب سے اس کا اُلجھنا، پھر اس کی سمت بڑھ کر اپنا استحقاق جتانا بہت معانی رکھتا تھا۔
اس کی کمر کے گرد جیسے اس کا لمس ابھی تک اپنا احساس بخش رہا تھا۔ وہ جیسے بیٹھے بیٹھے گم ہونے لگی۔
”کیوں کر رہے ہیں وہ ایسا…؟ کیا کوئی نیا زخم لگانے کے لئے…؟“
اس کا دل نئے سرے سے بھرانے لگا۔ اسما کسی بات پر زور سے ہنسی تھی، وہ جیسے چونک کر متوجہ ہوئی اور خالی خالی نظروں سے سب کو تکنے لگی۔
”چلو بھئی…! اُٹھو سب، بچی کو آرام کرنے دو، دوا لی ہے اس نے۔
“
تائی ماں نے اُٹھ کر سب کو ایک ساتھ مخاطب کیا تو پاپا نے بھی ان کی تائید کی۔ پاپا اور تاؤ جی نے ایمان کا سر تھپکا اور اپنا خیال رکھنے کی تاکید کے ساتھ باہر نکل گئے۔ ماما کی نماز بھی قضا ہو چکی تھی۔ وہ بھی چلی گئیں۔ البتہ تائی ماں نے پہلے فضہ کو تاکید کی تھی کہ یاد سے ایمان کو دودھ کا گلاس دے دے، پھر ان سب کو ایک بار پھر وہاں سے جانے کا کہتیں خود بھی کمرے سے نکل گئیں تو ایمان نے اپنی پشت پہ لگے تکیے کو ہٹایا اور نیم دراز ہوگئی۔
اُمید کو نرمی و محبت سے سرکا کر خود سے کچھ اور نزدیک کر لیا۔
”ایمی…! دودھ میں اوولٹین ڈال کر لاؤں یا مائلو…؟ بتا دو…!“
فضہ کے استفار پر اس سے پہلے اشعر نے شریر سے انداز میں لقمہ دیا ۔
”نہ اوولٹین نہ مائلو، انہیں دیسی گھی ڈال کر گرم دودھ پلا دیں۔“
ایمان کا فوری منہ بن گیا۔ فضہ ہنسنے لگی۔
”بے فکر رہو…! میں دودھ میں گھی نہیں ڈالوں گی۔
“
اس کی تسلی پر ایمان قدرے مطمئن ہوئی، مگر یہ اطمینان عارضی ثابت ہوا کہ اسی پل دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والے ولید حسن کو دیکھ کر اس کے چہرے پر تاریک سا سایہ لرز اُٹھا تھا۔ دھڑکنوں میں غیر معمولی ہلچل مچی اُٹھی۔
”آہا…! آئیے جناب…! کہئے…! کیسے تشریف لائے…؟“
اشعراُسے دیکھتے ہی چہک اُٹھا۔ ولید حسن جو ایمان کی سمت متوجہ تھا، بھنوؤں کو اُچکا کر دوستانہ انداز میں مسکرایا۔
ایمان نے فی الفور نگاہ پھیر لی۔ کسی انجان سی بے چینی کا اضطراب رگ و پے میں بکھرنے لگا۔
”اسی سلسلے میں جس سلسلے میں آپ تشریف فرما ہیں۔“
”مگر ہم تو ان کے اپنے ہیں۔“
اشعرنے معنی خیز مسکراہٹ سمیت اپنے تئیں اُسے لاجواب کرنا چاہا، مگر وہ ہارنے والوں میں سے نہیں تھا، ترقی بہ ترقی بولا۔
”اور ہم آپ سے بھی زیادہ ا پنے ہیں، نہیں یقین تو پوچھو ان سے…؟“
اس نے گھمبیر، ذومعنی جواب دیتے ہوئے باقاعدہ ایمان کی سمت اشارہ کیا جو حق دق بیٹھی تھی۔
وہ اشعر کے شوخ قہقہے اور ولید کی نگاہوں کی حرارت پر ایک دم نروس ہوگئی۔
”جی میم…! اب آپ ہی فیصلہ کیجئے…!“
اس نے ولید حسن کے براہِ راست مخاطب کر لینے پر سٹپٹا کر نظریں جھکائیں۔
”یہ کیا مذاق ہے اشعر…؟“
اس نے کسی قدر ناراضگی سے اشعر کو مخاطب کیا جو سر کھجا رہا تھا۔
”اور کہیں چوٹ تو نہیں لگی…؟ میں آپ کے سر کا زخم دیکھ سکتا ہوں…؟“
ولید حسن کرسی بیڈ کے نزدیک کھینچ کر بیٹھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا تو اس سے پہلے کہ ا یمان کوئی جواب دیتی، اشعر گلا کھنکار کر بولا تھا۔
”میرا خیال ہے، اب ہمیں چلنا چاہئے۔“
لہجے و انداز سے شوخ قسم کی شرارت کے ساتھ بے پایاں اطمینان ٹپک رہا تھا۔ کچھ ایسی ہی حالت اور کیفیت عاقب، فضہ اور اسما کی بھی تھی۔ ایمان اس دھاندلی پر بے طرح گھبرائی۔
”ہرگز نہیں…! آپ لوگ کہیں نہیں جاؤ گے، بلکہ ان سے کہیں، تشریف لے جائیں، مجھے ان سے کوئی بات نہیں کرنی ہے۔“
بنا کسی مروّت و لحاظ کے اس نے کسی قدر کڑوے انداز میں کہا تو ولید حسن اُٹھ کھڑا ہوا، آگے بڑھا، دروازہ کھولا اور ان سب کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔
”انہیں میں بخوشی سنبھال لوں گا، بہت بہت شکریہ…!“
”خیال سے، دھیان سے، پیار سے…!“
اشعر نے ہانک لگائی اور دانت نکالتے ہوئے بھاگ گیا۔ ان کے جانے کے بعد ولید حسن اس کی جانب دروازہ بند کر کے پلٹا تو اُسے ہراساں و متوحش دیکھ کر دل آویزی سے مسکرایا۔
”ایسے کیوں دیکھ رہی ہو مجھے…؟ کیا بہت خوف ناک لگ رہا ہوں…؟“
”آپ یہاں سے فی الفور چلے جائیں ورنہ میں تاؤ جی کو بلا لوں گی۔
“
ایمان نے تنک کر کہا تو ولید نے کاندھے اُچکا دیئے۔
”ہاں تو بلا لو…! میں ڈرتا تھوڑی ہوں ان سے…؟“
”آپ اس طرح آخر گھسے کیوں ہیں میرے کمرے میں…؟ مقصد کیا ہے آپ کا…؟“
وہ چٹخ کر بولی تو جواباً ولید حسن کی آنکھیں شرارت سے لو دینے لگیں۔
”جب کوئی جوان لڑکا اس طرح رات کے وقت کسی جوان، خوب صورت لڑکی کے کمرے میں زبردستی گھس آئے تو اس کے ارادے بہت خطرناک ہوا کرتے ہیں، یو نو…!“
وہ بھاری گھمبیر لہجے میں کہتا آہستہ آہستہ چلتا اس کے بالکل نزدیک آگیا۔
ایمان کی دھڑکنوں میں سرکش سے بھنور اُٹھنے لگے۔ وہ کسی قدر برہمی سے چیخ پڑی تھی۔
”مجھے آپ کا یہ مذاق بالکل پسند نہیں آیا، سمجھے آپ…؟“
”اوکے…! نیور مائنڈ…! سنجیدہ ہو جاتا ہوں۔“
اس نے اپنے لہکتے لہجے پر تو قابو پا لیا، مگر نگاہوں کا بہکا پن ہنوز تھا۔ ایمان نے ہونٹ بھینچ لئے۔ ولید نے گہرا سانس کھینچا اور خود کو کمپوز کر کے بولا تو واقعی سنجیدہ ہو چکا تھا۔
”چوٹ کیسے لگی تھی تمہیں…؟“
”گر گئی تھی، پتا چل تو گیا ہے آپ کو…؟“
وہ جھنجلا گئی۔
”خود گری تھی ناں…؟“