Episode 4 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 4 - صلہ - ایمن علی

چہرے پر تنہائی بے زاری سجائے وہ گاڑی سٹارٹ کیے بیٹھا تھا۔ اسکو دیکھتے ہی اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔ جی کڑوا کر کے وہ فرنٹ سیٹ پر براجمان ہو گئی۔ اس کے بیٹھتے ہی اس نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھائی ریش ڈرائیونگ کرتا پوش ایریا سے مین روڈ پر گاڑی ڈال دی۔ وہ اب قدرے ریلیکسڈ بیٹھی باہر کے نظاروں میں گم تھی۔ سڑک کے کنارے گول گپے کی ریڑھی کے پاس سے گزرتے وہ یکدم خوشی سے چلائی تھی۔
”ہائے گول گپے۔“ اس کے چہرے پر بچوں کی سی ایکسائٹمنٹ تھی۔ اس ایکسائٹمنٹ میں بھول ہی گئی کہ نسیم انکل کے ساتھ نہیں بلکہ بالاج علی شاہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔ بالاج کا پاؤں بے اختیار بریک پر جا پڑا تھا۔ اس اچانک افتاد پر اس نے گڑبڑا کر اُسے دیکھا تھا۔ گاڑی جھٹکے سے رُکی اور وہ ونڈو سکرین سے زور سے ٹکرائی تھی۔

(جاری ہے)

“ اف مر گئی۔ دھیان سے نہیں چلا سکتے؟ وہ اپنے ازلی لاپرواہ انداز میں بولی تھی۔

بالاج تپ کر رہ گیا۔ وہ اسے سخت سست سنانے والا تھا کہ اس کا فون بج اٹھا۔ دل ہی دل میں اسے برا بھلا کہتا اس نے فون نکالا۔ بڑے دنوں سے گول گپوں کی صورت نہیں دیکھی تھی اور ابا کو بھی لانے یاد نہیں رہتے تھے۔ سو اس اندوہناک کمی کا ادراک اچانک ہوا اورا یسا احساس ہوا کہ بھول گئی کہ کس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہے۔ سکرین پر نمبر دیکھتے اس کا موڈ اور خراب ہو گیا۔

”اب کیا تکلیف ہیں تمہیں۔“ بغیر سلام دعا وہ غصے سے بولا تھا۔ صلہ ماتھا سہلاتی اس کی جانب متوجہ تھی۔ وہ عین سڑک کے درمیان گاڑی روکے کھڑا تھا۔ بے تحاشا ہارن کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور قریبی کٹ سے یوٹرن لے لیا۔
”کیا کر لو گی تم ہاں؟“ وہ بہت ضبط کیے اس خاتون کی بات سن رہا تھا۔ صلہ ماتھا سہلاتی اس کی آواز کی طرف متوجہ تھی۔
گاڑی میں دبیز خاموشی کی وجہ سے لڑکی کی چنگھاڑتی آواز سنائی دے رہی تھی۔
”او شٹ اپ…“ وہ درشتی سے بولا مگر دوسری جانب سے بھی تابڑ توڑ حملے ہو رہے تھے۔
”جسٹ گو ٹو Hello یو بلڈی بچ۔“ اس کے بعداس نے پے درپے انگریزی کی موٹی موٹی گالیاں دیں اور فون ڈیش بورڈ پر پٹخ دیا۔ اس لڑکی نے جانے کیا کہا تھا کہ اس قدر بھڑک اٹھا۔ اس کی خالص زنانہ قسم کی گالیاں سن کر صلہ بے ساختہ شرمندہ سی دروازے سے چپکی بیٹھی تھی۔
اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ وہ قدرے شاٹ کٹ راستہ تھا جو چھوٹی چھوٹی گلیوں سے ہوتا رنگ روڈ کو نکلتا تھا۔ اس رہائشی ایریا کے جابجا سپیڈ بریکرز کی وجہ سے سپیڈ تھوڑی کم ہوتی تھی۔ ورنہ تنگ گلیوں میں بھی اس نے خطرناک رفتار کم نہیں کی تھی۔ وہ ہینڈل تھامے دل ہی دل میں آیت الکرسی اور جو سورتیں زبانی یاد تھیں پڑھ رہی تھی اور مسلسل اس وقت کو کوس رہی جب اس منحوس گاڑی میں بیٹھی تھی۔
خدا خدا کر کے گھر آیا۔ وہ ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر کیے گاڑی سے اتری مبادا وہ خود دھکا ہی نہ دے دے۔ اس کے اترتے ہی وہ زن سے گاڑی بھگا لے گیا۔ اس نے اٹکی ہوئی طویل سانس خارج کی۔ خود کو نارمل کرتے اندر کی جانب بڑھ گئی۔
…#…
بالاج علی شاہ کے بچوں کی کسٹڈی کا کیس چل رہا تھا۔ اس کی بدنام زمانہ شہرت کے باعث اس کا پلڑا بہت ہلکا تھا۔
مگر وہ کسی صورت بچوں کو ان کی ماں کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ان کی علیحدگی کو ایک عرصہ گزر گیا تھا اور اتنے سالوں بعد اسے بچوں کی یاد کیوں ستا رہی تھی وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ سیٹ پر وہ کل سے بھی زیادہ مضحمل اور پریشان تھا مگر آج نسیم بادنی اس کے نخرے اٹھانے کو موجود تھے۔ وہ ان کا چہیتا بھی تو بہت تھا۔
”ہاں صلہ ٹھیک سے گھر پہنچ گئیں تھی کل؟“ اسے کوئی کام کہتے نسیم بادنی کو اچانک یاد آیا تھا۔
”جی سر۔“ اس نے بری سی شکل بنائی۔ ہاتھ بے اختیار ماتھے پر بنے قدرے ابھرے گھامڑ پر گیا تھا۔
وہ لاؤنج میں تنہا بیٹھا تھا کہ اسی اثناء سینئر اداکارہ عارفہ ابرار کا وہاں سے گزر ہوا۔ وہ اس کے برابر صوفے پر آ بیٹھیں۔ ”کیسے ہو شاہو۔ آج تم غضب ڈھا رہے ہو بھئی۔ کلرسلیکشن تو تمہاری ہمیشہ سے اچھی رہی ہے۔“ وہ اپنے مخصوص انداز میں اک ادا سے بولیں۔
ایک نگاہ غلط ان پر ڈال کر واپس اپنے فون پر گیم کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔
”بھئی میں نے تو سنا ہے کہ یہ ڈرامہ تو صرف تمہاری وجہ سے چل رہا ہے وہ عفان باری تو نام کا ہیرو ہے بس۔“ وہ بال پیچھے کرتی بولیں۔ شاہو کی اعفان سے بالکل بھی نہیں بنتی تھی۔ یہ بات سارا زمانہ جانتا تھا۔ اس کھیل کی سترہ اقساط نجی چینل کو دی جا چکی تھیں۔ اور وہ آج کل آن ایر تھا۔
کلائیمکس پر حتمی کام بھی جاری تھا۔ وہ بدمزہ ہوا تھا۔ ان سے ایکسیوز کرتا لاؤنج سے باہر آ گیا۔ ڈائننگ ہال میں اگلے سین کی تیاری چل رہی تھی۔ اس نے سیگریٹ نکال کر لبوں سے لگا لیا اور جیبیں ٹٹولنے لگا۔ لائٹر شاید اندر لاؤنج کے صوفے پر بھول آیا تھا۔ وہ دوبارہ ان خاتون کے منہ نہیں لگنا چاہتا تھا۔ سو اس سے متصل بڑے سے ڈائننگ ہال میں کیمرہ پر مصروف مسعود کے پاس چلا آیا۔
”لائٹر ہو گا تمہارے پاس۔“ اس کے استفسار پر مسعود نے نفی میں سر ہلایا۔ ’تنویر سے کہیں وہ لا دے گا۔“ مصروف سے انداز میں بولا۔
تنویر کہیں آس پاس نظر نہیں آتا تو کچھ سوچ کر وہ اس طرف چلا آیا جہاں لمبے بالوں کی اونچی پونی ٹیل ہلاتے وہ سپاٹ بوائے کو ہاتھ کے اشاروں سے ہدایات دینے میں مصروف تھی۔ وہ اس کے عقب میں آ کھڑا ہوا ”لائٹر یا ماچس ہو گی تمہارے پاس۔
“ اس کے گھمبیر لہجے میں کیے گئے استفسار پر صلہ کا دماغ گھوم گیا۔ وہ تیزی سے مڑی تھی۔“ میں کیا آپ کو سیگریٹ پیتی نظر آ رہی ہوں؟“ وہ غصے سے بولی۔ وہ جو سپاٹ بوائے سے مخاطب تھا اس کے بولنے پر گڑبڑا گیا۔ اس نے دانت نکوستے ماچس نکال کر اسے دی۔ وہ صلہ کو للچائی نظروں سے دیکھتا ماچس لینے چلا گیا۔ صلہ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔
”تو بھی بونگی ہے صلہ۔
“ اس نے ماتھا پیٹتے خودکلامی کی۔ سپاٹ بوائے طارق کے دانت کچھ اور نکل آئے۔“ تم کیا دانت نکال رہے ہو کام کرو اپنا۔“ اس نے خجالت چھپانے کو غصے کا سہارا لیا۔
وہ کنٹرول روم میں آ بیٹھا جہاں نسیم بادنی کل کی ریکارڈنگ دیکھ رہے تھے۔ تمام شارٹس حسب معمول تھے۔ مگر ایک شارٹ پر رُک گئے۔ وہاں ہمیشہ کی طرح صلہ نے ڈنڈی ماری تھی۔ وہ لانگ شارٹ لینے کا کہہ گئے تھے مگر اس نے شاہو کا کلوز اپ لیا تھا۔
“ اس لڑکی کو موقع چاہیے اپنی من مانی کرنے کا۔ یہ شارٹ دوبارہ لیں گے۔“ انہوں نے مسعود کو کہا جو ابھی اندر آیا تھا۔
”کیوں کیا ہوا س شارٹ کو ٹھیک تو ہے۔“ بالاج جو خاموشی سے ان کی بڑبڑاہٹیں سن رہا تھا سنجیدگی سے بولا۔
”مگر یہ لانگ شارٹ میں اچھا لگنا تھا۔ اتنی مہنگی سیٹ ڈیزائننگ بھی تو دکھانی ہے۔ اب پروڈیوسر بولے گا۔“ وہ چڑ سے گئے۔ کام تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا۔
”میرے خیال میں اتنا برا بھی نہیں ہے اور پلیز ابھی میں دوبارہ نہیں کرنے والا یہ سین۔“ وہ جھنجھلایا تھا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali