Episode 29 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 29 - صلہ - ایمن علی

”بظاہر بارش نارمل سی چیز ہے پانی کی چند بوندیں وہی چند بوندیں جو ہماری بلڈنگ کے پرنالوں سے ہوتی ہوئی دریا میں جا گرتی ہیں۔“ لیکن یہی بارش جب پکا سون کے کینوس پر جلوہ افروز ہوتی ہے تو اس کی عامیت یکدم ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کہانی کے کردار زندگی کے معمولی سے کرداروں میں سے ہی ہوتے ہیں۔ جیسے عنایا جہانگیر، جیسے رمنا جیسے ابرار… یہ سب عام سے کردار ہیں مگر صفحات پر ان کی کہانی آ جانے کے بعد یکدم خاص ہو گئے ہیں۔
میری کہانی میں کوئی ہیرو، کوئی ہیروئن اور کوئی ولن نہیں ہے۔ سب عام سے انسان ہیں، اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتے عام سے انسان۔ مگر عنایا جہانگیر میرے ماسٹر پیس کرداروں میں گنا جائے گا جب میں مر جاؤں گی۔“ 
زرینہ کو نریشن دیتے وقت اسے اپنے ان بڑے بولوں کے اس قدر بڑے ہونے کا ادراک نہیں تھا۔

(جاری ہے)

شاید یہ اس کے غرور کی سزا ہی تھی۔ جو اس نے اپنے ادنیٰ کام پر کیا تھا۔

کہیں دور زور کی بجلی کڑکی تھی۔ اس کی خالی خالی سی نظریں اپنے سے دو سیڑھیاں نیچے بھیکگتی اپنی فائل پر جمی تھیں۔ دو سال سے اس فائل میں بند لوگوں نے اسے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ اسے اپنے برف ہوئے احساسات پر حیرانگی ہو رہی تھی۔ اس کی دو سال کی محنت آب برد ہو رہی تھی اور اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
 زرینہ کے بغیر وہ اس کہانی کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
اپنے جذبات کی شدت کا اسے آج احساس ہو رہا تھا۔ بارش کی بوندوں کے ساتھ گرم پانی بھی روانی سے اس کی آنکھوں سے ہوتا چہرے پر بہہ رہا تھا۔ چہرے پر گیلے بال لٹوں کی مانند چپکے تھے۔ چہرے پر ہاتھ پھیرتی یکدم ٹھٹکی۔ آنسوؤں کے ساتھ بارش کے پانی کی آمیزش نہیں تھی۔ اس نے چونک پیچھے دیکھا تو آدرش اس پر چھتری تانے جانے کب سے کھڑا بھیگ رہا تھا۔ لحظہ بھر کو دنگ رہ گئی۔
پھر اس کے بارش سے شرابور کپڑے دیکھ کر اس نے بے ساختہ اسے اپنی جانب کھینچ لیا۔ 
وہ ہنوز اس پر چھتری تانے اس کے برابر آ کھڑا ہوا۔ ”کیا تمہاری مما بھی کھو گئی ہیں شلا۔“ اس نے اسے اپنے قریب کر لیا کیونکہ چھتری دونوں کو شیڈ دینے سے قاصر تھی۔ اس کے مما کہنے پر اسے بے ساختہ یاد آیا تھا کہ کل شیری آ رہا ہے۔“امی نے ابھی پرسوں ہی فون کر کے اطلاع دی تھی۔
وہ بہت خوش لگ رہی تھیں۔ اتنی خوش وہ پہلے کبھی نہیں تھیں۔ اس کے دل میں ہوک سی اٹھی تھی۔ گھر میں اس کی ضرورت پہلے بھی کچھ خاص نہیں تھی۔ اب شیری کے آ جانے سے رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی تھی۔ آدرش کی نظریں خود پر جمی دیکھ کر اس نے جلدی سے آنسو پونچھے۔
”کوئی بات نہیں شلا تم رو لو… پاپا کہتے ہیں رونا گڈہیبٹ ہے اس سے eyes اور ہارٹ میں پڑی ڈسٹ واش آؤٹ ہو جاتی ہے اور eyes بڑی بڑی اور پیاری لگتی ہیں۔
“ اس کے ناصمانہ انداز پر اس کے آنکھوں کے گوشے پھر سے بھیگنے لگے۔ ”مگر زیادہ مت رونا ورنہ لوگ تمہیں تنگ کریں گے ۔ مذاق اڑائیں گے تمہارا اور کوئی بھی تمہارے ساتھ نہیں کھیلے گا۔“ وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے پونچھتا بولا تھا۔ 
اس نے بے اختیار اسے بھینچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اس کے ساتھ کھیلنے والی بھی آج غیر ہو گئی تھی۔ کاش وہ نسیم انکل کے آفس کی طرف نہ گئی ہوتی اور اعفان اور ہما کی باتیں نہ سنی ہوتیں۔
کچھ تو بھرم رہ جاتا۔ وہ اس قدر تہی دامن تو نہ ہوتی۔ آدرش اس کے ساتھ لگا اپنے ننھے ہاتھ سے تسلی دینے کے لیے اس کا کندھا تھپتھپا رہا تھا۔ اس کے رونے میں اور بھی شدت آ گئی۔ بادل زور سے گرجے تھے۔ سب کچھ جیسے ریوائنڈ ہو رہا تھا۔
 زرینہ کا اتفاقاً ملنا، ان سے دوستی ہونا اور پھر ان کے کھانے پینے اور دوا کا خیال رکھنا۔ ہر دم ان کے ساتھ رہنا، ان سے ایکٹنگ سیکھنا اور پھر ان کی ڈانٹ کھانا۔
ان کا وہ خوبصورت سا گھر اور ان کے جانور ۔ ان کا ٹھنڈی اور تیکھی چیزیں کھانے سے پرہیز کروانا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے ان کا وہ پریشانی سمجھ جانا۔ پھر ان کی بے اعتباری وہ اجنبیت، آنکھوں کے رستے جیسے کراچی میں گزارا اب کی بار کا ایک ایک لمحہ باہر آ رہا تھا۔ ہما کے ساتھ گزارے وہ ماہ و سال، کتنی آسانی سے اس نے اس کے خوابوں کو توڑا محض شیری سے بدلہ لینے کے لی۔
اس سے شادی نہ کرنے کے لیے۔
آدرش نے اسے خود سے الگ کیا، اس کے آنسو پونچھے اور کسی بڑے کی طرح اسے تسلی دینے کے سے انداز میں ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور اس کا ہاتھ تھامے اپنے ساتھ لے گیا۔ بارش ہنوز تیز تھی۔ بادلوں کی گرج بھی ویسی ہی تند تھی۔ کینٹین کے سامنے اوپن ایئر چیئرز رکھنے جانے والا برآمدہ پانی سے بھر گیا تھا۔ صلہ کی فائل ہنوز تنہا سیڑھی پر پڑی بارش میں بھیگ رہی تھی۔
…#…
انہیں کراچی سے آئے تین روز ہو چکے تھے اور تب سے ہما اپنے کمرے میں بند تھی۔ شیری کئی بار اس سے ملنے اس کے گھر کے چکر لگا چکا تھا مگر وہ ہمیشہ ملنے سے انکار کر دیتی تھی۔ شیری کی باہر شادی اور امریکہ میں اس کی سرگرمیوں کے بارے میں ہما کے گھر والے خاصے مشکوک ہو گئے تھے۔ اگر اس نے نیشنیلٹی کے لیے شادی کی بھی تھی تو اسے اپنے گھر والوں سے بھی چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔
جانے اور کتنی باتیں تھیں جو اس نے چھپائی ہونگی۔ ہما کے والدین اور بڑے بھائی اپنے طور پر جانچ کروا رہے تھے مگر اس رشتے سے بہرحال وہ مطمئن نہیں تھے۔ ایسی صورت میں اعفان باری کے پرپوزل نے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا اور ہما نے ڈھکے چھپے الفاظ میں گھر والوں تک اعفان کے سلسلے میں رضا مندی دے دی تھی۔ اعفان کے والدین اس ہفتے شادی کی تاریخ رکھنے اور انگوٹھی پہنانے آ رہے تھے۔
دوسری طرف شرجیل کی شادی کی خبر کسی اور کے توسط سے ملنے کے باعث خود رحمان صاحب بھی اس سے خفا تھے جبکہ امی ہما کے گھر والوں کی طرف سے انکار کے بعد دکھی ہو گئی تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ ہما کوا پنی بہو کی صورت دیکھا اور سوچا تھا۔
شرجیل کے لیے اس قسم کا انکار کسی دھچکے سے کم نہیں تھا۔ اس نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہمیشہ سے اس کے نخرے اٹھانے والی، اس کا انتظار کرنے والی ہما، جسے ہمیشہ اس نے اپنا سمجھا اور شاید اپنی چیز سمجھ کر وہ کسی لا کر میں ڈال کر باقی چیزوں کی طرح بھول ہی گیا تھا۔
وہ اس طرح سے اس سے دور چلی جائے گی۔ امریکہ میں کی شادی کو اس کبھی اتنی اہمیت نہیں دی تھی کہ اس کا کسی سے ذکر بھی کرتا۔ وہ اس کے باس کی بیٹی تھی اور اس کے لیے محض امریکہ میں سیٹل ہونے کا ذریعہ پڑھائی کے ساتھ پارٹ ٹائم جاب اس کی شاہ خرچیوں کے لیے ناکافی تھی۔ وہاں گزارا وقت صعوبتوں سے پُر تھا۔ کئی بار جی چاہا واپس اپنے ملک بھاگ آئے مگر ابا سے کیے بڑے بڑے دعوے اور انا آڑے آ جاتی تھی اور اب جب وہ سب کچھ حاصل کر چکا تھا تو زندگی کا سب سے اہم جوا ہی ہار گیا تھا۔
پاکستان آنے کا مقصد ہی فوت ہوتا نظر آ رہا تھا۔
سارا دن کمرے میں بند رہنے کے بعد تھوڑی دیر کو باہر آتا اور گم سم سا بیٹھا رہتا۔ اس کی چھٹیاں ختم ہونے میں ہفتہ بھر ہی رہ گیا تھا۔ ابا ہنوز ناراض تھے۔ البتہ خاندان بھر کا گھر میں تانتا سا بندھا رہتا تھا۔ جب سے سب کو ہما کی شادی اعفان سے طے ہونے کا پتہ چلا تھا تب تے تمام خاندان کی لڑکیوں کے ماں باپ کی نظر اس امریکن نیشنل خوبرو نوجوان پر تھی۔ وہ سب سے خوش خلقی سے ملتا مگر اندر اندر ہی وہ واپس جانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ دادو کی طبیعت ناساز ہونے کے باعث وہ رکا تھا ورنہ کب کا جا چکا ہوتا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali