Episode 36 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 36 - صلہ - ایمن علی

”ٹھیک ہے۔ تم سے ملنے کی اکثر ضد کرتا ہے مگر مجھے اسے بہلانا آ گیا ہے۔ جیسے خود کو بہلا لیا ہے۔ ”وہ توقف کو رکا۔“ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ وہ بھی کبھی بھی تم سے ملے۔“ پھر اس کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔ ”پوچھو گی نہیں کہ کیوں۔“ صلہ ہنس دی۔
” اس میں پوچھنے والی کونسی بات ہے۔ آئی نو یو ہیٹ می۔ ایز ایم ناٹ یور ٹائپ۔ آپ کے بچوں کو بگاڑ دوں گی وغیرہ وغیرہ۔
“ ٹانگ پر ٹانگ رکھے وہ اطمینان سے بولی تھی۔ وہ ہنس دیا۔ ایک عرصہ خود کو یہی کہتا تسلی دیتا رہا تھا۔
”میں نے اسے رکا کیونکہ میں ابرار نہیں بننا چاہتا صلہ۔“ اس کی گھمبیرآواز گونجی تھی۔ صلہ دم بخود رہ گئی۔ چند لمحے وہ کچھ بول ہی نہ پائی۔
”فائل میرے پاس ہے۔ میں نے وہاں سے اٹھائی تھی۔ شروع کا کچھ حصہ ضائع ہوا ہے مگر باقی تھوڑی تگ و دود کے بعد قدرے قابل فہم ہے۔

(جاری ہے)

“ اس کی بے یقینی بھانپتے اس نے خود ہی بتایا۔ تو صلہ کا جیسے سکتہ ٹوٹا۔
”آپ ابرار کیسے ہو سکتے ہیں۔ وہ عام شکل و صورت کا کامپلیکس زدہ آدمی تھا جو۔“ اس کے بے تاثر لہجے میں کہے جملے کو اس نے بیچ میں کاٹ دیا۔
”جو ساری دنیا سے اپنی بدصورتی کا بدلہ لینے نکلا تھا۔ جسکا مقصد خوبصورت لوگوں کو نیچا دکھانا تھا۔ میں ابرار ہی ہوں صلہ۔
“ وہ تھکن زدہ لہجے میں بولا تھا۔ اس کی نظروں میں ڈھیروں حیرت در آئی۔ اس نے تو کبھی بالاج اور ابرار کے درمیان مشترک قدروں پر غور ہی نہیں کیا۔
”سارا بچپن اپنے خوبصورت کزنز اور بھائیوں کے درمیان Ugly duckling کی طرح منہ چھپاتے گزر گیا۔ کالج سے فارغ ہی ہوا تھا کہ ہادیہ جیسی خوبصورت کزن سے جمیری شادی کروا دی گئی۔ میرے تو قدم زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے۔
اس کی خاطر اپنی سلطنت چھوڑ کر لاہور آ گیا کہ اسے وہاں کے گھٹن زدہ ماحول میں رہنے سے چڑ تھی۔ میری وارڈ روب میں ایک بھی سفید شرٹ یا سوٹ اس نے نہیں چھوڑا۔ کیونکہ سفید رنگ میں میری سانولی رنگت اور گہری لگنے لگتی تھی۔ اسے میرے رنگ سے میری ہر عادت سے اختلاف تھا۔ میں تو پہلے ہی احساس کمتری کا مارا تھا۔ رہی سہی کسر اس کی بے وفائی نے پور ی کردی۔
اب تو شاید زندگی بھر عورت پر بھروسہ نہ کر پاؤں۔“ وہ ایک اور سگریٹ سلگاتے خاموش ہو گیا۔ اذیت پھر سے بڑھ گئی تھی۔ صلہ کو حقیقتاً دکھ ہوا تھا خوداس نے ان کی شادی کی تصویر دیکھ کر جو کمنٹ پاس کیا تھا اس پر ازحد شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ باقی لوگوں کی طرح وہ بھی محض بیرونی خوبصورتی سے بہلنے والوں میں سے تھی۔ 
”لیکن یہ سب آپ مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔
“ وہ شرمندگی پر قابو پاتی بولی۔
”تم نہیں جانتی؟“ وہ اسے بغور دیکھتا بولا۔ اس نے بے ساختہ نظریں چرائیں۔ رمنا ابرار دو قالب اور ایک جان مثل تھے۔ ”میں نہیں چاہتا کہ میرا انجام ابرار جیسا ہو اور میرے گناہوں کی سزا میری معصوم بیٹی کو ملے۔“ وہ شکست خوردہ لہجے میں بولا تھا۔ بے پناہ محبت کے باوجود ابرار کبھی رمنا کو سکھ نہ دے پایا تھا۔
اس کے گناہوں کا خمیازہ اس کی بیٹی نے بھگتا۔ ”یہی تو مسئلہ ہے ہم لوگوں کا۔ انسان کی لکھی تحریر کو اپنے آپ سے Relate کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ ہماری کہانی لکھنے والا تو خدا ہے اور صرف وہ جانتا ہے کہ ہمارا انجام کیا ہو گا۔ اپنے تخیل میں گم ہوتے میں یہ بھول گئی تھی کہ افسانوی کردار، حقیقت سے قریب تو ہوتے ہیں مگر حقیقت نہیں ہوتے۔“ وہ آہستگی سے گویا تھی۔
”آرٹ، فنون لطیفہ پر محض دل بہلانے کے طریقے ہیں۔ محض خود فریبی۔ ہزاروں بڑے آرٹسٹ اس دنیا سے گمنام چلے گئے۔ ان کے شاہکار مٹی میں یونہی دفن ہو گئے۔ کیا مل گیا ان کو۔ اس سے تو بہتر تھا کوئی اچھا بزنس کر لیتے۔“ آخر میں وہ جیسے خود پر ہنسی تھی۔
 ”قدرت کے کارخانے میں ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار ہے۔ اللہ سے بڑا کوئی فنکار نہیں۔ اس کا ہر آنے والا شاہکار پہلے سے مکمل مختلف اور اچھوتا ہوتا ہے۔
اس تخلیق کار کے نور کا تھوڑا سا حصہ ہم میں ہے جو روح کہلاتا ہے۔ سو ہم سب کے اندر تھوڑا تھوڑا فنکار بسا ہے۔ جو گمنام اس دنیا سے چلے گئے کیا خدا نے ان کی محنت کا کوئی ثمر نہیں رکھا۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ انصاف کرنے والا یوں بے انصافی کرے۔“ وہ رُکا۔ صلہ ساکت سی اسے تک رہی تھی۔ ذہن میں لگی گرہیں کوئی آہستہ آہستہ کھول رہا تھا۔ وہ دم سادھے اس کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی۔
”ایسا نہیں ہے صلہ۔ کوئی قدرتی منظر آپ کو انسپائر کرتا ہے۔ آپ کا جی چاہتا ہے کہ آپ اس منظر کو قید کر لیں۔ تصویر بنا لیں۔یا اس کی تعریف میں شاعری کریں۔ حالانکہ وہ لمحہ ہی آپ کے لیے آپ کی پینٹنگ، شعر، یا کہانی سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ وہ منظر آپ کے وجدان میں اُتر کر روح کی طرف کھلنے والی کھڑکی کھول دیتا ہے۔ کہ جب بھی جی گھبرائے تو سستانے کو اس خوبصورت یاد کا بچھونا اوڑھ کر سو جائیں یا جس کھڑکی کے کھل جانے سے روح کو تازہ ہوا میسر آسکے۔
روح کو اس قدرت سے جدا کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ قدرت کے ذریعے عطا کردہ وجدان ہوتا ہے جو روح کو سیراب رکھتا ہے اور نور کا وہ ذرہ اپنے منبع، اپنے مرکز کو بے اختیار یاد کر اٹھتا ہے۔ اس سے ملنے کو تڑپتا ہے۔ تبھی تو موت کو صوفیاء کرام منزل کہتے ہیں کہ یار سے ملنے کا یقین موت کو بھی ان کے لیے خوبصورت بنا دیتا ہے۔“
پرسوچ انداز میں رک رک کر کہتا بالاج جب خاموش ہوا تو اسے یوں لگا جیسے یکدم ساری دھند چھٹ گئی۔
وہ بے یقینی سے اسے تک رہی تھی۔ اس نے کتنی آسانی سے اسے ذہن میں اٹھتے سارے سوالوں کے جواب دے ڈالے تھے۔ سب کچھ یکدم اُجلا اُجلا سا دکھائی دینے لگا تھا۔
”ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔ یہ میں نے نہیں کہا بھئی کسی کتاب میں پڑھا تھا اور تھوڑا بہت تو تمہاری کہانی سے بھی سیکھا ہے۔ خاص طور پر عنایا جہانگیر کا کردار اب تک میرے اعصاب پر سوار ہے۔
“ وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولا تو وہ کھل کر مسکرا دی۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کہانی کا ریویو وہ بالاج علی شاہ سے سنے گی۔ بے اختیار دل بھر آیا تھا۔
”کتنی عجیب بات ہے تم نے رمنا کو عنایا جیسی ہوشیار خاتون کے قریب تو رکھا مگر اسے ابرار جیسے بند ے ہتھے کیوں چڑھنے دیا۔“ وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ ”ان دونوں کی محبت سچی تھی مگر انجام اتنا برا کیوں لکھا۔
”کسی کو تو تشنہٴ تمنا رہنا تھا۔ ہر کوئی فاروق، بتول جیسا خوش نصیب تو نہیں ہوتا نہ۔ ویسے بھی ابرار کا کامپلیکس اور بیوی کی بے وفائی نے اسے سخت اور سفاک کر دیا تھا۔ سو نہ وہ رمنا کو محبت دے سکا اور نہ اس پر یقین کر سکا۔“ اس کی نظروں میں بے ساختہ شیری ہما کے نکاح کا منظر گزرا۔ وہ اسی منظر میں کھو سی گئی۔ جبکہ بالاج خاموشی سے اسکی بات پر غور کر رہا تھا۔
”تم اس مسودے پر کام کرو۔ میرا مطلب کہ ایسے کام کو منظر عام پر آنا چاہیے۔ جو مدد چاہیے میں دینے کو تیار ہوں۔ مرضی کی کاسٹنگ کرو۔ ہدایتکاری کر لو۔ وہ یوں ضائع کرنے والا مسودہ تو نہیں ہے۔“ وہ متوازن لہجے میں کہتا کسی پروڈیوسر کی طرح لالچ دے رہا تھا۔ البتہ دل و دماغ کی سوئی اس کی رمنا اور ابرار والی آخری بات پر اڑی تھی۔
”میں کسی پر بھی کام کر لوں مگر اس پر نہیں۔
“ وہ نم آنکھیں لیے دو ٹوک انداز میں بولی۔ بالاج گہری سانس لیتے تاسف سے سوچنے لگا۔ اس لڑکی کو واقعی اپنی چیزیں خراب کرنے کی عادت تھی۔ ”تمہیں پتا ہے زرینہ جس فلم پر کام کر رہی تھیں وہ بند ہو گئی ہے۔“ بالاج بغور اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔ وہ فلم زرینہ کا خواب تھی۔ جس کے لیے انہوں نے کئی سال چھوٹے سے لے کر بڑے تھیٹر تک سندھ کا کونا کونا چھان مارا تھا محض اس فلم کی مرکزی کردار نبھانے والی صنم خٹک کے لیے۔
اور صنم خٹک نہ صرف ایک خوبصورت اداکارہ تھی بلکہ منجھی ہوئی کلاسیکی رقاصہ بھی تھی۔ اندرون سندھ کے آرٹ کونسل کے تحت ہونے والے چھوٹے سے پلے میں راج نرتکی کا رول کرتے وقت زرینہ نے اسے دیکھا تھا۔ یہ صرف زرینہ کی فلم نہیں تھی بلکہ اس میں شامل وہ چار نئے چہرے تھے جو انہوں نے ذاتی محنت سے کیچڑ سے کنول کی طرح نکالے تھے۔ وہ بھیگی نگاہیں لیے ساکت سی اسے تک رہی تھی۔
”تمہاری سو کالڈ سپر سٹار نے پروڈیوسرز کو بالکل خالی کر کے ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔“ اس کے طنز یا کہنے پر صلہ کی نظریں ڈبڈبا گئیں۔ بالاج لب بھینچے اسے دیکھ کر رہ گیا۔
دفعتاً اس کی پلک جھپکی اور ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی گود میں دھرے ہاتھ پر آ گرا۔ بالاج عجیب سے انداز میں کبھی اس آنسو اور کبھی قریب دھرے اپنے سیاہ ہاتھ کو دیکھ رہا تھا۔
صلہ نے چونک کر اپنے ہاتھ کو دیکھا پھر بالاج کو۔ وہ اب بھی اسی تھکن زدہ سے انداز میں ایک نظر آنسو اور ایک نظر اپنے ہاتھ پر ڈالتا۔
”یہ آنسو بھی میری چمڑی سے زیادہ سفید ہے۔“ اس کی بھاری آواز گونجی تو صلہ گنگ رہ گئی۔ وہا یک نظر صلہ پر ڈالتا کھڑا ہو گیا اور پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا۔ صلہ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ پہلی بار اس نے اس کے دکھ کو دل سے محسوس کیا تھا۔ وہ محض اسے جاتا دیکھتی رہ گئی یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali