Episode 32 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 32 - صلہ - ایمن علی

آپریشن کامیاب رہا تھا اور دادو کو گھر لاتے ہی گھر میں شادی کے ہنگامے جاگ اٹھے تھے۔ ہما کی طرف سے مہمان پہلے سے آئے ہوئے تھے۔ رحمان اور عالیہ بیگم نے بھی خوب ارمان پورے کیے۔ سب کزنز شادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ صلہ خاموشی سے سب کام نمٹاتی اور کمرے میں چلی جاتی۔ اس نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ اپنے اکلوتے بھائی اور بیسٹ فرینڈ کی شادی میں وہ یوں غیروں کی طرح شریک ہو گی۔
وہ جلد از جلد گھر سے نکلنا چاہتی تھی۔ عجیب گھٹن کا احساس تھا جو اسے چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لیے ہوا تھا۔ ابا اور شیری کی ناراضگی ختم ہو گئی تھی اور دادو کو پھر سے اپنا ہنس مکھ بیٹا اور پوتا مل گئے تھے۔
ہما کا انتظار رنگ لایا تھا اور وہ اعفان جیسے آدمی سے بچ گئی تھی۔ عجیب سا طوفان اٹھا تھا جو سب کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈال گیا تھا۔

(جاری ہے)

سب اپنی اپنی خوشیوں کے خول میں سمٹ چکے تھے۔ اور وہ تنہا باہر بھٹکنے کو رہ گئی تھی۔ وہ کافی دن بعد کام پر آئی تھی۔ کراچی سے آنے کے بعد کی بے معنویت ہنوز برقرا رتھی۔ لکھنے بیٹھتی تو یوں لگتا جیسے سب فریب ہے دھوکہ ہے۔ کیا فائدہ کیا مقصد ہے بھلا لکھنے کا۔ کیا کرے گی وہ لکھ کر۔ چند صفحے کالے کر کے کیا حاصل ہو جائے گا۔ گھر میں سب کے ساتھ بیٹھتی تو یوں لگتا جیسے سب ایک سکرپٹڈ پلے کے تحت اپنی لائنز بول رہے ہیں۔
خواہ مخواہ ہنس رہے ہیں۔ کوئی ایک لفظ بھی تو ہمارا اپنا نہیں ہے۔ لکھنے والے نے بہت پہلے اس سٹیج کا اہتمام کرتے وقت اس کی ابتداء اور اختتام لکھ ڈالا ہے۔
 وہ سوچوں میں گم سڑک کے کنارے چل رہی تھی۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر سٹوڈیو واقع تھا وہ جان بوجھ کر پچھلے سٹاپ پر اتری تھی اور سر جھکائے پیدل یونہی چلی آ رہی تھی۔ زندگی پرچھائے جمود کو توڑنے وہ نسیم بادنی کے پروجیکٹ میں خواہ مخواہ شریک ہو گئی تھی۔
انہی سوچوں میں وہ پارکنگ سے گزر رہی تھی کہ کوئی اچانک مڑتے مڑتے اس سے ٹکرایا تھا۔ اس سے لگا وہ کسی پہاڑ سے ٹکرا گئی ہے۔ فائل اور پیپر دور جا گرے تھے۔ وہ بمشکل سنبھلتے بے اختیار سر تھام کر رہ گئی۔ ”دیکھ کر نہیں چل سکتے۔“ وہ ناک اور ماتھا سہلاتی چڑ سی گئی۔
”یہی بات میں بھی کہہ سکتا ہوں محترمہ۔“ بالاج گاڑی کا لاک چیک کرتا اسی تیزی سے بولا تھا۔
وہ قدرے چونک کر ایک سرد نگاہ اس پر ڈالتی اپنی چیزوں پر جھک گئی۔ بالاج خاموشی سے اسے چیزیں اٹھاتا دیکھتا رہا۔
چیزیں اٹھاتی وہ ایک طرف سے نکلنے لگی کہ بالاج رستہ روک وہیں کھڑا تھا۔ ”کیا مسئلہ ہے؟“ وہ زچ ہو کر غصے سے بولی تھی۔ بالاج کو خاصی حیرانگی ہوئی وہ تو ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے بھی ڈرے بغیر اس سے بات نہیں کرتی تھی۔”اس دن کیفے میں تمہارے ساتھ کون تھا۔
“ دل میں اٹھتا سوال زبان کی نوک تک اچانک آیا تو صلہ کے ساتھ خود وہ بھی چونک سا گیا۔
”آپ سے مطلب۔“ صلہ ابرو اچکاتی ناگواری سے بولی۔
”مجھے پتہ ہونا چاہیے کہ میرے بچے کس قماش کے لوگوں میں وقت گزارتے ہیں۔“ اس کے سنجیدگی سے کہنے پر صلہ تپ کر رہ گئی۔ ”کہہ کون رہا ہے۔“ وہ بے ساختہ خودکلامی کے سے انداز میں بولی جو اب بالاج نے واضح سنی تھی۔
اس کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔
”اپنی چیزیں خود جان بوجھ کر خراب کرتی ہو یا فطرتاً ایسی ہو۔“ اس کے سرد سے لہجے میں کہے الفاظ پر اس نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اس کا والٹ نیچے قدرے دور جا گرا تھا۔ وہ خفیف سی ہوتی والٹ پر جھک گئی۔
”اعفان جیسے الو کی باتوں میں بھی کوئی آ سکتا ہے وہ بھی اتنی آسانی سے۔ یہ مجھے نہیں پتا تھا۔
“ وہ زیرلب مسکراتا بولا۔ صلہ ناسمجھی کے عالم میں اسے تکنے لگی۔ ”کم از کم ہما سے مجھے ایسی امید نہیں تھی۔ یا پھر یہ عورت نامی مخلوق ہوتی ہی عقل سے پیدل ہے۔“ وہ بڑے اطمینان سے اس پر چوٹ کرتا بولا تھا۔ وہ یکدم سیدھی ہوئی تھی۔
”آپ سے بحث کرنے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ آپ نے جو سمجھنا ہے سمجھیں۔ آپ کو ویسے بھی دوسروں پر ہنسنے کا موقع چاہیے۔
“ وہ خلاف توقع بھڑکی نہیں۔ بلکہ بڑے متوازن انداز میں بولی تھی۔
”ذرا سی بات پر سنہرا موقع ٹھکرا دینا بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے“ وہ قدرے سنجیدگی سے بولا تھا۔
”آپ کے لیے ہر بات معمولی ہوتی ہو گی میرے لیے نہیں ہوتی۔“ وہ سائیڈ سے ہوتی نکلی پھر یکدم مڑی تھی۔” اور ہاں بے فکر رہیے اب میں آپ کے بچوں سے کبھی نہیں ملوں گی۔ انہیں اپنے گھر کے شریفانہ ماحول میں سنبھال کر رکھیں بظاہر وہ طنز یا بولی مگر دل پر بھاری پتھر سا آ پڑا تھا۔
ایک آدرش ہی تو تھا اس گھٹن زدہ ماحول میں ایک روزن کی طرح۔ وہ چند لمحے سوچ کر رہ گئی۔ اب راہِ فرار کہاں تلاشے گی۔ بالاج اس کے قریب آیا۔
”کسی نے ایک بار کہا اور تم نے فوراً چھوڑ دیا۔ تم اتنی سیدھی ہو یا بنتی ہو۔ صلہ نے ایک بیزار سی نظر اس پر ڈالی۔ وہ گہری نظریں اس پر مرکوز کیے ہوئے تھا۔ اس نے بے اختیار نظریں چرائی تھیں۔ اس کے دیکھنے کا انداز عجیب سا تھا۔
”کہاں تو یہ عالم تھا کہ نسیم کے کام پر شریک نہ ہوتے ہوئے بھی حق سے سب پر رعب جماتی ہو اور کہاں ذرا سی بات پر زرینہ اور اب آدرش کو بھی چھوڑنے کو تیار کھڑی ہو… خاصی بیوقوف معلوم ہوتی ہو۔‘’‘ وہ سینے پر بازو لپیٹے سامنے کھڑی لڑکی کو نظروں میں جذب کرتا بولا۔ صلہ نے یکدم سر اٹھایا اس کی نگاہیں بھیگ گئی تھیں۔ وہ ٹھٹک سا گیا۔ پھر سر جھٹک کر استہزائیہ کہہ کر ہنس دی۔
”جو چیز اپنی ہی نہ ہو اس پر کیا حق جمانا۔“ وہ رکی نہیں بالاج کو بے اختیار افسوس سا ہوا۔ یہ ساڑھے پانچ فٹ کی لڑکی اس کے چار سالہ بیٹے کی بیسٹ فرینڈ تھی۔ اگر وہ اس سے نہیں ملے گی تو وہ اداس ہو جائے گا۔ وہ سوچ کر رہ گیا۔
سارا دن کام میں مصروف ہونے کے باوجود اسے کسی کی گہری نظریں خود پر جمی محسوس ہوتی رہیں مگر وہ جب بھی اِدھر اُدھر دیکھتی تو سب کاموں میں مصروف ہوتے۔
وہ سر جھٹکتے کام میں لگ جاتی۔ مگر یہ احساس ہنوز قائم تھا۔ ویسے بھی دل بوجھل سا تھا۔ آدرش سے نہ ملنے کا مطلب وہ بخوبی سمجھتی تھی۔ ہر پسندیدہ چیز چھوڑ دینے کی شاید عادت سی ہو گئی تھی۔
…#…
”آپ کو دادی بلا رہی ہیں آپی۔“ صلہ الماری کھولے کھڑی تھی جب کشف اندر داخل ہوئی۔
”اچھا آتی ہو۔“ وہ الماری بند کر کے اس کے ساتھ باہر نکل آئی۔
”آپ آج کام پر نہیں گئیں۔“ کشف نے سرسری سا پوچھا۔ وہ اس سے آگے اترتی پل بھر کو پوچھنے رکی۔
”ہاں بس موڈ نہیں تھا۔“ اس کے کہتے وہ کندھے اچکاتی نیچے بھاگ گئی جہاں لاؤنج میں ٹیبل پر ہما اور امی کپڑے پھیلائے بیٹھی تھیں۔ وہ اچٹتی نگاہ ان پر ڈالتی آگے بڑھ گئی۔
”صلہ یہ سوٹ دیکھو۔ اچھا ہے نا۔“ اس کو جاتا دیکھ کر امی پکار اٹھیں۔
وہ لمحہ بھر کو مڑی۔
”آپ کی بہو ہے نا اس سے پوچھیں۔“ اس کے سپاٹ سے انداز پر کہنے پر وہ دونوں چونکیں ہما نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ جو لاتعلق سی کھڑی تھی۔ امی ہنس دیں۔
”بھئی یہ بہو بعد میں ہے پہلے تمہاری دوست ہے۔ تمہی تو کہتی تھیں۔ بھول گئی کیا؟“ وہ بشاشت سے بولتیں دوسرا سوٹ اٹھا کر دیکھنے لگیں۔ ہما کی نظروں میں خوف سا بھر آیا۔
وہ پھیکی سی ہنس دی۔ ”کاش بھول سکتی۔“ کہہ کر وہ تیزی سے دادو کے کمرے کی جانب چل دی۔ ہما بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔ اس کی شادی کو دو مہینے بیت چکے تھے۔ اور اس دوران اس نے ڈھنگ سے کسی سے بات نہیں کی تھی۔ یا توکچن میں مصروف ہو جاتی یا پھر کام پر یا کمرے میں۔ ہما نے کئی بار اسے منانے کی کوشش کی مگر وہ یوں ظاہر کرتی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور وہ ناراض ہی نہیں ہے۔
مگر اس کی سرد مہری اور خاموشی اسے ہر وقت خود سے شرمندہ رکھتی تھی۔ اس نے خود شکوہ شکایت تو کی نہیں مگر ہما سے منانے کا حق بھی جیسے چھین لیا تھا۔“ ہما یہ والا دیکھ۔ یہ واپس کر دیتے ہیں ڈیفکٹڈ پیس لگ رہا ہے۔“ امی کے کہنے پر وہ خیالوں سے چونکی۔ پھر بے دھیانی میں دیکھنے لگی۔ یکدم جی اچاٹ ہو گیا تھا۔
دادو حسب معمول پلنگ پر نیم دراز کتاب کے مطالعے میں گم تھیں۔
بائی پاس کے بعد وہ کافی کمزور ہو گئی تھیں۔ مطالعہ کا شوق پہلے بھی تھا مگر اب ریسٹ کرنے کے باعث وہ اکثر کتابوں سے ہی شغف کرتی پائی جاتیں۔
”بلایا تھا آپ نے دادو۔“ صلہ مسکراتی نظر ان پر ڈالتی بولی۔
”ہاں پتر۔ شیری کچھ کتابیں لایا تھا۔ دیکھ لے۔“ انہوں نے ریک کی جانب اشارہ کرتے کتاب پر نظریں مرکوز کی تھیں۔ وہ ریک کی جانب بڑھ گئی جہاں زیادہ نہیں مگر خاصی تعداد میں سلیقے سے کتابیں رکھی تھیں۔
دادو زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی مگر پڑھنے کا شوق بہت تھا۔ خالص پنجاب گھرانے سے تعلق ہونے کے باعث ان کی اردو زیادہ تر کتابوں تک محدود تھی۔
”یہ تو سب فلسفہ اٹھا لایا ہے وہ۔“ وہ سرسری معائنہ کرتی بولی۔ تو فلسفہ بھی تو ز ندگی سے ہی نکلا ہے جیسے تمہاری فیری ٹیلز کہانیاں۔“ وہ شگفتگی سے گویا ہوئیں۔
”فلسفہ کہانی کچھ نہیں ہوتا۔
بس تقدیر ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ کچھ کریں نہ کریں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ وہ کتاب لے کر ان کے ساتھ ہی پلنگ پر نیم دراز ہو گئی۔
”اور انسانی کوشش والے فلسفے سب بیکار… لڑکی اتنی مایوسی والی باتیں تو، تو نے تب بھی نہیں کی تھیں جب میڈیکل کے انٹری ٹیسٹ میں فیل ہوئی تھی۔“ وہ اپنے مخصوص انداز میں گویا ہوئیں۔ ناکامیوں کی لمبی فہرست تھی اس کے پاس ۔
وہ افسردگی سے سوچ کر رہ گئی۔ پھر سر جھٹکتی کتاب کھول دی۔
”مجھے وہ چہرے پسند ہیں جو اپنی اندرونی کیفیات کا آئینہ بن جائیں۔“ انہوں نے صفحہ پلٹتے کہا۔
”یہ ڈائیلاگ اس کتاب میں ہے کیا۔ ”صلہ مسکراہٹ دباتے پوچھنے لگی تو دادو کے تادیبی نظروں سے نوازنے پر مصنوعی سنجیدگی طاری کر لی۔
”جو لوگ اپنے احساسات چھپاتے ہیں ان کے چہرے کی نرمی غائب ہو جاتی ہے اور کرختگی آ جاتی ہے۔
“ وہ ہنوز کتاب پر نظریں جمائے تھیں۔
”میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہم اپنی اندرونی کیفیات اور احساسات چھپالیں تو بہت سی تکالیف سے بچ سکتے ہیں۔“ وہ کھوئے کھوئے سے انداز میں بولی۔ دادو نے بغور اسے دیکھا تو یکدم نارمل ہوئے گویا ہوئی۔” چھوڑیں ان بور باتوں کو۔ دکھائیں کیا پڑھ رہی ہیں آپ؟“ دادو نے کتاب بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور چشمے بھی۔
”تیری اور ہما کی کوئی لڑائی ہوئی ہے۔“ وہ اسی کی جانب متوجہ تھیں وہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔ اس سوال سے بچنے کی غرض سے وہ گھر والوں سے بھاگتی رہتی تھی۔ ”نہیں تو۔“ اندر اٹھتے ابال کے باوجود فقط اتنا ہی کہہ پائی۔
”پتر یہ جو بال ہیں نا یہ دھوپ میں سفید نہیں کیے میں نے۔ یہ شادی میں نے اس لیے نہیں کرائی تھی کہ تم تینوں منہ اڈھ کر (پھلا کر) بیٹھ جاؤ۔
”تینوں مطلب“ وہ حیران ہوئی۔ اسے تو لگتا تھا کہ وہ دونوں اس شادی سے خوش و مطمئن ہیں۔
”ہما کو جب دیکھو گم سم رہتی ہے۔ شیری خواہ مخواہ ہنس کر خوش ہونے کی اداکاری کرتا پھر رہا ہے۔ دونوں ڈھنگ سے بات بھی نہیں کرتے۔ پہلے میں نے سوچا کہ ہما ضدی ہے ابھی تک ناراض ہو گی۔ ست سال کم نہیں ہوندے (ہوتے)۔ پر کراچی سے آنے کے بعد جو چپ تو نے سادھ لی ہے۔
اس سے تو یہی لگتا ہے کہ تجھے وجہ پتا ہے۔“ وہ تشویش سے بول رہی تھیں اور وہ حیران و پریشان سی بیٹھی تھی۔
”مجھے کیا پتا دادو۔ یہ ان کے آپس کا معاملہ ہے۔“ وہ ان کے ساتھ ہی دراز ہو گئی۔
”اچھا تو پھر کام میں تیرا دل کیوں نہیں لگ رہا۔ پہلے کوئی سنے نہ سنے، ساری دن کی روداد تو نے سنانھی ہوتی تھی۔ کہ کس فنکار سے ملی کس نے تیری بستی کی یا تعریف کی تو نے کیا جواب دیا۔
یہ کراچی سے آنے کے بعد ہی سے کیوں دل اچاٹ ہوا ہے تیرا۔“ وہ آج فل بحث کے موڈ میں تھیں۔ صلہ پہلو بدل کر رہ گئی۔
”بس جی اٹھ گیا ہے دادو اس نوٹنکی سے۔ ویسے بھی کیا رکھا ہے اس فیلڈ میں۔ نہ نام نہ دولت۔ وہ بیزاری سے بولی تو دادو بھی چونک اٹھیں۔ انکا شک سہی تھا۔
”دیکھ صلہ پتر۔ مجھے نہیں پتا تم دونوں کے درمیاں وہاں کیا معاملہ ہوا ہے۔
ہما نے تیرے ساتھ جو بھی کیا وہ تیری تقدیر تھی پتر۔ وہ نہ کرتی تو کوئی اور کر دیتا۔ اور تیری تقدیر لکھنے والا ستر ماؤں سے زیادہ محبت رکھتا ہے تجھ سے وہ تیرے لیے برا تو نہیں سوچے گا نا۔ اسے رب سوہنے کی مصحلت جان کر صبر کر اور دل سے اسے تسلیم کر۔ تاکہ تیرے رویے سے ظاہر ہو۔ وہ تیری بڑی سے بڑی غلطی معاف کر سکتا ہے تو تو اس کی بندی کی چھوٹی سی بات کو درگزر نہیں کر سکتی۔
ایسا چھوٹا دل تو نہیں تھا میری صلہ پتر کا۔“ وہ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتی گویا تھیں۔ صلہ کا دل بھر آٰیا۔
”اس نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا دادو۔“ اس کا لہجہ نم ناک ہو گیا۔
”بس بھول جا جو بھی ہوا۔ اللہ اور بہترے دے گا۔“ دادو نے تسلی دی۔ ”اور دولت شہرت تو آنی جانی چیز ہے۔ اس کا کیا رونا۔ اصل بات تو شوق کی ہے۔ مجھے بس یہ پتا ہے کہ میری پوتی کو یہ کام کرنا اچھا لگتا ہے۔
وہ خوش ہے یہ کام کر کے۔ تو لوگوں کی پرواہ مت کیا کر۔ اپنی زندگی جی۔ بعد میں تو بس وہ مثل یاد آتی ہے کہ بھول گئے راگ، رنگ بھول گئے چھکڑی، اور تین چیزیں یاد رہیں، لون، تیل، لکڑی۔“ صلہ بے ساختہ مسکرا دی۔ ان کی باتیں سن کر دل پر چھائے یاسیت کے گہرے بادل قدرے کم ہو گئے تھے۔ کچھ نہ بتا کر بھی دل کا بوجھ بہت ہلکا ہو گیا تھا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali