Episode 27 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 27 - صلہ - ایمن علی

اعفان باری سیٹی بجاتا خوش باش نسیم بادنی کے آفس میں داخل ہوا۔ وہ آج بے حد خوش تھا۔ پروڈیوسرز نے اسے زرینہ کی فلم میں اہم رول آفر کیا تھا اور خوشی سے وہ ادھر چلا آیا کیونکہ وہاں ”وہ“ تھی جسکی بدولت یہ سب ممکن ہوا تھا۔ وہ متبسم سا اس کے قریب چلا آیا جو اس کی پشت کیے فائلز میں کچھ دیکھ رہی تھی۔ نسیم صاحب کسی کام سے باہر نکلے تھے۔ کمرے میں وہ اکیلی ہی تھی۔
”میں نے کہا تھا نا یکدم رد عمل سامنے آئے گا۔ دیکھو سیکنڈ لیڈ (Second lead) کے لیے زرینہ نے خود میرا نام دیا ہے۔“ وہ اس کے عقب میں کھڑا بولا تھا۔ لڑکی چونک کر مڑی تھی۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں بے تحاشہ بے یقینی تھی۔ ”اور یہ سب تمہاری مدد کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔“ وہ مسکرایا۔ ”مگر زرینہ نے صلہ کو کچھ نہیں کہا۔

(جاری ہے)

کنٹریکٹ کی فائل ابھی بھی الماری میں ہے۔

“ لڑکی قدرے مایوس سی تھی۔
”بھئی انہوں نے سوچا اگر صلہ ان کی دوستی کو ترقی کے لیے سیڑھی بنا سکتی ہے تو میری خوشامد اور چاپلوسی کیا بری تھی۔ ”وہ استہزائینہ ہنستا بیٹھ گیا۔ ”وہ کتنی ہرٹ ہوئی ہونگی اس سب سے۔“ وہ دکھی سی لگ رہی تھی۔ ”کم آن اس خوشی کے موقع پر ایسی باتیں نہ کرو۔ سب کو زندگی سے اپنے لیے دھنک کے رنگ کشید لینے کا حق ہے تو یہ احساس جرم کیسا۔
“ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا جو بہت دکھی لگ رہی تھی۔
”وہ رات بھر جاگتی رہی ہے اعفان… روئی بھی ہو گی۔ تم نہیں جانتے اسے زرینہ سے راقبت نہیں عقیدت تھی۔ “وہ متاسف سی کہتی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ”جو بھی تھا۔ عقلمند وہی ہے جو اپنے لیے خود مواقع بنائے ورنہ انسان ترقی نہیں کر سکتا۔ قدرت نے ہمیں یہ موقع خواہ مخواہ نہیں دیا تھا۔“ وہ خوشدلی سے بولا چند لمحے خاموشی سے گزر گئے۔
اچانک وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ دیکھتا رہ گیا۔
”کل وہ پاکستان آ رہا ہے اعفان…“ وہ جاتے جاتے مڑی۔ وہ بے حد سنجیدہ لگ رہی تھی۔ اعفان مسکراتا اس کے پاس آیا۔
"Dont worry Huma" میرے والدین جلد ہی تمہاری طرف چکر لگائیں گے اور اس بار میں انکار نہیں سنوں گا۔ “ وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالتا محبت سے بولا۔ ہما کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ در آئی۔
مضحمل سی سوچوں میں گم وہ باہر نکل آئی۔ شرجیل سے انتقام لینے کے لیے اس نے صلہ سے دوستی داؤ پر لگا دی تھی۔ دل خالی خالی سا لگ رہا تھا۔ ٹھنڈی ہوا بالوں کو اس کے صبیح چہرے پر پھیلا رہی تھی۔ خلاف عادت اس نے انہیں سمیٹنے کا بھی تردد نہیں کیا۔ سینے پر بازو لپیٹے لب بھینچے وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہی تھی۔ اضطراب، بے چینی رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔
اس کے کزن نے امریکہ میں شیری کی شادی کے پکے ثبوت بھیجے تھے۔ کیونکہ ویسے وہ اس خبر پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھی۔ وہ پچھلے دنوں اپنی انگریز بیوی سے طلاق لینے کے تو کورٹ کچہری کے چکر لگا رہا تھا۔ اور اتفاقاً اس کی بیوی کا وکیل ہما کا ماموں زاد کزن تھا جو وہاں لاء پریکٹس کر رہا تھا۔ یہ بات شیری کے گھر والے بھی نہیں جانتے تھے۔ وہ اس لڑکی کو محض 2 سال بعد چھوڑ چکا تھا اور پاکستان آنے سے پہلے ہما کے والدین کو شادی کی تیاریوں کا کہہ کر گویا اس پر احسان عظیم کر رہا تھا۔
وہ تو ہمیشہ سے ایسا تھا۔ خود غرض، خودپسند اپنی ذات کے علاوہ اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔
سب کچھ جاننے کے باوجود اس کے گھر والے اس شادی کے لیے تیار تھے کہ اب ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ مگر وہ اسے معاف کرنے کو تیار نہیں تھی۔ لہٰذا اعفان سے رابطہ کرنے پر اسے مایویسی نہیں ہوئی۔ وہ بھی سمجھ گیا تھا۔ کہ سب وہ شرجیل سے شادی ٹالنے کے لیے کر رہی ہے۔
مگر وہ بھی اتنی آسانی سے اسے چھوڑنے والا نہیں تھا۔ وہ تب بھی سچ میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا اور آج بھی وہ تیار تھا۔ لیکن اسی بہانے اسے فلم مل رہی تھی تو اس میں کیا حرج تھا بھلا۔ صلہ کو کنٹریکٹ ملے ابھی دو دن ہی ہوئے تھے جب اس کے گھر والوں کو شرجیل کی شادی کا علم ہوا تھا۔ اس کے کزن نے براہ راست اسے بتایا تھا اور اتفاقاً انہی دنوں صلہ کی ڈائری اس کے ہاتھ لگی تھی۔
تو کیا قدرت اسے شیری سے بدلہ لینے کا موقع خود فراہم کر رہی تھی۔ جس شخص کے لیے اس نے سات سال بنواس کاٹا اس کی بے وفائی کا جواب بہرحال وہ اس سے بہتر نہیں دے سکتی تھی۔ اعفان کی فطرت سے وہ بخوبی واقف تھی۔ ڈائری دیے بغیر وہ ٹلنے والا نہیں تھا اور نہ ہی اس کے بغیر وہ اس کا کام کرنے والا تھا۔ خود وہ بھی زرینہ کی طرف سے پراعتماد تھی۔ ان کا غصہ آج یا کل اتر ہی جانا تھا۔
۔۔۔۔۔
وہ چیئر کی پشت پر سر ٹکائے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ شفاف سیاہ نظریں چھت پر ٹکی تھیں۔ ان کی پروقار سی شخصیت ایسے بے نیازی میں اور بھی دلکش محسوس ہوتی تھی۔ سامنے بڑے سے میز پر بند فائل تھی اور ساتھ ہی نازک سے فریم لیس گلاسز دھرے تھے۔ دروازے پر ہلکی سی دستک پر چونک گئیں۔ گلاس ڈور کے پار کھڑی صلہ کو دیکھ کر نامحسوس انداز میں انہوں نے سامنے پڑی فائل کھول لی۔
وہ متذبذب سی اندر داخل ہوئی۔ گلاسز لگائے انہوں نے خواہ مخواہ صفحات پلٹے۔ صلہ کے مطلوبہ ڈاکیومنٹس پہلے سے ہی نکال کر میز کے دوسرے کنارے رکھے گئے تھے۔
”مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔“ اس کے لہجے میں پنہاں التجا پر انہوں نے پل بھر کو سر اٹھایا۔ لائٹ پنک شکن زدہ لانگ شرٹ اور دھلا چہرہ بھی اس کے وجود کی بشاشت ظاہر کرنے سے قاصر تھا۔ آنکھیں متورم سوجھی ہوئی لگ رہی تھیں۔
وہ ایک دن میں صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی۔
”مجھے آپ کی یہ امانت واپس کرنی تھی۔ یہ آپ کی فائل۔ ان کی دی ہوئی فائل کے ساتھ اس نے آہستگی سے ایک سرخ کور والی فائل بھی رکھی۔“ اور کانٹریکٹ۔
"Please do consider eligible one. I don't think i'm too suitable for this job"۔
اس کا لہجہ بے تاثر تھا۔ زرینہ نے قدرے برہمی سے اسے دیکھا۔ ان کا انداز سوالیہ تھا۔ اس نے کنٹریکٹ کی فائل کھولی اور کچھ صفحات الگ کیے اور کچھ پیچھے۔
پھر ان کے سامنے موٴدب سے انداز میں کھول کر رکھ دی۔ زرینہ نے ایک بے توجہ نگاہ اس پر ڈالتے فائل پر مرکوز کی۔ تو وہ ٹھٹک گئیں۔ دستخط والا خانہ بالکل خالی تھا۔ یہیں نہیں بلکہ باقی دو جگہ بھی دستخط نہیں تھے۔ بلاشکن صاف ستھرے صفحات ان چھوہے ہونے کی چغلی کھا رہے تھے۔ انہوں نے متاسف سی بے یقینی سے اُسے دیکھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں تھا۔
کہ اس نے کسی میڈل کی طرح وہ فائل سجا کر رکھ دی تھی انہیں چند لمحے سمجھ ہی نہ آیا کہ اس بات پر کیا رد عمل ظاہر کریں۔
”مجھے آپ کی فلم یا کیرئیر سے کبھی کوئی غرض نہیں تھی اور یہ فائل میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ جنہوں نے مجھے یہ فائل دی تھی انہیں مجھ پر دوست ہونے کی حیثیت سے بھی اعتبار تھا۔ اور جب وہ ہی نہیں رہا تو اس فلم سے نام بنا کر مجھے کیا کرنا ہے۔
“ وہ بڑے متوازن انداز میں مخاطب تھی۔ زرینہ کو یکدم اشتعال آیا۔ یہ سب اس کے لیے مذاق تھا۔ ”اپنی ذاتی اور پروفیشنل زندگی کو الگ رکھنا سیکھو…“ وہ بے حد روکھے لہجے میں گویا ہوئیں۔“ "And stop trying to be emotional fool"۔
"I am not trying at all" اس نے بڑے اطمینان سے ٹوکا تھا۔
"I am an emotional fool" دونوں ہاتھ پشت پر باندھے اس کا انداز ہر جذبے سے عاری تھا۔
زرینہ اسے دیکھ کر رہ گئیں۔ پرسوچ نظروں سے اسے ٹٹولتے انہوں نے چیئر کی پشت سے ٹیک لگائی۔ جانے کیوں انہیں لگا کہ اس کے پیچھے کوئی اور وجہ بھی ہے۔
” اس بچگانہ حرکت سے تم نے مجھے بڑا مایوس کیا ہے صلہ۔“ وہ دکھ سے بولیں۔ ”جانتی ہوں۔“ اس کی آواز بھرا گئی۔ ”لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے درمیان آفیشل تعلق کبھی نہیں تھا اور نہ ہو سکتا ہے۔“ زرینہ کہنیاں میز پر ٹکائے ہاتھ باہم پھنسائے کرب سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔ اس نے آج بھی کوئی صفائی نہیں دی تھی۔ انہیں اس ریکارڈنگ سے زیادہ اس کے لکھے لفظوں نے تکلیف پہنچائی تھی۔ مگر صلہ کے رویے نے انہیں عجیب الجھن میں ڈال دیا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali