Episode 24 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 24 - صلہ - ایمن علی

”فلم کی سٹوری تو اچھی ہے۔ وہ کیوں نہیں چلے گی؟“ اعفان کے تبصرے پر لڑکی نے پوچھا تھا۔ وہ دونوں ٹیرس پر اکیلے بیٹھے تھے۔ جب اعفان نے مطلب کی بات کی۔
”فلم بنے ہی نہیں تو چلے گی کیسے۔“ اعفان نے کہا۔
”کیا مطلب؟“ لڑکی نے اچنبھے سے پوچھا۔
”تمہاری دوست ہے نا صلہ رحمان ۔ وہ یہ فلم بننے ہی نہیں دے گی۔“ اعفان نے مسکراتے کہا۔
”وہ کیوں ایسا چاہے گی۔“ لڑکی نے زچ آ کر پوچھا ۔
”اچھا پھر یہ سنو۔“ یہ کہتے اعفان نے سیل پر ریکارڈنگ آن کی۔ وہ صلہ اور جمال یوسف کی آوازیں تھیں۔ لڑکی جو سپاٹ سے انداز میں بیٹھی تھیں یکدم چونکی۔“
”اب بولو۔“ ریکارڈڈ شدہ آواز بند ہوتے وہ فاتحانہ انداز میں بولا تھا۔ لڑکی کچھ بول ہی نہ پائی بس حیرانگی سے سیل فون کو تکتی رہی۔

(جاری ہے)

”وہ اور جمال یوسف سیٹ پر باتیں کر رہے تھے جب میں مسعود کے پاس اپنی ایک DV چیک کرنے کے لیے لے گیا تھا۔ وہ دونوں کیمرہ کے قریب ہی تھے، مسعود ریکارڈنگ چلا کر چلا گیا۔ میں یونہی اسے چیک کرنے لگاجب مجھے صلہ کی خاصی جذباتیت بھری باتیں سنائی دیں۔ میں نے خواہ مخواہ ریکارڈنگ بند نہیں کی۔ اور ان کی ساری آوازیں اس DV میں ریکارڈ ہو گئیں۔
“ وہ چپ ہوا تو لڑکی بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔
” اس ریکارڈنگ سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ فلم خراب کرا کر بدلہ لینا چاہتی تھی۔ ہاں ترقی کا زینہ اس نے ان کی فلم کو بنایا ہے۔ اور بڑے سوچے سمجھے انداز میں اپنا کام انہیں دکھانے میں اس نے بے ساختگی سے کام لیا ہے ورنہ زرینہ اتنی جلدی متاثر ہونے والوں میں سے نہیں ہیں۔“ وہ لڑکی سوچ سوچ کر بول رہی تھی۔
اعفان نے نفی میں سر ہلایا۔
”تم سمجھی نہیں۔ رقابت بڑی بُری شے ہے۔ پل میں محبوب کی محبوب ترین ہستی سے محبت سی ہونے لگتی ہے اور اگلے پل شدید نفرت۔ وہ بہت عرصے سے جمال یوسف میں انٹرسٹڈ ہو گی۔ اس کی باتوں سے اس کے جذبے کی شدت کا پتہ چلتا ہے۔ ضرور لڑکپن میں اسے ان سے محبت ہوئی ہو گی۔ محض ان کو ستانے کے لیے وہ زرینہ کا سب سے بڑا خواب چکنا چور کرنا چاہتی ہے۔
محبت میں بے بسی اس جیسی شدت پسند لڑکی اسے ایسے احمقانہ قدم اٹھوا سکتی ہے۔“ وہ چند لمحے خاموش رہ کر اس لڑکی کا ردعمل دیکھنے کو رکا۔ وہ بے تاثر چہرہ لیے بیٹھی تھی۔ ”کیا ہوا۔“ اسے الجھا ہوا سا دیکھ اس نے پوچھا تھا۔
”پرسوں میں نے اس کی ڈائری اتفاقاً دیکھی تھی ریسٹ ہاؤس کی الماری میں۔ کافی پرانی ڈائری لگتی تھی۔ شاید اس کے مسودے کا کچھ ابتدائی حصہ اس میں تھا۔
اسی لیے وہ ساتھ لے آئی تھی۔ اس میں…“ وہ قدرے ہچکچائی۔ اعفان آگے کو جھکا۔ اس میں کیا؟“ وہ جیسے کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں تھی۔ ”زرینہ کے لیے بے پناہ نفرت کا اظہار کیا گیا تھا۔ میں نے سوچا شاید جذباتیت میں لکھا ہے۔ مگر اب لگتا ہے جیسے سب سوچ سمجھ کر اس نے… اف“ وہ سرپکڑ کربیٹھ گئی۔“ وہ ایسی تو نہیں تھی۔ وہ ہرگزا یسی نہیں تھی۔“ وہ صلہ کو جتنا جانتی تھی وہ واقعی اسے ایسا نہیں سمجھتی تھی۔
”محبت انسان سے کچھ بھی کروا سکتی ہے۔“ وہ گرل پکڑے باہر دیکھ رہا تھا۔ پھر یکدم مڑا۔
”تم مجھے وہ ڈائری لا کر دے سکتی ہو۔“
”کیوں؟“ وہ لڑکی محتاطً ہوئی۔
”دیکھو زرینہ کے علاوہ اور بہت سے لوگ اس پروجیکٹ سے جڑے ہیں۔ انہیں بتانا ضروری ہے۔ وہ شاید آواز پر یقین نہ کریں جتنا اس کے لکھے پر کریں گے۔“ اعفان نے کہا ۔
”نہیں میں امانت میں خیانت نہیں کر سکتی اور یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جسکے باعث میں اس کا بھروسہ توڑوں۔
اور ویسے بھی مجھے اب بھی یقین ہے وہ اس نیت سے یہ سب نہیں کر رہی تھی۔“ وہ ٹھوس لہجے میں بولی ۔ اعفان نے قدرے تاسف سے اسے دیکھا ۔
”مرضی ہے تمہاری۔“ لاپرواہی سے کندھے اچکاتے وہ باہر دیکھنے لگا۔ پھر کچھ سوچ کر وہ اس کے قریب کرسی ڈال کر بیٹھ گیا۔
”میں یہ سب زرینہ کے لیے یا انسانی ہمدردی میں نہیں کر رہا ہوں اور نہ ہی مجھے ہمدردی وغیرہ کا کوئی شوق ہے۔
یہ میں ہمارے لیے کر رہا ہوں۔ تمہارے گھر ایک فلم سٹار کا رشتہ جائے گا تو ڈبل اتر پڑے گا۔ میں کوئی اچھا آدمی نہیں ہوں مگر تم سے شادی کر کے میں نئی زندگی شروع کرنا چاہتا ہوں جہاں ماضی کا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔“ وہ رُکا… وہ لڑکی ابھی بھی کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی تھی۔ ”رہا سوال زرینہ اور صلہ کی دوستی کا تو میرا نہیں خیال کہ یہ کوئی اتنا بڑا ایشو ہے۔
یہ صرف ابتدائی شاک ہو گا۔ جس سے یکدم ردعمل سامنے آئے گا۔ 
وہ دونوں خاصی انتہا پسند ہیں۔ منٹوں میں فیصلے کرنے والی۔ شاک دینے کے لیے یہ وقت پرفیکٹ ہے۔ صلہ کا پتہ صاف ہوتے ہی میرا نمبر آگے گا۔ کیونکہ پروڈیوسرز میرے جاننے والے ہیں۔ ان کی فسٹ چوائس میں ہی تھا۔ صلہ صرف زرینہ سے دوستی کے باعث درمیان میں آ گئی اور اگر میرا نمبر ہدایتکاری کے لئے نہ بھی آیا تو کوئی اہم کردار مجھے آفر ہو ہی جائے گا۔
جو کہ صلہ کے ہوتے ہوئے امپاسبل ہے۔“ لڑکی نے پرسوچ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ اعفان اپنی تقریر کا اثر دیکھتے پھر سے گویا ہوا۔”چند دنوں تک زرینہ کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا کیونکہ وہ کوئی ٹین ریج لڑکی تو ہے نہیں جو صلہ کی بے وفائی نہ بھول سکے۔ وہ سمجھ ہی جائے گی کہ یہ سب صلہ نے وقتی جذباتیت کے باعث کیا تھا۔“ وہ ریلیکس سا کرسی پر ٹک گیا۔ اس کے چہرے پر آسودہ مسکراہٹ تھی۔
لڑکی متذبذب سی تھی۔ مگر یہ وقتی گلٹ تھا۔ حقیقت پسندی سے سوچنے پر اسے احساس ہو جائے گا کہ یہ کوئی اتنی بڑی بات تو نہیں ہے۔ مگر وہ لڑکی کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔
…#…
دو دن میں انہیں ریسٹ ہاؤس خالی کرنا تھا۔ چھوٹے موٹے کام نمٹا کر ساری ٹیم رخصت ہونے کو تیار تھی۔ اس پروجیکٹ سے سب کی خوبصورت یادیں جڑی تھیں۔ سب اپنے کام سے بے حد خوش اور مطمئن تھے اور آج کل سوشل میڈیا اور ناقدین کے ذریعے لوگوں کی تعریفیں اور تبصرے و تجزیے دیکھ دیکھ کر محفوظ ہو رہے تھے۔
صلہ ٹیم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی خوبصورت ترین تجربے سے گزار رہی تھی۔ فلم کے بارے میں ابھی اس نے گھر نہیں بتایا تھا۔ وہ دو دن بعد لاہور جا کر سب کو سرپرائز دینا چاہتی تھی اور دوسری بڑی خوشی اس سب سے بالاتر تھی۔ اس کا مسودہ مکمل ہو چکا تھا۔ اس نے مسکراتے ٹیبل پر پڑی اپنی فائل کھولی۔ سرورق پر خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں ”عنایا“ لکھا تھا۔
عنایاجہانگیر اس کی تخلیقات میں سب سے اچھوتا اور بے حد دلچسپ کردار تھا۔ زرینہ احمد خان کی شخصیت اور عنایا جہانگیر میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اس کے باوجود ڈیڑھ سال پہلے جب اس نے رف سا سکیچ جمال یوسف کو دکھایا تو انہوں نے بے ساختہ زرینہ کا نام سجیسٹ کیا تھا اور اس نے فوراً سے بیشتر نفی میں سر ہلایا تھا۔ اس کے مطابق یہ زرینہ کے بس کا نہیں تھا۔
مگر وہ جب سے زرینہ کے ساتھ تھی اسے ان کی شکل میں جیتی جاگتی عنایا جہانگیر نظر آنے لگی تھی۔ ان کے پاس اداکاری کی خدادا صلاحیت تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے کبھی منفی کردار کسی بھی پلے میں ادا نہیں کیا تھا۔ مگر ان کے ساتھ کام کرنے کے دوران اس نے ان میں عنایا جہانگیر کی ہلکی سی جھلک دیکھ لی تھی۔
کمرا اس وقت خالی تھا۔ اس کا زیادہ تر سامان تایا جان کے گھر تھا۔
وہ چند دن یہاں رہی تھی۔ لہٰذا یہاں کی الماری سے وہ اپنا سامان لینے آج ریسٹ ہاؤس آئی تھی۔ اس نے آخری بار الماری کھول کر جائزہ لیا۔ ہما اور ندیا کا سامان ہنوز پڑا تھا۔ تبھی اسے اپنی ڈائری کا خیال آیا۔ اس نے سامان کا جائزہ لینا شروع کیا۔ مگر اس کی ڈائری وہاں کہیں نہیں تھی۔ وہ سوچنے کو رُکی۔ ”شاید تایا گھر ہو۔“ وہ ابھی سوچ رہی تھی کہ موبائل کی میسج بِل بج اٹھی۔
اس نے فون اٹھایا تو زرینہ کا میسج جگمگائی رہا تھا۔ وہ کھل کر مسکرائی۔ 
انہوں نے اسے گھر بلایا تھا وہ بھی ابھی۔ وہ سرشار سہی ہو گئی۔ پچھلے دنوں اس نے زرینہ کو اپنے مسودے کے متعلق آگاہ کیا تھا۔ اور عنایا جہانگیر کے کردار کو وضاحت سے سنایا تھا۔ وہ بہت پروفیشنل تھیں اور اداکاری کو عرصے سے خیرباد کہہ چکی تھیں۔ انہوں نے چند دن سوچنے کا وقت مانگا تھا۔
کیونکہ انہوں نے خود ابھی تک اس قسم کا کردار کبھی نہیں نبھایا تھا۔ اور آج وہ اسے گھر بلا رہی تھیں۔ وہ بے حد ایکسائیٹڈ تھی۔ جلدی جلدی تیار ہو کر باہر نکلی تو آسمان بادلوں سے بھرا تھا۔ اب بارش ہوئی کہ کب۔ اس نے رکشہ کروایا اور آدھے گھنٹے بعد وہ زرینہ کے چھوٹے مگر خوبصورت سے گھر کے سامنے گیٹ پر کھڑی تھی۔ انکا Cats & Dog کہلانے والا گھر پانچ کتوں اور تین بلیوں پر مشتمل تھا۔
 زرینہ اور جمیل انہی کے درمیان کہیں فٹ بیٹھے تھے۔ اور ان کی فیملی مکمل تھی۔ ان کے گھر اکثر بھٹکے ہوئے جانوروں کا بھی بسیرا ہوتا تھا۔ جو چند دن زرینہ کے گھر کے مہمان ہوتے اور زرینہ ان کے لیے کوئی گارڈین تلاشتیں۔ ان کا بس چلے تو ساری دنیا کے جانور اپنے گھر لا کر پال لیں۔ وہ ایک مسکراتی نظر گھر پر ڈالتی اندرونی دروازے کی جانب بڑھی۔ گھر میں عجیب سی خاموشی تھی۔ ان کے Pets شاید کسی کمرے میں اُدھم مچا رہے تھے۔ ورنہ لاؤنج ہمیشہ ان کی آوازوں سے گونجتا تھا۔ وہ زرینہ کے کمرے کی جانب بڑھی۔ مگر اندر سے آتی آوازوں نے اس کے قدم زنجیر کر دیے تھے۔ وہ وہیں رک سی گئی۔ وہ سانس روکے سن رہی تھی۔ اس دن جمال سے ہوئی ملاقات بے اختیار نظروں میں گھوم گئی۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali