Episode 37 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 37 - صلہ - ایمن علی

وہ قدآدم کھڑکی کے پار کھڑی نیچے دیکھ رہی تھی۔ پورچ میں سفید کرولا پارک کی جا چکی تھی۔ فرنٹ سیٹ سے بیگ اٹھاتا عذیر باہر نکلا اور گاڑی لاک کرتا اندر بڑھ گیا۔
اس کی نظریں گاڑی پر جم سی گئیں۔ ایک بھولی بھٹکی یاد ذہن کے دریچوں سے آ ٹکرائی تھی۔
” اس گاڑی سے کوئی ہمدردی نہیں رہی آپ کو یا کباڑ میں دینے کا ارادہ ہے۔“ زرینہ کے اسے چابی تھمانے پر وہ شرارت سے چہکی تو وہ حیران ہوئیں۔
”کیوں بھئی۔ تم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ تمہیں بہت اچھی ڈرائیونگ آتی ہے۔“
”انہوں نے تو سریس لے لیا۔ چل صلہ تیری تو نکل پڑی۔“ اس نے سر کھجاتے خودکلامی کی۔ زرینہ مشکوک سی ہوئیں۔
”ادھر دیکھو ذرا۔ کیا کہہ رہی تھی تم؟“ انہیں اس کی یہ خودکلامی والی عادت بہت کیوٹ لگتی تھی۔

(جاری ہے)

ایک بار تو اسی عادت کی بدولت وہ ایک سینئر ایکٹر کے ہاتھوں بال بال پٹنے سے بچی تھی۔

کہا تو اس نے سچ تھا۔ مگر وہ ازحد غصے میں آ گئے تھے اور زرینہ مسکراہٹ دباتی اسے بچانے کود پڑی تھیں۔ وہ بیچ میں نہ آتیں تو وہ تو گئی تھی کام سے۔
”کچھ نہیں بس میں کہہ رہی تھی کہ ذرا اپنے یہ لان کے سائیڈ پر لگے گملے ہٹوا لیں۔ گیٹ سے گاڑی نکالنا خاصا ٹیکنیکل کام ہے اور یہ گملے بیچارے کہاں سمجھیں گے۔ “وہ بڑے آرام سے کہتی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہو گئی۔
زرینہ جو موبائل پر کچھ چیک کر رہی تھیں ناسمجھی کے عالم میں فرنٹ سیٹ پر آ بیٹھیں۔
”یہ تم نے ابھی کیا بونگی ماری تھی۔“ انہوں نے ایس ایم ایس لکھتے پوچھا۔ مگر تب تک صلہ ریورس گیئر لگا چکی تھی۔
”تمہیں واقعی ڈرائیونگ آتی ہے نا۔“ ان کا ایس ایم ایس آخری مراحل پر تھا تو مصروف سی پوچھ بیٹھیں۔
”ارے کوئی ایسی ویسی…“ اس نے کلچ دباتے فل ایکسیلیٹر دبایا۔
گاڑی ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ گئی۔ وہ سینڈ کابٹن دبا رہی تھی کہ جھٹکے سے موبائل ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
”لاحول ولا قوة… آہستہ ریز دو بھئی۔“ ان کا دل دہل گیا۔ وہ گیٹ کے ایک طرف والی دیوار سے ٹکرانے والے تھے کہ اس نے زوردار بریک لگائی۔ ڈرائیو وے کے کنارے لگے گملے جو کہ اب شہیدوں کی صف میں شمار ہو گئے تھے۔ زرینہ کو منہ چڑا رہے تھے۔ وہ ابھی افسوس بھی نہ کر پائی تھی کہ صلہ نے پہلا گیئر لگایا اور پھر گاڑی کو فل ریز دی۔
گاڑی کا رخ لان کی جانب ہو گیا تھا۔ گاڑی ایک ایک جھٹکے سے بڑھی۔ اگلا نشانہ لان کے شروع میں لگے گملے تھے۔ زرینہ جو ڈیش بورڈ پکڑے بیٹھی تھی یکدم ایکشن میں آئیں اور ہینڈ بریک لگا دی۔ گملوں سے چند انچ کے فاصلے پر گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔ گاڑی رکتے صلہ دروازہ کھول کر باہر نکلی اور اندر کیجانب دوڑ لگا دی۔
”رکو صلہ کی بچی۔“ وہ موبائل اٹھتی باہر نکلیں۔
”آپ کو کس نے کہا تھا میری بات پر یقین کریں۔ مجھے گاڑی چلانی نہیں آتی۔ مگر مجھے شوق بہت ہے۔ جب ہی موقع ملے گا چلاؤں گی ضرور۔“ وہ محفوظ فاصلے تک بھاگتی رک کر بولی تھی۔ پھر اندرونی دروازے سے اندر جاتے قدم یکدم لڑکھڑائے۔ چوکھٹ پر Jack خطرناک تاثرات لیے کھڑا تھا۔ ادھر زرینہ بچے کھچے گملوں کا جائزہ لے رہی تھی۔ وہ مزے سے پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی۔
”او میرے بھائی… پلیز جانے دے۔ دیکھ میرا بیگ اندر ہے۔ اور بنا کرایے کے میں بھاگ بھی نہیں سکتی اور اگر یہی رہی تو تیرے یہ جو زرینہ میڈم ہیں نا یہ اپنے مہنگے گملوں کے پیسے مجھ سے نکلوائیں گی اور تجھے تو پتہ ہے میں کتنی غریب ہوں۔“ وہ التجا کرتی قدرے فاصلے سے اس سے مخاطب تھی جو وہاں سے ہٹنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اسے پچکارنے یا ہاتھ لگانے کی ہمت اس میں اب بھی نہیں تھی۔
”مان جا پلیز… میں تیری پرابلم سمجھ سکتی ہوں۔ پر میں کیا کروں…“ وہ رُکی، جیک کے تاثرات قدرے نرم پڑ چکے تھے یا اسے ایسا لگا تھا۔ ”آئی نو تو مجھ سے بہت جیلس ہے کیونکہ وہ تجھ سے زیادہ مجھ سے پیار کرتی ہیں۔ میں تیرا دُکھ سمجھ سکتی ہوں۔“ اس نے مصنوعی سرد آہ خارج کی۔ پیچھے کھڑی زرینہ متبسم سی اس کی باتیں سن رہی تھیں۔“ اگر تو انسان ہوتا نا تو میں تیری سفارش کر دیتی مگر آپ جناب تو وہ ہیں جن سے مجھے بھی ڈر لگتا ہے۔
چلو شاباش ہٹ جاؤ۔“ وہ تسلی سے اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ جیک خونخوار انداز میں بھونکا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ غصے سے اسے گھورتا اس پر بھونک رہا تھا۔
”ریلیکس جیک۔ اوور Here۔“ پیچھے کھڑی زرینہ مخل ہوئیں۔ جیک اسے غصیلی نظروں سے نوازتا زرینہ کی گود میں چڑھ گیا۔ وہ اس کا سر سہلانے لگیں۔
”بھئی ہم غریب لوگوں سے پیسے نہیں لیتے۔
مگر یہ جو آپ نے میرے فیورٹ گملوں کو شہید کیا ہے۔ ان کی باقیات کو نا سمیٹے گا۔ مالی چھٹیوں پر ہے۔ چلو شاباش صفائی کرو۔“ وہ مزے سے حکم دیتیں لان میں کرسی ڈال کر بیٹھ گئیں۔
” اس سے تو اچھا تھا آپ پیسے یہ لے لیتیں۔ اب اتنی بھی غریب نہیں ہوں۔ میرے تایا کی ہے اونچی حویلی…“ وہ برا سا منہ بناتی نیچے لان میں اتر آئی۔ زرینہ مسکراتی جیک سے کوئی بات کرنے لگیں۔
”ویسے دوبارہ یہ حسین موقع کب ملے گا۔“ وہ جاتے جاتے مڑی پرجوش سی پوچھ رہی تھی۔
”تم جاتی ہو یا…“ انہوں نے جیک کی طرف اشارہ کیا جو پہلے ہی اس کے خون کا پیاسا تھا۔
”جا رہی ہوں۔ ناراض کیوں ہوتی ہیں۔ کدھر ہے جھاڑو…“ وہ جھاڑو لینے پورچ میں چلی گئی۔
”کلیوگ ہے بھئی گھور کلیوگ۔ مستقبل کی اتنی بڑی رائٹر، ڈائریکٹر، شیف اور ایکٹر سے یہ ظالم سماج جھاڑو پھروا رہا ہے۔
“ وہ اونچی آواز میں بڑبڑاتی کام کر رہی تھی۔
”شیف اور ایکٹر کی تو بات ہی مت کرو۔“ وہ ہنستیں تصیح کرنا نہ بھولیں۔
”یہ سننے سے پہلے میرے پران کیوں نہ چلے گئے ہائے…“ ہما کمرے میں داخل ہوئی۔
”صلہ کیا کر رہی ہو؟“ وہ سوچوں میں گم یکدم چونک کر مڑی تھی۔ ”ہاں۔“ پھروہ ٹیبل کی جانب چل دی۔ تایا ابا کے اصرار پر وہ تینوں کمپنی کے دیے گھر کی بجائے ان کے گھر چند دن رہنے آئے تھے۔
”کہاں جا رہی ہو؟“
”نسیم انکل نے کچھ چیزیں منگوائی ہیں۔ وہی لینے جا رہی ہوں۔“ وہ مصروف سی بیگ بند کرتے بولی۔
”اکیلی ہی کیوں جا رہی ہو۔ شیری چھوڑ آئے گا۔ یا عذیر سے کہوں…“
”نہیں…“صلہ نے دو ٹوک انداز میں کہا تو ہما خاموشی سے اسے گھور کر رہ گئی۔“ ”وجہ؟“ وہ سینے پر بازو لپیٹے پوچھ رہی تھی۔ صلہ ہچکچائی۔
”ہما تمہیں پتا ہے مجھ سے یہ مجبوری کے یا زبردستی کے رشتے نہیں نبھائے جاتے۔
“ وہ بے بس سی کھڑی تھی۔ ہما خفگی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
”تم پلیز یہ معاملے ڈیلے کروا دو یا ختم کروا دو۔ مجھے ابھی اس شادی وادی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا۔“ ”پھر کیا چاہتی ہو تم؟“ وہ تیز لہجے میں بولی۔ دو مہینے سے مرغی کی وہی ایک ٹانگ وہ بیزار سی آ گئی تھی۔ ”کام میں تمہارا دل نہیں لگتا، لکھنا تم نے بند کر دیا۔ کبھی نہ کبھی شادی تو تم کو کرنی ہی ہے۔
جو تمہارا حال ہے اس سے لو میرج کے تو آثار نہیں۔ بہتر نہیں کہ تم خاندان میں ہی شادی کر لو۔ بہ نسبت کسی اجنبی سے شادی کرنے کے اور خاندان میں یہ آخری لڑکا بچا ہے۔“ وہ بنا رُکے ایک ہی سانس بولتی گئی۔ صلہ کے اعصاب میں جھنجھنا اٹھے۔
"I just dont care......" وہ جھنجھلا کر باہر چل دی۔ ہما تاسف سے سر جھٹکتی رہ گئی۔ باہر جائے اس کی نظر رائٹنگ ٹیبل پر پڑی۔
وہاں چند کاغذات پڑے تھے۔ انہیں الٹ پلٹ کر دیکھتی وہ مسکرا دی۔ وہ خاصا لمبا پیراگراف تھا۔ تو صلہ رحمنا نے لکھنا شروع کردیا۔ ایک رات میں اتنی تبدیلی۔ شاید اس بار سمندر اس کے لیے کوئی خوبصورت سیپ چھوڑ گیا تھا۔ اس کا دل ڈھیروں طمانیت سے بھر گیا۔ لیکن اگلے لمحے وہ متفکر سی سوچ میں پڑ گئی۔ عذیر اس رشتے پر خاصا سنجیدہ تھا اور دونوں خاندان جلد از جلد اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے تھے۔ یہ تو دادو کی بدولت معاملہ لٹک گیا تھا۔ صلہ کے انکار کے بارے میں صرف امی وہ اور دادو ہی جانتے تھے اور وہ تینوں کیسے سب سنبھال رہے تھے یہ وہی جانتے تھے۔ اسے شرجیل سے بات کرنی چاہیے یا نہیں۔ اسی شش و پنج کا شکار وہ باہر نکل گئی۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali