Episode 5 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 5 - صلہ - ایمن علی

ہائے صلہ تم آ گئی۔ اف خدایا آج تک کسی کا اتنے سچے دل سے انتظار نہیں کیا جتنا آج تیرا کیا ہے جان من۔“ ہما اس کے آتے ہی ترنگ میں بولی۔ وہ تھکی ہاری 9 بجے پہنچی تھی اور ہما رندھاوا پہلے سے موجود تھیں۔ رندھاوا نام نسیم بادنی نے چنا تھا۔ تاکہ نام میں وزن لگے۔ وہ بیگ پھینکتی وہیں صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔ ”نہ سلام نہ دعا۔ ایسی ہی گھر میں داخل ہو گئی۔
دیکھ رہی ہو بہو تمہارے بچے تو تمیز و تہذیب سے بالاتر ہوتے جا رہے ہیں۔“ قریب بیٹھی اردو ادب کی شوقین دادو نے بہو کو تنبیہ کرنا ضروری سمجھا۔
”ہائے دادو آج کیا اردو ادب کا کوئی پروگرام ملاحظہ فرمایا تھا جو اتنی شستہ اردو میں فرمان جاری کر رہی ہیں۔ ”صلہ سے اپنی ٹھیٹھ پنجابی سپیکنگ دادو کی اردو ہضم نہ ہوئی۔
”اٹھو صلہ۔

(جاری ہے)

شاباش فریش ہو کر آؤ۔ تمہارے ابا آنے والے ہیں۔ کھانے میں میری ہیلپ کرواؤ آ کر۔“ امی نے بحث سے بچنے کے لئے اُسے منظر سے غائب کرنا چاہا۔ وہ بحث کرنے میں اپنی دادو پر پڑی تھی۔ دونوں شروع ہوتے تو چپ ہونے کا نام نہیں لیتے تھے۔ دادو بھی tv دیکھنے میں مگن تھیں تو کچھ نہ بولیں۔ وہ کچن میں چلی آئی تو ہما بھی اس کے پیچھے چلی آئی۔
”اف لڑکی پھوٹ بھی چکو منہ سے اب۔
پیٹ میں شدید درد ہو رہا ہو گا تمہارے۔“ سلاد کے لیے سبزیاں نکالتے صلہ نے اسے کہا۔
”ہائے شیلا کیا بتاؤں تجھے… اس نے حسب معمول نام بگاڑا۔ نسیم انکل کا فون آیا تھا۔ دونوں انکل حضرات نے مل کر ابا کو منا لیا ہے اور انہوں نے کل مجھے کنٹریکٹ سائن کرنے بلایا ہے۔ پروڈیوسٹرز کے ساتھ۔ ”وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ صلہ نے ایک نظر اس پر ڈالی۔
سکرپٹ پڑھا ہے تم نے؟“ کھیرا کاٹتے اس نے سنجیدگی سے پوچھا ۔ ”وہ تو کل ملے گا نا۔ ویسے انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تین لڑکیوں کی کہانی ہے۔ ”انعم قریشی اور زارا حیات کے ساتھ میرا debuten ہو گا۔ آئم سو ایکسائیٹڈ۔ اس نے ایک اور ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈالا۔
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن پوری کہانی پڑھ کر ہی سائن کرنا۔ پہلا تاثر اچھا ہو نا چاہیے ورنہ لوگ آپکا کیا پہلا برا کام نہیں بھولتے۔
“ اس نے اس سے چھری لے لی کہ وہ کاٹ کم اور کھا زیادہ رہی تھی۔ ایکسائٹمنٹ میں وہ دبا کر کھاتی تھی۔
”تم چلنا نا میرے ساتھ… کہانی غور سے پڑھ لینا اور کنٹریکٹ بھی اور مجھے بتا دینا وہ سلاد کا پتہ کترتی لاپرواہی سے بولی۔
”ایکٹنگ بھی میں ہی نہ کر لوں۔“ صلہ نے چڑ کر سلاد کی پلیٹ اس کی پہنچ سے دور کی کہ ٹیبل پر جانے سے پہلے اس کے ختم ہونے کے امکانات بہت روشن تھے۔
بڑی کمینی ہو تم۔“ وہ پلیٹ دور کرنے کی گستاخی پر بلبلا اٹھی۔
”ارے یاد آیا۔ میں کل تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی۔ ایک جگہ انٹرویو دینے جانا ہے۔“ وہ ٹیبل پر برتن رکھتے بولی۔
”کیا؟“ ہما زور سے چلائی تھی۔ صلہ نے اسے والیم کم کرنے کا اشارہ کیا۔ ”تم اب نسیم انکل کے ساتھ کام نہیں کرو گی؟ وہ قدرے ہلکا بولی مگر چہرے پر زلزلے کے تاثرات ختم نہ ہوئے۔
ابا نے صرف نسیم انکل کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ ورنہ وہ اس خواری والی جاب کے سخت خلاف تھے۔
”کروں گی۔ لیکن یہ والا پروجیکٹ نہیں۔ کل جہاں جاناہے وہاں آزادی بہت ہے۔ کیونکہ ہدایتکار صاحب تو زیادہ تر ہدایات دے کر کئی کئی دن شکل نہیں دکھاتے۔ سب کچھ میرے کنٹرول میں ہو گا۔ اپنی مرضی چلاؤں گی۔“ صلہ مزے لیتی بولی۔
”بہت بُری ہو تم صلہ۔ عین وقت پر دھوکہ دے کر جا رہی ہو۔“ اس کے لہجے میں بے پناہ مایوسی تھی۔ سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
”ارے تم فکر کیوں کرتی ہو۔ نسیم انکل ہیں ناں۔ وہ ہر نیو کمر کو بہت محنت سے تیاری کرواتے ہیں۔ مجھے اس پروجیکٹ کا بہت عرصے سے انتظار تھا۔ کیونکہ پروڈکشن ہاؤس کے مالک کا بھائی ڈائریکٹر ہے اسی لیے تو موجیں مارتا ہے۔
“ وہ اب رسانیت سے اسے سمجھانے بیٹھ گئی ابھی پورا گھنٹہ اسے منانے میں صرف ہونا تھا۔ اس سے سات سال چھوٹی اس کی جڑواں بہنیں کشف اور رابیل بھی وہیں لاؤنج میں برا سا منہ بنائے بیٹھی تھیں کیونکہ ریموٹ پر دادو کا قبضہ تھا۔ وہ دونوں روز کی طرح دادی کے اپنے کمرے میں جانے کی دعا کر رہی تھیں مگر حسب معمول ان کے جانے سے پہلے ہی ان کا نیند سے برا حال ہو رہا تھا۔
وہ بمشکل آنکھیں کھولے بیٹھی تھیں۔ ابا ابھی تک نہیں آئے تھے۔ انہوں نے لیٹ آنے کی اطلاع دی تھی۔ سب کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ لیکن اسے ابھی ابا کا انتظار کرنا تھا۔ وہ آفس سے اپنے دوست آذر کی عیادت کو گئے تھے۔ جو ابھی تک ہسپتال میں تھے۔ ہما بھی کھانا کھا کر جا چکی تھی۔ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے اس نے بے مقصد فون ملایا۔
دوسری Bell پر بڑے مصروف سے انداز میں ہیلو کہا گیا۔
”جی ابا حضور۔ آپ کی تشریف آوری کب تک ہو گی۔“ وہ حسب معمول بشاش لہجے میں بولی۔ ”بس راستے میں ہوں۔ یہ گاڑی بھی بیچ رستے میں دغا دے جاتی ہے۔“ وہ بہت تھکے تھکے لگ رہے تھے۔ ”اوکے ہم آپ کی راہوں میں کھانا سجائے آپ کی راہ تک رہے ہیں۔ جلدی سے آ جائیں۔“ وہ شرارت سے بولی۔ جواباً وہ نڈھال سی ہنسی ہنسے اور خدا حافظ کہتے فون رکھ دیا۔
وہ اداس سی ہو گئی۔ اسے ہمیشہ حسرت ہی رہی کہ کبھی ابا پرانے والے ابا بن جائیں۔ اس کی شرارتی انداز میں کہی بات کا ابا حضور جواب پہلے کی طرح پیاری دختر نیک اختر کہہ کر دیں۔ مگر شیری کے جانے کے بعد ابا بالکل بدل گئے تھے۔
…#…
چند سال پہلے رحمان اکبر کا گھر ایسا نہیں تھا جیسے اب تھا۔ انکا بڑا بیٹا شرجیل رحمان اس وقت انٹر کر کے فارغ ہوا تھا جب اس پر امریکہ جانے کا بھوت سوار ہوا تھا۔
رحمان صاحب نے ہر باپ کی طرح بچوں سے متعلق بہت سے خواب سجا رکھے تھے۔ شرجیل کو وہ ائیروینٹکل انجینئر اور صلہ کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ رابیل اور کشف کے آنے سے پہلے وہ دونوں ہی ان کے خوابوں کا مرکز تھے۔ ان کے آنے کے بعد بھی انکا پیار شرجیل کے لیے کم نہیں ہوا تھا بلکہ اکلوتا ہونے کے باعث وہ خاندان بھر کا چہیتا تھا۔
شرجیل اور صلہ نے سات سال اکلوتا ہونے کے مزے اڑائے تھے۔
پھر رابیل اور کشف کے آ جانے سے شرجیل کا مقام تو وہی رہا البتہ صلہ کے لیے قدرے بدل گیا۔ ان دونوں نے سب سے چھوٹے ہونے کے باعث خوب محبت سمیٹی تھی۔ مگر صلہ سے اکلوتا ہونے کا اعزاز تو چھن ہی گیا ،ساتھ میں وہ صرف ان دونوں کی بڑی بہن بن کر رہ گئی۔ جسے ہر وقت ان کا خیال رکھنے کی تاکید کی جاتی۔ اسی طرح شیری کی بھی بس چھوٹی بہن کے طور پر لی جانے لگی جسکا اپنے بڑے بھائی کی ہر فرمائش پوری کرنا فرض سمجھا جانے لگا۔
اس نے دونوں کرداروں کو کم عمری میں ہی بخوبی سمجھ لیا تھا۔ اور اپنوں سے جڑی امیدوں کو اپنی بنی کہانیوں اور ان میں بسنے والے کرداروں کی دنیا تک محدود کر لیا۔ ترجیحات یکسر بدل ڈالیں۔ وہ خود کی بنائی دنیا میں مگن اور خوش تھی۔ پھر 12 سال پہلے ہما کے گھر والے اسی محلے میں رہنے آ گئے تھے اور اسے اپنے ساتھ اپنی دنیا میں گھمانے کو ایک ساتھی مل گیا تھا۔
ابا کی خواہش کے برعکس شیری نے کمپیوٹر سائنس میں میٹرک کیا تھا اور آئی سی ایس کرنے کے بعد اس نے ابا کی ناراضگی کے باوجود سکولرشپ کے لیے اپلائی کر دیا تھا۔ وہ ذہین تھا۔ سو باہر جا کر پڑھنا اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ بے جا لاڈ پیار کے باعث وہ بہت خود سر ہو گیا تھا۔ اس کے انٹر کرتے ہی اس کی منگنی ہما سے کر دی گئی تھی اور وہ سراسر اس کی پسند سے کی گئی تھی۔
مگر سکالر شپ کے لگتے ہی وہ چلا گیا تھا۔ بنا کسی کو منائے بنا کسی کو کوئی خوش فہم سی امید دلائے۔ اگر اس وقت وہ ابا کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتا توہ وہ بخوشی اجازت دے دیتے۔ آخر کار وہ انکا چہیتا بیٹا تھا۔ پر جانے وہ کونسے ایگوٹریک پر چل نکلا تھا۔ اس کے جانے کے بعد سے ابا بالکل بدل کر رہ گئے تھے۔ بچوں کی ذمہ داری پہلے کی ہی طرح خوش اسلوبی سے نبھا رہے تھے۔ فرق بس یہ آیا تھا کہ اولاد کے حوالے سے انہوں نے خواب سجانے چھوڑ دیے تھے۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali