Last Episode - Sila By Emin Ali

آخری قسط - صلہ - ایمن علی

”نہیں تو…“ انہوں نے نارمل سے انداز میں کہا۔ صلہ کا دل سہم سا گیا۔
”ادھر دیکھ کر بتائیں۔“ زرینہ کپ لے کرا س کی طرف آئیں اور مسکرا دیں۔
”نہیں صلہ میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں تھی۔ مگر مجھے تمہارے رویے بہت دکھ پہنچایا تھا۔ تم نے مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ تم مجھے کوئی صفائی دیتیں۔“ وہ دکھ سے بولی تھیں۔ کاؤنٹر پر بڑے چائے کے مگ سے نکلتے بھاپ عجیب و غریب شکلیں بنا رہی تھی۔
”آپ اس وقت اتنے غصے میں تھیں۔“ وہ کمزور سے لہجے میں بولی۔
”تو…؟“ زرینہ سینے پر بازو لپیٹے استفسار کر رہی تھیں۔
”تو… غصے میں انسان وہی دیکھنا اور سننا چاہتا ہے جو وہ اس وقت محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ میں کچھ کہتی بھی تو کیا آپ یقین کرتیں۔‘ ‘اس کے انداز میں گھبراہٹ سی تھی۔

(جاری ہے)

”تم کیسے کہہ سکتی ہو یہ بات… کچھ نہ کہہ کر تم نے زیادہ دکھ پہنچایا مجھے۔
کیا میں خفا بھی نہیں ہو سکتی تھی تم سے۔“ وہ غصے پر ضبط کرتیں بولیں۔ کاؤنٹر پر پڑی چائے پر سے بھاپ نکلنا بند ہو گئی تھی۔ دونوں کو ہی ٹھنڈی پڑتی چائے کا خیال نہیں تھا۔
”میں کیا کہتی زرینہ، لکھائی میری، آواز میری… صفائی دیتی بھی تو کیا۔“ وہ بے بس سی کھڑی تھی۔ زرینہ لب بھینچ کر رہ گئیں۔
”یہی تو مسئلہ ہے تمہاریس اتھ… تم خود سے ایک چیز فرض کر کے بیٹھ جاتی ہو اور پھر ایمان کی حد تک قائم و دائم رہتی ہو۔
میں بھی انسان ہوں۔ "I wanted you to apologize at least." وہ خفگی سے بولیں۔
”بات نیت کی تھی۔ آپ نے میری نیت پر شک کیا تھا۔ میں معذرت کرتی اور ضرور کرتی اگر کسی لمحے بھی میرے دل میں چور ہوتا۔ وہ الفاظ میں نے ہی تو لکھے تھے۔“ وہ مصر تھی۔ زرینہ اسے کپ تھماتی لاوئنج میں آ گئیں۔ وہ پیچھے لپکی۔
”خیر جو ہوا سو ہوا… اب تمہارا آگے کیا پلان ہے۔
“ وہ مطمئن سی صوفے پر بیٹھتی بولیں۔
”پہلے آپ بتائیں آپ ناراض تو نہیں ہیں۔“ اس نے کھڑے کھڑے پوچھا۔
”نہیں بابا…“ وہ مسکرائیں۔ ”یہ بات مجھے جلد ہی سمجھ آ گئی تھی کہ بعض دفعہ انسان جذبات میں ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو حقیقت میں وہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مگر تم صدا کی ڈرامے باز، خواہ مخواہ سچویشن کو اتنا ڈریگ کیا۔ اور ادھر کشمیر میں سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔
ورنہ اس طرح بغیر اجازت لاہور چلے جانے پر تمہارے میں نے وہ کان کھینچنے تھے کہ عقل ٹھکانے آ جاتی تمہاری۔“ وہ شگفتگی سے گویا تھیں۔ صلہ کھلکھلائی۔
”بس پھر ٹھیک ہے۔“ اس نے کپ میز پر دھرا۔ اور ان کا بازو تھام لیا۔” چلیں مجھے گول گپے کھانے ہیں اور اس کے بعد آئسکریم بھی۔“
”ارے چھری تلے دم لو… چائے تو پینے دو۔“ وہ گڑبڑائیں۔
”چھوڑیں چائے وائے۔“ اس نے انکا کپ پکڑ کر میز پر رکھا اور پاس بڑا انکا ہینڈ بیگ اٹھا لیا۔ انہیں اٹھتے ہی بنی۔
”ایک منٹ۔“ وہ پورچ میں آتے رکیں۔“ کیا کہا تم نے گول گپے پھر آئسکریم۔“ وہ کمر پر ہاتھ رکھے اس کی خبر لے رہی تھیں۔ صلہ نے جواباً معصومیت سے اثبات میں سر ہلایا۔ ان کا ہینڈ بیگ ابھی بھی اس کے پاس تھا۔
”بالکل نہیں… تمہارا گلا خراب ہو جاتا ہے۔
چلو تمہارے فیورٹ ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے ہیں۔“ وہ گاڑی کی طرف بڑھیں۔
”آپ اکیلی ڈنر کریں پھر… میں خود ہی چلی جاتی ہوں گول گپے کھانے۔“ اس نے بیگ سے چابی نکالتے گویا دھمکی دی۔ زرینہ ہنس دیں۔
”یعنی تم خلق خدا پر ظلم کرنے سے باز نہیں آؤ گی۔“ صلہ نے زور سے نفی میں سر ہلایا تو وہ ہنستی سر جھٹکتے گاڑی کی طرف بڑھ گئیں۔ اس کا گلا خراب مطلب اس کی چھینکوں سے زیادہ بھیانک آواز کی کھانسی اور ڈرائیونگ تو ویسے بھی ماشاء اللہ تھی اس کی۔
اچھا وہ تمہارے سکرپٹ کا کیا بنا۔ کچھ دنوں تک بالکل فری ہو جائیں گے ہم۔ پھرا س پر کام شروع کرتے ہیں۔ کیا خیال ہے…“ وہ ڈرائیو کرتے مصروف سے انداز میں پوچھ رہی تھیں۔
”نہیں زرینہ… وہ کہانی جس مقصد کے لیے ودیعت کی گئی تھی وہ تو پورا ہو گیا۔ اب ٹی وی پر خالی کھیل تماشہ کرنے کا کیا فائدہ۔“ وہ سپاٹ سے انداز میں بولی تھی۔ بالاج علی شاہ کا بدلا روپ نگاہوں میں پھر گیا تھا۔
”وہ کیسے۔“ زرینہ متعجب ہوئیں۔ صلہ نے انہیں پرسوں کی بالاج سے ملاقات کے بارے میں سب بتا دیا۔ وہ چند لمحے کچھ بول ہی نہ پائیں۔
”سنا تھا کہ دل بدلنے میں ایک لمحہ لگتا ہے اور کبھی تو سالوں لگ جاتے ہیں۔ آج دیکھ لیا۔ خوش قسمت ہے وہ جو کسی ناقابل تلافی نقصان سے پہلے ہی اللہ نے اس کے لیے تمہارے لفظوں میں تاثیر رکھ دی۔ “وہ متبسم سی بولیں۔
” ویسے ہے بہت عجیب بندہ۔ ولی بخت بتا رہا تھا کہ ایکٹنگ چھوڑ دی ہے اس نے اور کوئی امپورٹ، ایکسپورٹ کے بزنس پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ خیر جو بھی تھا تمہارے حق میں بہترین ثابت ہوا ہے۔ اگر اس نے اعفان کے لیے جاسوس نہ رکھا ہوتا تو پھر جو ہونا تھا اس کے بعد ہم میں سے شاید ہی کوی کبھی خود کو معاف کر پاتا۔ بڑے نامحسوس انداز میں اللہ نے تم دونوں کو ایک دوسرے کا محسن بنا دیا۔
وہ خوشدلی سے بولیں۔ ان کے انداز میں گہرا خلوص تھا ہمیشہ کی طرح۔ مگر صلہ کا دل یکدم اداس سا ہو گیا تھا۔ دل میں شاید بت بہت زیادہ ہو گئے تھے۔ ناقابل رسائی لوگ اسی کے حصے میں کیوں آتے تھے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ ابرا جیسا انجام نہیں چاہتا مگر اس نے اس سے تو پوچھا ہی نہیں کہ کیا وہ رمنا بننا چاہتی تھی یا نہیں۔ اس نے خود کو ٹٹولا تو دل بے حد بے چین و مضطرب ہوا۔
جانے اصل محبت کیا تھی۔ وہ جو اسے جمال یوسف سے تھی یا وہ جو اپنے محسن کے لیے محسوس کر رہی تھی۔ زرینہ کے مطابق جمال یوسف محض لڑکپن کا کرش crush تھا کیونکہ وہ اس کے آئیڈل سے قریب تر تھا۔
 بالاج کے یوں بدل جانے پر وہ جیسے disillusion ہو چکی تھی۔ دل بھی عجیب صنم کدہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے خواہشات کے بتوں میں ترمیم بھی کرتا ہے مگر حقیقت میں ملنے والی پسندیدہ چیز میں ایک خامی بھی برداشت کرنے سے قاصر ہے۔
بالاج کی محرومی اس کے وجود میں کسی آکاس بیل کی طرح بہت اندر تک جڑیں پھیلائے تھی۔ وہ اندر سے ابرار جیسا ہی تھا وہ چاہ کر بھی ہادیہ کا کیا بھول نہیں سکتا تھا کیونکہ مرد صرف اس عورت کو آسانی سے بھول سکتا ہے جسکی زندگی خود اس نے تباہ کی ہو۔ ”میں نہیں چاہتا کہ اب تم کبھی آدرش سے ملو۔“ اس کے کربناک انداز میں کہتے جملے پر دل میں ہوک سی اٹھی تھی۔
اس چار سال کے بچے آدرش سے اسے عجیب سی انسیت تھی۔ اس کے کہے اس جملے کی بازگشت ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی جسکا صاف مطلب تھا کہ وہ اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے جا رہا تھا یا شاید جا چکا تھا۔
 زندگی کا حاصل کیا تھا۔ سب کچھ یا شاید کچھ بھی نہیں۔ اس نے کیا کھویا کیا پایا اس کا حساب اس نے عرصے سے چھوڑ دیا تھا۔ مگر جاتے جاتے وہ پیغام جو وہ دے گیا تھا وہ ساری زندگی اس کے ساتھ رہنا تھا۔
کہ نام، پیسہ یا شہرت کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ بس روح کی طرف کھلنے والی کھڑکی کھلی رہنی چاہیے۔ جب تک اسے تازہ ہوا میسر رہے گی تب تک زندگی خوبصورت ہے اور زندگی کے بعد کی دنیا بھی۔ مگر اس سب میں وہ بھی بھول گیا تھا کہ حقیقت میں نہ وہ ابرار ہے اور نہ ہی وہ رمنا۔ رمنا کو ابرار سے عشق تھا۔ جبکہ صلہ نے کبھی اسے اس نظر سے دیکھا تک نہ تھا۔ جان بوجھ کر آگ میں کودی تھی۔
 یہ جانتے ہوئے کہ ابرار کبھی بدل نہیں سکتا۔ صلہ نے ابرار کے کردار کی پرتیں کسی بھی سائیکولوجسٹ کی طرح ترتیب دی تھیں۔ وہ محض اس کا گمان تھا کہ وہ ایسے ہی بی ہیو کرے گا اور کبھی سدھر نہیں پائے گا۔ جبکہ حقیقت میں محض ابرار اور رمنا کی بیٹی کی ناگہانی موت کے بارے میں پڑھ کر ہی وہ راستہ بدل گیا تھا۔ صلہ کے دل میں ایک گونہ سکون اتر گیا۔
وہ آج سمجھ گئی تھی کہ گمان دھوکہ دیتے ہیں۔ چاہے وہ اچھے ہوں یا برے۔ کبھی نہ کبھی بالاج بھی یہ بات سمجھ ہی جائے گا۔ اور تب تک وہ انتظار کر سکتی تھی۔ اپنی محنت کا صلہ اس نے پا لیا تھا اب اس کے انتظار کا کیا صلہ دیا جانا تھا اسے بس وہی دیکھنا تھا اور وہ اس بار مایوس نہیں تھی اور نہ ہی اب کبھی اپنے گمان پر بھروسا کرنے والی تھی۔ شاید اس لیے بھی کہ اب وہ بغیر کسی صلے کے اپنے دل کے فیصلوں پر اعتبار کرنے کو تیار تھی۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali