Episode 35 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 35 - صلہ - ایمن علی

گاڑی پُرہجوم سڑک پر سبک رفتاری سے بڑھ رہی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان عذیر بیک ویو مرر سے گاہے گاہے پیچھے لا تعلق سی بیٹھی صلہ پر نظر ڈال رہا تھا۔ فرنٹ سیٹ پر شیری اور صلہ کے ساتھ ببل چباتی خوش باش ہما بیٹھی تھی۔
گاڑی سمندر کنارے سے گزر رہی تھی۔ صلہ نے بے اختیار نظریں چرائی تھیں۔ سمندر سے اُسے عشق تھا مگر اس کی فائل اب تک کسی ندی نالے سے گزرتی ورق در ورق بکھری پڑی ہو گی۔
اسی سمندر میں۔ فائل کا سوچتے دل میں ٹیس سی اٹھتی تھیں۔ وہ اب کبھی کراچی نہ آنے کا عہد کر چکی تھی۔ مگر وہ دونوں اسے کسی طور لاہور چھوڑنے پر راضی نہ تھے۔ جانے ہما نے شیری کو کیا کہا تھا جو وہ اتنی آسانی سے مان گیا تھا۔ اور عذیر کی وجہ سے امی بھی مصر تھیں کہ وہاں جانے سے شاید اس کا فیصلہ بدل جائے۔

(جاری ہے)

لیکن وہ سب یہ نہیں جانتے تھے کہ یہاں سے جڑی خوشگوار اور تلخ یادیں اس کے قدم جکڑ لیتی تھیں اور جو بار بارو پیچھے دیکھے وہ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے۔

2 سال جس مسودے پر اس نے بے حد محبت اور محنت سے کام کیا وہ اچانک اس قدر خاموشی سے دنیا سے مٹ گیا اور کسی کو نہ خبر ہوئی اور نہ فرق پڑا۔ یہاں تک کہ خود وہ جو اس مسودے کو اپنا ماسٹر پیس سمجھتی رہی اور اس کے بغیر زندگی کا تصور محال تھا، اب بھی زندہ تھی اور زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ بس اتنا ہوا تھا کہ وہ لفظوں سے محروم ہو گئی تھی۔
گہری سانس لیتے اس نے آنکھیں موند لیں۔ آج بڑے دن بعد وہ کہانی اور اس سے جڑے کردار یاد آنے لگے تھے۔ اگرچہ سب کردار افسانوی تھے مگر رمنا بتول اور فاروق بالترتیب صلہ، ہما اور شیری سے ملتے جلتے لوگ تھے۔ اور وہ مرکزی کردار بھی نہیں تھے۔ 
وہ اپنے لکھے ان کرداروں کو حقیقت میں بسے ہما شیری اورصلہ پر محمول کر بیٹھی تھی۔ بتول، رمنا کی دوست نہ ہوتے ہوئے بھی ہر مشکل میں اس کے ساتھ تھی جبکہ ہما نے بہترین دوست ہوتے ہوئے اسے وہاں دغا دیا تھا جہاں اس نے سوچا تک نہ تھا۔
مرکزی کردار عنایا جہانگیر، زرینہ سے یکسر مختلف خصوصیات اور خامیوں کا حاصل تھا۔ ان سے اس اتفاقیہ ملاقات کے بعد جانے کیوں اسے عنایا کی جھلک ان میں دکھائی دینے لگی تھی۔ وہ عنایا جو رمنہ کی کچھ نہیں لگتی تھیں۔ ایک اتفاقیہ ملاقات میں جو حقیقت کی اتفاقیہ ملاقات سے مختلف تھی، ان دونوں کو خون کے رشتے سے زیادہ مضبوط رشتے میں باندھ دیتی ہے۔
 کہانی عنایا کے گرد گھومتی ہے مگر اس وقت اسے رمنہ کے گرد گھومتی محسوس ہو رہی تھی۔ عنایا کے کردار سے اسے محبت محض اس وجہ سے تھی کہ وہ اسے تحفے کے طور پر ودیعت ہوا تھا۔ کہانی لکھتے یا شروع کرتے وقت ایسا کوئی کردار اس کے ذہن میں نہیں تھا۔ اس اتفاقیہ ملاقات میں وہ کردار اچانک جیسے اس کے قلم میں آ سمایا اور خود کو لکھواتا چلا گیا۔
اپنے آغاز سے لے کر انجام تک اس کردار نے جیسے خود اپنا آپ اس کہانی میں منوایا۔ اور عام سی کہانی اس کے لیے بے حد خاص ہو گئی اور اسی دوران زرینہ سے ملاقات نے گویا اس کی تخیلاتی دنیا کو چار چاند لگا دیے تھے۔ لیکن پھر ہما اور زرینہ کی اچانک بداعتمادی اس کے لیے شدید جھٹکا ثابت ہوئی۔ اب اگر ذہن میں آئیڈیاز بھی کلبلائیں تو وہ گھنٹوں خالی صحفات کو گھورتی رہتی مگر ایک لفظ ڈھنگ سے نہ لکھ پاتی۔
گاڑی کو ہلکا سا جھٹکا لگا تو اس کی محیوت ٹوٹ گئی۔ شاید کوئی سپیڈ بریکر تھا۔ باہر منظر بدل گیا تھا۔ اب وہ کسی پارک کی ذیلی سڑک سے گزر رہے تھے۔ وہ بے بسی سے سوچتی رہ گئی۔ کس قدر بے یقینی تھی اس وقت جب اس نے زرینہ کو انکی گاڑی کی طرف آتے دیکھا تھا۔
اس نے زبردستی دھیان ہٹانے کو ہما کا فون اٹھایا اور گیم کھیلنے لگی۔ وہ الگ بات تھی کہ اس کا دھیان پارک کی خوشنما پھولوں میں الجھ چکا تھا۔
…#…
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
سکون اتنا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ سست روی سے قدم اٹھا رہا تھا۔ سردی کے باوجود کافی لوگ ساحل سمندر پر چھٹی منانے آئے تھے۔ کہ شاید کراچی میں اس سے سستا شغل کوئی بچا نہیں تھا۔ اسے مستقل لاہور سے کراچی شفت ہوئے چھ ماہ ہو چکے تھے۔ اس فائل کو پڑھنا آئینہ دیکھنے کے برابر تھا۔
اور آئینے میں اگر اپنا عکس بھیانک لگے تو کون برداشت کرتا ہے۔ وہ بھی نظریں چرا کر بھاگ آیا تھا۔ خود کو مطلق العنان سمجھنے والا، حالات کو ذمے دار ٹھہرانے والا یکدم خود کو مجرم محسوس کرنے لگا تھا۔ 
زندگی میں بعض لمحات ایسے ہوتے ہیں جن کی قید میں ہمارا آنے والا ہر فیصلہ ان کا پابند ہو جاتا ہے۔ وہ بھی اسی لمحے کی قید میں آ گیا تھا۔
ابرار کا کردار اس سے ملتا جلتا تھا اور اس کا انجام پڑھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ جسے خاندان کے بڑے بڑے پیر نہ سدھار سکے اسے ایک عام سی کہانی نے چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ یہ شکست وہ اب تک تسلیم نہ کر پایا تھا۔ اپنی سوچوں میں گم چلتے اس کے قدم یکدم رکے تھے۔ اس کی نظروں میں استعجاب در آیا۔ پھر سر جھٹکتے وہ آگے بڑھنے لگا مگر اس بنچ سے آگے ایک قدم نہ بڑھا سکا۔
وہ واقعی وہی تھی، ابرار اور رمنا کا کردار لکھنے والی۔ اس لڑکی کو ان چھ ماہ میں اس نے جی بھر کوسا اور جی بھر کر سراہا تھا۔
 ہر متضاد کیفیت میں اسے وہ یاد آئی تھی۔ وہ اب جیسے تھک سا چکا تھا۔ بے یقینی، اضطراب، بے چینی ہر قسم کی کیفیت سے دل پر طاری ہو رہی تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح اس کی جانب پشت کیے اپنی سوچوں میں گم تھی۔ ”صلہ…“ اس نے گھبرا کر پکارا تھا۔
اس کی آواز اتنی مدھم تھی کہ صلہ محض وہم کے گمان میں مڑی تھی۔ پھر چونک سی گئی۔ اس کی نظروں میں بے اختیار ناگواری در آئی تھی۔ بالاج کو اس کی ناگواری دیکھ جیسے اس کے حقیقتاً ہونے کی تسلی سی ہوئی۔ وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح اس کے ساتھ بینچ پر آ بیٹھا۔ اور حسب توقع بینچ کے دوسرے سرے سے جا لگی۔ وہ بے اختیار مسکرا دیا۔ اس کے گریز کو اس نے ہمیشہ اپنی ہتک گروانا تھا۔
مگر آج وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ محض اس سے خوف زدہ تھی۔ اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ سیاہ لانگ قمیض پر لانگ سویٹر پہنے دوپٹہ ایک کندھے پر یونہی جھول رہا تھا۔ خلاف معمول آدھے بال کیچر میں مقید تھے۔ ستوران ناک سرخ ہو رہی تھی۔ بالاج کی گہری نظریں خود پر جمی دیکھ کر وہ سخت کبیدہ خاطر ہوئی۔ اور ادھر اُدھر ہما اور شیری کی تلاش میں دوڑائی۔ قریب وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیے۔
وہ بدمزہ سی ہوئی۔ اب اس شخص کی طنزیہ اور تمسخر اڑاتی باتیں برداشت کرنے کا حوصلہ اس میں نہ تھا۔ جی کڑوا کرتے وہ جیسے خود کو اس کے طنزیہ باتوں کے جواب تیار کر رہی تھی۔ عرصے سے غصہ اتارنے کو کوئی ملا بھی تو نہیں تھا۔
”جمال یوسف کا سن کر افسوس ہوا۔“ اس کے آہستگی سے کہنے پر وہ دنگ ہی تو رہ گئی تھی۔ وہ اب سامنے دیکھ رہا تھا۔ سو وہ فیصلہ نہ کر پائی کہ وہ طنز کر رہا ہے یا سنجیدہ ہے۔
”آج مذاق اڑانے کو کوئی نہیں ملا آپ کو۔“ وہ استہزائیہ ہنسی۔
”مجھے واقعی افسوس ہے۔ تمہارے لیے نہیں بلکہ اس شخص کے لیے جس نے ہیرا چھوڑ کر پتھروں سے دامن بھر لیا۔“ وہ سنجیدگی سے کہتا سگریٹ سلگانے لگا۔ صلہ اندر ہی اندر جھنجھلائی۔ پھر وہی خوبصورت لفظوں کا مایا جال۔
سگریٹ کا گہرا کش لیتا بالاج علی شاہ آج بہت تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔
آنکھوں کے گرد حلقے، رف سا حلیہ، بڑی محنت سے سلیٹ کیے بال یونہی ماتھے پر بکھرے تھے۔ احساس تفاخر سے لبریز اور دوسروں کا تمسخر اڑاتی نظروں میں عجیب ویرانی سی تھی۔ اس کی سیاہ پرکشش آنکھیں جو ہمیشہ بولتی محسوس ہوتی تھی آج بہت خاموش سی تھیں۔ اس سادہ سے بھورے شلوار سوٹ پر جیکٹ پہنے وہ پہلی دفعہ معصوم قدرے مظلوم سا لگ رہا تھا۔ ”کیا دیکھ رہی ہو۔
“ اس نے اس کی محویت بھانپتے دلچسپی سے پوچھا تھا کہ ایک بار سہی اس نے جی بھر کر دیکھا تو۔ وہ خفیف سی ہو کر رخ پھیر گئی۔“ دیکھ رہی ہوں کہ آج وڈیرہ بالاج علی شاہ کی شاید طبیعت خراب ہے۔“ وہ دھیرے سے ہنس دیا۔
” اس وڈیرہ سسٹم سے نفرت تھی۔ تبھی تو بیوی بچوں سمیت وہاں سے شہر چلا آیا۔ سب نے اسے بیوقوفی قرار دیا کہ کون اپنی سلطنت چھوڑ کر جاتا ہے۔
مگر مجھے عام گھریلو زندگی گزارنی تھی۔ ایک گمنام سی زندگی۔ مگر وقت کے ظالم تھپیڑوں نے کہاں لا کھڑا کیا ہے۔“ وہ پیچھے ہو کر بیٹھا۔ آتے جاتے لوگ عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔
”اس انسانی ریلے میں ایک بھی اپنا نہیں ہے۔ دیکھو زرا آج میں چہرے پر چڑھایا خوبصورت نقاب گھر چھوڑ آیا ہو تو کوئی پہچان تک نہیں رہا۔“ وہ جیسے خود پر ہنسا تھا۔
اس کی ہر حرکت سے اضطراب نمایاں تھا۔
”دنیا کے اس اسٹیج پر سب کا یہی المیہ ہے۔ ہر کوئی اپنی شناخت ڈھونڈنے نکلا ہے کوئی صنم، کوئی خدا ڈھونڈنے نکلا ہے۔ مگر عشق کا رتبہ تو عشق ہی جانے یا پھر وہ خدا جس نے اپنے محبوب کے عشق میں یہ میلا سجایا ہے۔ ہماری ادنیٰ کوششیں، ہماری ناقص عبادتیں بھلا کہاں اس لائق ہیں کہ خالی صنم کو ہی پا لیں۔
خدا کو پانا تو دور کی بات ہے۔ جسے چاہا معراج کر دیا، جسے نہ چاہا لاکھ صحرا، جنگل کی خاک چھانی، اسے مٹی میں رول دیا۔ سب بات نصیب کی ہی ہے۔“ وہ سامنے دیکھتی جیسے خود کلامی کر رہی تھی۔ بالاج کو جھٹکا سا لگا تھا۔ عنایا جیسی انسانی کو شش کی مثال سے بھرپور کہانی لکھنے والی حددرجہ قنوطیت کا شکار لگ رہی تھی۔
”تم محض تصویر کا ایک رخ دیکھ رہی ہو کیونکہ ہاتھ چھوڑ کر بیٹھ جانا بہت آسان ہے۔
لیکن تم بھول رہی ہو انسان کا مقام اس کی جدوجہد طے کرتی ہے۔ اس کا نصیب معراج ہو یا مٹی میں رلنا اس سے قطع نظر وہ جی جان سے محنت کرتا ہے۔ انسان جیسی باغی مخلوق کے قدموں میں اگر تقدیر نام کی بیڑیاں نہ ہوں تو ہر کوئی فرعون بن کر بیٹھ جائے۔“ پرسوچ انداز میں کہتا وہ کوئی الگ ہی بالاج لگ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ شاید وہ مایوسی میں حد سے بڑھ رہی تھی۔ اس نے بے اختیار جھرجھری سی لی۔ چند لمحے یونہی خاموشی سے گزر گئے۔ وہ سگریٹ کے دھوئیں میں جانے کیا کیا اڑاتا رہا۔
”آدرش کیسا ہے۔“وہ بے اختیار پوچھ بیٹھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس سے ملے صدیاں بیت گئی ہوں۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali