Episode 21 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 21 - صلہ - ایمن علی

کام آخری مراحل پر تھا۔ چند دن کا کام تھا پھر زرینہ اپنی فلم میں مصروف ہو جاتیں اور وہ اپنے کاموں میں۔ جمال یوسف سے ملاقات کے بعد وہ کئی دن زرینہ سے ملنے نہیں آئی۔ آج زرینہ کے اصرار پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چلی آئی تھی۔ اب اسے اپنے مسودے پر کام کرنا تھا لہٰذا آج آخری بار سب سے ملنے چلی آئی تھی۔ ندیا سے ملتے وہ سیدھی ہما اور اس کے مشترکہ کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
دروازہ چوپٹ کھلا تھا۔ ہما چیئر پر ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھی میگزین میں گم تھی۔ جبکہ ندیا بیڈ پر بیٹھی زارو قطار رو رہی تھی۔ وہ گھبرا کر آگے بڑھی۔ ”تمہیں کیا ہوا ہے؟“ وہ بیڈ پر آ بیٹھی۔ وہ ہنوز ہچکیاں لیتی رو رہی تھی۔
”میں نے اعفان کو پروپوز کر دیا۔“ ہچکیوں کے بیچ ابھرنے والی آواز نے صلہ کی سیٹی گم کر دی۔

(جاری ہے)

“ دماغ خراب ہو گیا تھا کیا؟“ وہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔

وہ تپ گئی۔ ”کیوں کیا خرابی ہے اس میں۔ میں نے سوچا جانے پھر ملاقات ہو نہ ہو ابھی وقت ہے بتا دوں۔“ وہ اور زور سے رونے لگی ”مگر اس نے صاف انکار کر دیا۔“ ”کہتا ہے اسے کوئی اور پسند ہے۔“ اب کے ہما نے میگزین سے سر اٹھایا۔ ”اسے تو روز کوئی نہ کوئی نئی لڑکی پسند آتی ہے۔ فکر نہ کرو تم بھی کسی دن اچھلنے لگ پڑو گی۔“ اس کے بے نیازی سے دیے مشورے پر صلہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔
ندیا جل کر رہ گئی۔ ”یہ دیکھو۔ کب سے ایسے ہی میرا دل جلائے جا رہی ہے۔“ صلہ نے ہنسی ضبط کرتے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا جو اس نے نہیں لیا۔ تو وہ کندھے اچکاتی خود گھونٹ گھونٹ کر کے پینے لگی۔
”ویسے ندیا تم کبھی ماضی سے سبق نہیں سیکھتی۔ پہلے بھی کوئی دس دفعہ میں تمہیں ایسے ہی بیٹھے تسلی دیتی رہی ہوں۔ قسم سے یہ سین بڑا گھس گیا۔
کبھی آکاش، کبھی مدثر، کبھی عابدد“ وہ بڑے مزے سے نام گنوانے بیٹھ گئی۔ ہما سب سے بے نیاز میگزین پر جھک گئی۔ ندیا نے بڑی ملامتی نظروں سے اسے گھورا تو وہ کھسیا کر چپ ہو گئی۔
”پسند کا اظہار کرنا کوئی گناہ تو نہیں ہے۔“ اس نے احتجاج کیا۔
”ہاں اگر ایک ہی ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ روز روز تو پسند بدلتی ہے تمہاری اچھا خاصا لڑکا تھا وہ کیا نام تھا بھلا سا اس کا؟ وہ یاد کرنے کو رُکی…“ ”خاور…“ ہما نے یاد دلایا۔
ندیا نے کھا جانے والی نظروں سے ان دونوں کو دیکھا۔ ”میں تم دونوں کو اپنا دوست سمجھتی تھی۔ کب سے مذاق اڑا رہے ہو میرا۔“
”دوست ہیں تو مشورہ دیتے ہیں تمہیں مگر تم سنتی کہاں ہو۔ خیر اب اس فضول آدمی کو کون بدنصیب پسند آ گئی۔“ اس نے بات بدلنے کو یونہی پوچھا۔ اور پھر گلاس لبوں سے لگا لیا۔ وہ رو رہی تھی اور پیاس اس کو لگ رہی تھی۔
”بقول تمہارے بدنصیب لڑکی جو اسے پسند آئی ہے وہ تم ہو۔
“ وہ تڑخ کر بولی اور پھر بھاں بھاں رونے لگی۔ صلہ کہ زور کا اچھو لگا۔ وہ بری طرح کھانس کر رہ گئی۔ پھر ایک نظر اسے اور ہما کو دیکھ کر یکدم ہنس پڑی۔
”ا س کا مطلب ہے وہ واقعی تم میں انٹرسٹڈ نہیں ہے اسی لیے میرا نام استعمال کر کے جان چھڑوا رہا ہے۔ چل بیٹا کہیں اور ٹرائی کر۔“ وہ ہنستے کہتی اٹھ گئی۔ ہما بھی نفی میں سر ہلاتی مسکرا رہ گئی۔
”وہ تو روز کوئی نہ کوئی نیا شوشا چھوڑتا ہے۔ اس میں کیا نیا ہے۔“ ہما کے انداز پر وہ ٹھٹکی۔ کسی زمانے میں وہ اعفان باری کے پرستاروں میں سے تھی۔ ”آج کل زرینہ کے گرد بہت گھوم رہا ہے۔ فل آن چاپلوسی۔ تاکہ فلم میں چانس بنے اس کا۔“ ہما نے گویا اپنی طرف سے دھماکا کیا۔ مگر صلہ نے کوئی خاص رد عمل کا اظہار نہ کیا کندھے اچکاتی بولی۔ ”وہ میرٹ پر فیصلہ کرتی ہیں۔
انہیں صحیح لگے گا تو وہ یونہی اسے لے لیں گی۔ ویسے بھی انہوں نے ابھی کاسٹنگ شروع نہیں کی۔“ ہما نے تاسف سے اسے دیکھا۔
”چرچہ… میں نے سوچا تھا تمہیں عقل آ گئی ہو گی اب تک۔ آخر کب تک کنویں کا مینڈک بنی رہو گی۔ اعفان کو ڈائریکٹر کے لیے ٹرائی کر رہا ہے کیونکہ مرکزی کردار پہلے سے ہی زرینہ کی نظر میں ہیں اور تم جانتی ہو اعفان باری اداکار ہونے کے ساتھ ہدایتکاری میں بھی تجربہ رکھتا ہے۔
اچھا خاصا چانس تھا تمہارے پاس زرینہ کہ امپریس کرنے کا۔“ ہما کے بے تاثر لہجے میں کی گئی بات پر دروازے تک جاتی صلہ متحیر رہ گئی۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ تم مجھے ایسا سمجھتی ہو۔ اتنے عرصے کی دوستی کے بعد بس اتنا ہی جان پائی ہو تم مجھے۔“ وہ متاسف سی نظر اس پر ڈالتی باہر نکل گئی۔ ہما سر جھٹکتی کرسی سے اٹھ گئی۔ ”ایموشنل فول۔“ اس کے بڑبڑانے پر ندیا بھی چونکی تھی۔
…#…
”پروڈیوسر نے تمہیں چوائس دی ہے۔ ایک دفعہ پھر سوچ لو۔ کسی تجربہ کار کو بروئے کار لاؤ۔ بچے کیا کریں گے۔“ جمیل متفکر سے تھے۔
”یہی بچے ہمارا فیوچر ہیں اور ویسے بھی بالکل ناتجربہ کار تو نہیں ہے۔“ ڈونٹ وری میں نے میرٹ پر ہی فیصلہ کیا ہے۔“ وہ تسلی سے بولیں۔ تو وہ گہرا سانس لیتے باہر کو بڑھے۔ دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی۔
گلاس ڈور کے اس پار صلہ کو کھڑے دیکھ کر انہوں نے مسکراتے اجازت دی۔ جمیل شفقت سے اس اس کا سلام کا جواب دیتے باہر چلے گئے۔
”آؤ بھئی صلہ… تم تو مہمان ہو گئی ہو۔ سو فون کرنے پڑتے ہیں اب میڈم کو بلانے کے لیے…“ زرینہ خوشگوار انداز میں شکوہ کیا تو صلہ مسکرا دی۔
”اب ایسا بھی نہیں ہے۔ ایک ہی تو فون کیا تھا آپ نے۔“ صلہ مسکراہٹ دبائے بولی۔
زرینہ نفی میں سر ہلاتی مسکراتے میز پر پڑی چیزیں سمیٹ رہی تھیں۔ زرینہ میز پر جانے کیا کیا پھیلائے بیٹھی تھیں۔ سمیٹتے سمیٹتے وہ خود بھی وحشت زدہ سی ہو رہی تھیں، صلہ سامنے پڑی کرسی پر جا بیٹھی۔ اور بغور انہیں دیکھنے لگی۔
”کیا بات ہے بھئی… آج ایسے دیکھ رہی ہو جیسے پہلی بار دیکھا ہے۔“ وہ اس کی محویت بھانپتے مصروف سی بولیں۔
”دیکھ رہی ہوں کہ انسان میں ایسی کیا خاصیت ہوتی ہے جو کسی کو صدیوں تک سحرزدہ کیے رکھتی ہے۔
“ وہ عجیب سے لہجے میں بولی تھی۔ زرینہ دھیرے سے مسکرائیں۔
”ڈونٹ وری میں خود بھی جمیل اختر سے آج تک سحرزدہ ہوں۔ اور اس سحر کو عام زبان میں محبت کہتے ہیں جناب۔“ ان کا موڈ بہت خوشگوار تھا۔
”میں جمیل انکل کی بات نہیں کر رہی۔“ اس کے بے تاثر سے انداز پر وہ چونکیں۔ ”کیا مطلب؟“ ”مطلب یہ کہ جمال یوسف سے ایک ملاقات کے بعد انسان کا موڈ اگلے چار پانچ دن تک عجیب و غریب ہی رہتا ہے۔
یہ جوگی اور روگی ٹائپ لوگ اتنی عجیب باتیں کیوں کرتے ہیں۔“ وہ بڑے عام سے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔ ز رینہ لمحے بھر کو چپ سی ہو گئیں۔
”تم کیسے جانتی ہو انہیں؟“
”ان کی ایجنٹ ہوں۔ آپ کی فلم ستایا ناس کرنے آئی ہوں۔“ وہ سنجیدگی سے انہیں گھور رہی تھی۔ زرینہ ہکا بکا رہ گئیں۔ پھر آہستگی سے سر جھٹکتی بولیں۔”اگر یہ بات جمال خود آ کر کہیں تو بھی میں نہیں مانوں گی۔
“ وہ دو ٹوک انداز میں بولیں۔ ”اتنا یقین ہے مجھ پر؟“ صلہ حیران ہوئی۔
”ہاں تم پر بھی اور لوگوں کو پہچاننے والی اپنی حس پر بھی۔“ وہ مسکرائیں۔ ”ہر بار آپ کا تجزیہ درست ہو ضروری تو نہیں۔ انسان بڑی حیرت انگیز چیز ہے آپ مکمل طور پر اسے جاننے یا سمجھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔“ صلہ بھی دوبدو بولی تھی۔ زرینہ نے ابرو اچکاتے نفی میں سر ہلایا۔ ”آج تک تو غلط ثابت نہیں ہوا۔“ وہ ڈرار کی جانب جھکیں۔ اور اس میں سے ایک فائل نکال کر میز پر رکھ دی۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali