Episode 3 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 3 - صلہ - ایمن علی

سیٹس پر عجب افراتفری کا عالم تھا۔ آج اس پروجیکٹ کے ختم ہونے کا Second last دن تھا۔ آخری منظر ناموں کی تیاری چل رہی تھی۔ اعفان باری جو کہ مرکزی کردار ادا کر رہے تھے اپنا کام ختم کرو ا کر کب کے جا چکے تھے۔ اس کے مقابل کردار بالاج علی شاہ میک اپ روم میں بیٹھا آج کا سکرپٹ پڑھ رہا تھا۔ بالآخر شوٹنگ شروع ہوئی۔
”یار کیا بکواس ہے۔“ بالاج اپنی لائنز بولتے بولتے سپاٹ بوائے پر چیخا تھا۔
اس کا اشارہ سامنے والی لائٹس پر تھا۔ جو غالباً اس کی آنکھوں میں پڑ رہی تھی۔ سپاٹ بوائے کا رنگ اڑ گیا اس کے غصے سے سبھی ڈرتے تھے۔ وہ سامنے والے کو طیش میں تھپڑ تک مار دینے کا عادی تھا۔ یہ چوتھی دفعہ وہ لائنز بھولا تھا۔ ایسا کبھی عموماً ہوتا نہیں تھا کہ وہ اپنی لائنز بھولے۔ وہ پہلے بھی نسیم بادنی کے ساتھ کام کر چکا تھا۔

(جاری ہے)

”لگتا ہے بیوی سے لڑ کر آیا ہے۔
“ صلہ نے عادتاً خود کلامی کی جو اکثر خودکلامی کم سرگوشی زیادہ ہوتی تھی۔ وہ کیمرہ مین مسعود کے بائیں جانب کھڑی تھی۔
”بیوی تو نہیں ہے، ان کے البتہ بچے ضرور ہیں۔“ مسعود اس کی سرگوشی سے محظوظ ہوتا بولا۔
”کیا مطلب۔“ وہ حیران ہوئی۔“ مطلب تو پتا نہیں۔ بس اڑتی اڑتی خبر سنی ہے کہ موصوف کے دو عدد بچے ہیں۔ بڑی بیٹی سات سال کی اور بیٹا 4 سال کا۔
”کیا پتہ غلط خبر ہو۔ یا پھر بیوی بھاگ گئی ہو۔“ صلہ نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا۔ سپاٹ بوائے پر چلانے کے بعد وہ اپنی سیٹ پر جا بیٹھا اور سکرپٹ تھام لیا۔ اس کے چہرے سے بے چینی و پریشانی واضح تھی۔
”جی مسٹر شاہ شروع کریں۔“ صلہ نے صبر آزما انتظار کے بعد بالآخر کہا تو سرد سی نگاہ اس پر ڈال کر وہ دوبارہ سکرپٹ پر دیکھنے لگا۔ صلہ کو غصہ تو بہت آیا مگر وہ اعفان باری تو تھا نہیں جسے وہ دوبدو جواب دیتی تھی۔
یہ اتفاق تھا یا قسمت کہ ان دو سالوں میں وہ نسیم بادنی کے ہر پروجیکٹ میں تقریباً شامل ہوتا تھا۔ اور کام کے سلسلے میں ہوئی گفتگو بھی اس کے لیے کم از کم خوشگوار نہیں رہی تھی۔ صلہ کے لیے اس سے محض بات کرنے کا ہی تجربہ بڑا ناخوشگوار رہا تھا۔ وہ حتی المقدور بالاج علی شاہ سے احتراز برتتی تھی۔
مگر آج نسیم بادنی کو ایمرجنسی میں جانا پڑ گیا تھا۔
وہ باقی ماندہ کام صلہ پر چھوڑ کر گئے تھے۔ دونوں تجربہ کار اداکاروں کے سین فلمبند کرنے رہ گئے تھے اس میں زیادہ وقت بھی نہیں لگنا تھا مگر ہائے قسمت آج بالاج علی شاہ کا موڈ سخت خراب تھا۔ چند لمحے بعد وہ قدرے کمپوزڈ ہو کر آیا اور چھٹے ٹیک میں بالآخر اُن کا سین ہو گیا۔ صلہ نے سکھ کا سانس لیا۔
کام سمیٹتے پیک اپ کرواتے کرواتے آٹھ بج گئے۔
اس نے سوچا تھا آج نسیم بادنی کے ساتھ چلی جائے گی۔ مگر ابا اور نسیم انکل کے کامن دوست آذر کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ وہ دونوں ہسپتال گئے تھے۔
میک اپ روم میں سامان چیک کرتے اس کی کوفت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اپنا بیگ اور فائل چیک کرتے وہ سخت جھنجھلا گئی۔
”ناٹ اگین۔“ آج بیگ سے موبائل اور والٹ دونوں غائب تھے۔ کام کے دوران اُسے اپنے سامان کی کوئی ہوش نہیں ہوتی تھی۔
وہ وہیں سر تھام کر بیٹھ گئی۔ چند لمحے خالی اندہنی کی سی کیفیت میں گزر گئے۔ اسے تو کسی کا نمبر بھی یاد نہیں تھا۔ ابا بھی ہاسپیٹل تھے گھر فون کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ ہما کا نمبر بھی ذہن میں نہ آیا۔ وہ الجھ گئی۔
…#…
تبھی اسے کامن روم میں بالاج علی شاہ کے ہونے کا احساس ہوا۔ وہ ابھی تک بے تاثر چہرے لیے فائل لیے بیٹھا تھا۔
صاف پتا چلتا تھا کہ وہ فائل پرمتوجہ نہیں تھا۔ سٹوڈیو خالی ہو چکا تھا۔ وہ وہیں بیٹھا تھا۔
”ایکسکیوزمی مسٹر شاہ۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے اسے مخاطب کیا تو وہ چونک سا گیا۔ اس کی نگاہوں میں اجنبیت تھی گویا روم میں اس کی موجودگی سے بے خبر تھا۔
”آپ کے پاس نسیم انکل کا فون نمبر ہو گا؟“ وہ چند لمحے جیسا پہچاننے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر قدرے بیزاری سے جان چھڑوانے والے انداز میں اپنا سمارٹ فون اس کی طرف بڑھا دیا۔
اس نے جلدی سے نمبر ڈھونڈ کر ملایا۔ اس نے واپس اپنی منقطع سوچوں کا سلسلہ وہیں سے جوڑ لیا۔ صلہ کان سے فون لگائے قدرے فاصلے پر آ گئی کہ کہیں ہوش میں آ کر وہ سیل فون واپس ہی نہ چھین لیے۔ بالاج علی شاہ سے کوئی بعید بھی نہ تھی۔ ”ہیلو انکل۔ میں صلہ۔“ انکل وہ میرا والٹ اور موبائل چوری ہو گیا ہے۔ سب چلے گئے ہیں میں کیا کرو۔“ اس نے جلدی جلدی مدعا بیان کیا۔
”صلہ کب سدھرو گی تم پہلے بھی دو دفعہ ہاتھ ہو چکا ہے تمہارے ساتھ مجال ہے جو تم ذرا اپنے سامان کا خیال کر لو۔“ انہوں نے ڈانٹا۔
”اچھا اب ہو گیا نہ۔ اب کیا ہو سکتا ہے۔ آپ مجھے لینے آ جائیں۔“
”بچے۔ تمہیں پتا تو ہے آذر کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ہم دونوں کے علاوہ کوئی نہیں اسکا۔ جو دو عدد بیٹے ہیں دونوں ملک سے باہر ہیں۔ میں کہاں آ سکتا ہوں تمہارے ابا بھی ابھی تک آفس سے نہیں نکل پائے۔
“ وہ روکے۔ ”اچھا یہ تم نے شاہو کے نمبر سے کال کی ہے۔ وہ اُدھر ہی ہے؟“ انہوں نے اس کا لقب العام لیا۔ ”جی سر۔“
”اسی کے ساتھ آ جاؤ نا۔ بلکہ تم فون دو اسے میں اسے ایڈریس سمجھاتا ہوں۔“ ”کیا۔“ وہ دبی دبی آواز میں چیخی۔ ”بالکل نہیں۔ مجھے زندہ سلامت گھر پہنچنا ہے انکل۔“ اس نے بمشکل تھوک نگلا۔ وہ ہنوز بنا پلک جھپکے فائل پر نظریں جمائے بیٹھا تھا جیسے اس کے مسئلے کا حل کود کر وہیں سے برآمد ہو گا۔
”جی اچھا۔“ نسیم صاحب کی ڈانٹ کھانے کے بعد اس نے سیل اس کی جانب بڑھایا وہ نا سمجھی کے عالم میں اسے تکنے لگا۔ ”نسیم انکل آپ سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔“ وہ اٹکی۔
”اس نے بے توجہی سے فون کان سے لگا لیا۔ وہ چند لمحے بیزاری سے سنتا رہا۔ ”سر میرے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں ہے۔ آپ کسی اور سے کہہ دیں گے۔“ وہ قطیعت سے بولا تھا۔ کشادہ پیشانی پر ڈھیروں بل پڑ گئے۔
صلہ کا رُکا سانس بحال ہوا۔ وہ خود اس کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ کوئی اور طریقہ سوچنے لگی۔ ”لیکن سر۔“ وہ رُکا۔ لب بھینچے وہ دوسری طرف نسیم صاحب کو سن رہا تھا۔ اب کے ڈانٹ کھانے کی باری اس کی تھی۔ ماڈلنگ کی دنیا میں سکہ جمانے کے بعد اب ڈرامہ انڈسٹری میں مضبوط قدم جما چکا تھا۔ اور اس ٹیلنٹ کو نکھارنے میں نسیم بادنی کا بڑا ہاتھ تھا۔ جن چند لوگوں کی انڈسٹری میں وہ عزت کرتا تھا نسیم بادنی ان میں سے ایک تھے۔
”جی ٹھیک ہے۔“ آخر اسے مانتے ہی بنی۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا تھا۔ صلہ متحیر سی اسے دیکھتی رہ گئی۔ کوٹ کا بٹن بند کرتا وہ دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ بے بس سی سوچ کر رہ گئی۔ آج واقعی اس کا دن خراب تھا۔ دل ہی دل میں جھنجھلاتی وہ پارکنگ کی جانب لپکی۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali