Episode 7 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 7 - صلہ - ایمن علی

وہ پلیٹ میں مسلسل چمچ ہلا رہی تھی اور کن اکھیوں سے ٹیبل کے گرد بیٹھے نفوس کو رغبت سے کھاتا دیکھ کر وہ اور بدمزا ہوئی۔
زارا حیات کراچی کی ہی رہنے والی تھی سو وہ سپیگیٹی اور نوڈلز سب کے لیے بنا کر لائی تھی۔ ہما چٹ پٹے کھانے کی عادی تھی۔ اٹیلین فوڈ اور چائنیز دونوں سے ہی اسے انتہا کی چڑ تھی یہاں تک کہ پیزا بھی وہ کھا نہیں سکتی تھی۔
نسیم بادنی کسی خاتون کا تذکرہ کر رہے تھے جنہوں نے کچھ دنوں میں انہیں آ کر جوائن کرنا تھا۔ شہر والی سائیڈ کا سارا کام ان کے ذمے تھا اور نسیم بادنی کا گاؤں کی کاسٹ کو سنبھالنا اور گائیڈ کرنا تھا۔ اب گاؤں والے کردار شہر آ گئے تھے۔ بقیہ نسیم صاحب اور ان خاتون نے مل کر کرنا تھا۔ وہ بے دلی سے سب کی گفتگو سن رہی تھی۔ ٹیبل پر صرف وہ اور بالاج خاموشی سے کھانے میں مصروف تھے۔

(جاری ہے)

جبکہ اعفان باری بہت باتونی تھا اور زارا حیات بھی۔ دونوں پروجیکٹ کے سلسلے میں انہیں بہت سے مشورے دے رہے تھے۔ جن کا ککھ بھی اس کے پلے نہیں پڑ رہا تھا۔
”ہاں وہ تو بہت قابل ہدایتکار ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے کا لطف یہ ہے کہ وہ کبھی بور نہیں ہونے دیتیں۔ بہت زندہ دل اور خوش مزاج خاتون ہیں۔“ وہ غالباً انہی خاتون کی تعریفوں میں لطب اللسان تھا۔
ہما جی بھر کر بدمزا ہوئی ایک تو اس شخص کو ہر کسی کی تعریفیں کرنے کی بہت عادت ہے۔ مجھے بھی پتا نہیں کیوں ایسے بونگے ہی پسند آتے ہیں۔“ وہ اسے بغور آبزور کرتی تھی اور جتنا اس نے غور کیا اتنی ہی مایوسی ہوئی۔
”ارے ہما! آپ نے تو کچھ لیا ہی نہیں۔“ زارا نے اس کی پلیٹ میں تھوڑی سی سپیگیٹی دیکھتے ٹوکا ۔
”نو تھینکس۔ میں نے ناشتہ ذرا ہیوی کیا تھا۔
“ اس نے مسکراتے معذرت کی۔ کراچی میں گزارے ایک مہینے میں اس کے فاقوں کی نوبت آ پہنچی تھی۔ ٹیم کا باورچی پٹھان تھا۔ اور وہ جو سندھی پنجابی کھانوں کا ملغوبہ بناتا تھا وہ کھانا کم اور دلیہ ٹائپ چیز زیادہ لگتی تھی۔
دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی۔ اندر داخل ہوتی صلہ کو دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں۔ ہر طرف تکہ بوٹی، مرغ پلاؤ ، پائے وغیرہ کی مسحورکن خوشبو پھیل گئی۔
”شیلا۔“ وہ دبے دبے جوش سے بولی تھی۔ سب ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگے۔ شیلا کے نام پر وہاں بہت سے لوگوں کے چہرے پر حفیف سی مسکراہٹ دوڑ آئی۔ صلہ نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔ اس کی شخصیت اور اس نام کی حامل خاتون میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ لوگوں نے تو ہنسنا ہی تھا۔ لائٹ پنک سادہ سے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس وہ ہمیشہ کی طرح فریش نظر آ رہی تھی۔
اس نے سب کو اجتماعی سلام کیا۔
”صلہ کیسی ہو بچے؟ یہاں کیسے۔“ نسیم بادنی اپنے ازلی مشفقانہ انداز میں پوچھنے لگے۔ 
”ادھر تایا ابا کی طرف آئی ہوئی تھی۔ سوچا ہما سے ملتی چلوں۔“
”چلو اب آ گئی ہو تو ہمارے ساتھ لنچ کرو کم آن۔“ زارا نے سادگی سے کہا۔ ہما کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔“ نہیں نہیں۔ یہ ایسے کھانے نہیں کھاتی۔“ سب نے چونک کر اسے دیکھا تھا وہ خجل سی ہو گئی۔
آ آ۔۔۔ آئی مین یہ ذرا پینڈو قسم کی ہے اسے اٹیلین وغیرہ ذرا نہیں پسند۔“ اس نے صلہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی۔ صلہ جو پینڈو لفظ پر جو زخمی ہوئی سو ہوئی مگر اس جھوٹ پر تو تلملا کر رہ گئی۔ اسے تو کانٹینینٹل کھانے بے حد مرغوب تھے۔
”چلو میں تمہیں باہر سے کھانا کھلواتی ہوں۔“ وہ اٹھ کر اس کے قریب آئی اور ملتجی نظروں سے اشارہ کیا کہ مجھے بچا لو پلیز۔
”جی بالکل مجھے کچھ خاص پسند نہیں اٹیلین فوڈ۔“ وہ دانت کچکچا کر اٹیلین فوڈ پر زور دیتی بولی تھی۔“ ہم ذرا باہرہو آئیں انکل اگر یہ فری ہے تو۔“ اس نے نسیم بادنی سے پوچھا۔ آخر اس دریستی کا انتقام بھی تو لینا تھا۔
”ہاں بیٹا کیوں نہیں۔ لیکن سات بجے سے پہلے آ جانا۔“ انہوں نے مسکراتے اجازت دی ۔ ان کے راز میں وہ بھی تو شریک تھے۔
وہ تھینک یوکہہ کر اُسے کھینچ کر باہر لائی۔ ”کمینی عورت… یہ کیا حرکت تھی۔“ وہ باہر آتے اس پہ چڑھ دوڑی ۔ لیکن وہ تو جیسے قید خانے سے آزاد ہوئی تھی۔وہ وہاں سے بھاگتی اسے کھینچ کھینچ پارکنگ میں لے آئی۔
”ہائے میری پیاری شیلا تجھے کیا بتاؤں۔ قسم سے مہینے بھر سے کچھ ڈھنگ سے نہیں کھایا میں نے۔ چل کہیں اچھے سے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔
“ وہ گاڑی کے دروازے بند کرتے بولی۔
”تم نے ڈھنگ سے نہیں کھائی تو اس میں مجھے ذلیل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔“ وہ خفگی سے بولتی اسے بخشنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
”معاف کر دے نا یار۔“ وہ گاگلز لگاتی گاڑی سٹارٹ کر چکی تھی۔“ تمہیں تو پتا ہے میں اکیلی کہیں نہیں جاتی۔ اور شوبز کے لوگوں سے دوستیاں گھانٹھنے مجھے پسند نہیں۔“
”ماموں نے گاڑی دے دی استعمال کرنے کو۔
کھانا نہیں دیتے کیا۔“ صلہ بھی اپنی جون میں لوٹ آئی۔
”حق ہا…“ اس نے لمبی آہ بھری۔ مت پوچھو یار۔ مامی جی تو یہاں آ کر ایسے انگریز ہوئی ہیں جیسے گوجرے سے کراچی نہیں امریکہ آ گئی ہوں سڑے ہوئے ٹوسٹ ا ورانڈا چائے۔ لنچ میں عجیب و غریب چائنیز کھانے۔ یخ… اور پراٹھے تو انہیں ہضم ہی نہیں ہوتے۔ یو نو ہاؤ ہیوی دے آر۔“ وہ ان کے جیسے پوز مارتی بولی۔
صلہ سر ہلاتی ہنستی رہی۔ ہما مشاق ڈرائیور تھی۔ رش میں بھی وہ قدرے تیز رفتاری سے چلا رہی تھی۔ صلہ نے ترسی نگاہوں سے اسے گیئر لگاتے دیکھا۔
”ہما تم کتنی اچھی ہو اور یہ چوڑی دار پاجامے میں سرخ فراک کتنی جچ رہی ہے تمہیں۔ بالکل مغلیہ شہزادی لگ رہی ہو۔“ وہ اسے چمکارتے بولی۔
”ہیں…؟ اسکے خوشامدانہ انداز پر ہما بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔
پھر اس کا انداز جانچتے زور سے نفی میں سر ہلانے لگی۔
”نہ نہ بالکل نہیں… زمیں اِدھر کی اُدھر ہو جائے یا آسمان ٹوٹ پڑے۔ جان دے دوں گی مگر گاڑی تمہیں نہیں چلانے دوں گی۔ جتنی مرضی خوشامد کر لو۔ بھئی آخر مجھے بھی تو زندہ رہنے کا حق ہے…“ وہ بھی اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔ سو کانوں کو ہاتھ لگاتے بولی۔ اس کی خطرناک ڈرائیونگ نے اس کے باغیچے کے کئی گملے توڑے تھے۔
”انتہائی زہر لگ رہی ہو تم اس وقت۔“ ارمانوں پر پانی پڑتا دیکھ کر اس نے براسا منہ بنایا۔“ تھینک یو تھینک یو۔“ ہما ہنس دی۔
”بائی دی وے۔ Congrats تمہارا وہ پروجیکٹ جسکی خاطر تم نے مجھ سے بے وفائی کی خاصا کامیاب چل رہا ہے۔“ وہ خوشدلی سے بولی۔ ان ڈائریکٹر صاحب کی لمبی غیر حاضریاں مشہور تھیں۔
”شکریہ…“ صلہ کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ ابھری تھی۔
”ویسے اتنی جلدی تم فارغ کیسے ہو گئیں۔“ اس نے تیزی سے موڑ کاٹا تھا۔ وہ قدرے کھلی سڑک پر آ گئے تھے۔
”ڈائریکٹر صاحب کو ان کی کام چوری پر اپنے پروڈیوسر بھائی صاحب سے خاصی ڈانٹ پڑی تھی۔ سو کام پورا ہونے سے پہلے ہی فائر کر دیا مجھے۔“ وہ عام سے لہجے میں بولی تھی۔ جبکہ ہما ہکا بکا رہ گئی۔
”صلہ۔ کیا مطلب فائر کر دیا۔ ساری محنت تم نے کی اور وہ انگلی کٹا کر چلے شہیدوں میں اپنا نام لکھوانے۔
“ اسے حقیقتاً صدمہ ہوا تھا۔
”کیا فرق پڑتا ہے یار۔ مجھے اکیلے کام کرنے کا تجربہ چاہیے تھا سو وہ مل گیا۔ نام میں کیا رکھا ہے۔ ایسی چھوٹی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں اس فیلڈ میں۔“ اس کے لاپرواہ انداز پر ہما ششدررہ گئی۔ ”کیا مطلب فرق نہیں پڑتا۔ کم از کم کریڈیٹس میں تمہارا نام آنا چاہیے۔“
”کوشش کر کے دیکھ لو، کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
“ وہ کندھے اچکاتی باہر دیکھنے لگی۔
”اس کی ایسی کی تیسی۔ انکل سے بات کروں گی۔ تم نے تو کچھ کرنا نہیں ہے۔ اپنے گول تک پہنچنے کے لیے اس سے تمہارا نام اسٹیبلش ہونا بہت ضروری ہے۔
”اچھا بی بی بقراط۔ آہستہ چلاؤ گاڑی۔ مجھے اس بالی عمر میں اوپر نہیں جانا۔“ اس نے تیزی سے اوورٹیک کیا۔
”ایک تو تم بڑی جیلس ہو میری ڈرائیونگ سے… تم تو ہمیشہ۔“

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali