Episode 4 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 4 - سودا - سمیرا حمید

رشید کے گھر کا دروازہ بج رہا تھا،ٹانگیں پسارے دیوار کے ساتھ سر ٹکائے پڑا تھا ،منہ اور آنکھیں صاف کرکے اٹھا۔
”مان گئی بھابھی جی؟ جاوید پر نظر پڑتے ہی جھٹ پوچھا بھابھی جی کو مناننے کیلئے ہی تو اندر اتنے جتن سے بین ڈال رہا تھا۔“
”مان جائے گی تو فکر نہ کر،ورنہ میں اسے گاؤں بھیج دونگا۔“
”نہ… نہ… ایسا نہ کرنا… نہ کبھی نہ…“
”تیرے پاس پیسے ہیں بھی کہ نہیں؟“ جاوید کی آنکھیں سکڑیں” چیک بک دکھاؤں؟“
”ہاں!“ جاوید چیک بک دیکھ کر ہی ٹلا۔
”بڑا پیسہ ہے نوری اس کے پاس دو دو بنکوں میں پیسے رکھے ہیں۔“
”تو؟ نوری کو کوئی اور سوال ہی نہ کرنا آیا اب تک یہ تو بار بار تو تو کسے سنائی ہے؟ جاوید چیک بک دیکھ آیا تھا اب بھی نہ بھڑکتا۔

(جاری ہے)

”تو کیا کرؤں؟ وہ رونے لگی“ نہیں دل مانتا،خراب آدمی ہے نہ جانے اسے کیا سے کیا بنا دے… پھر بھی کیوں دوں اسے اپنا بچہ… ضروری ہے کیا؟
”پگلی ابھی تک نہیں سمجھی؟ ہمارے پاس ہے کیا؟ دوسرے بچے کو کیسے پالیں گے،یہ گڑیا کی طرف دیکھ،شہر میں رہ کر بھی تجھے عقل نہیں آئی یہ جو بارشوں میں کیڑے نکلتے ہیں نا ان جیسی ہے اپنی یہ گڑیا،شہریوں کے بچے دیکھے ہیں کبھی؟ یہ محلے والے ہمیں منہ نہیں لگاتے چوڑے سمجھتے ہیں ہمیں،میں دکان کھول لوں گا گروی پر ایک اچھا گھر لے لیں گے یہ بچہ دن بدل دے گا ہمارے،چار وقت اچھا ہم بھی کھا لیں گے،ابھی تو یہ دنیا میں آیا بھی نہیں تجھے کہاں کا انس ہو گیا اس سے… پگلی وہ اسے پڑھائے گا لکھائے گا کیا ہم پڑھا سکیں گے اسے ہم تو کھلا بھی نہیں سکیں گے،سوچ پگلی یہ خود بھی کھا لے گا ہمیں بھی چار نوالے کھلا دے گا۔
 نوری چپ ہی رہی،آج کل اسے کھانا نہیں پکانا پڑتا تھا جاوید روز بازار سے ہی لے آتا تھا ہر طرح کے گوشت ہی آ رہے تھے،مچھلی،تکے،کباب… کڑاہی،روسٹ،کوفتے،پالک گوشت،قیمہ بھرے نان… ہزار قسمیں تھیں گوشت کے پکانوں کی،وہ دن گئے جب دونوں کو نمک کے ساتھ بھی روٹی کھانی پڑ جاتی تھی اب ذرا تیز نمک والا گوشت ایک طرف کر دیتے تھے کہ کڑوا ہے،نوری کبھی کبھار ادھر ادھر کے گھروں سے بچا کھچا سالن لے آتی تھی پھر محلے والوں نے جو سالن پھینکنا ہوتا وہ انہیں دے جاتے وہ سونگھے بنا کھا جاتے۔
چند ہفتوں بعد بارش ہوئی آس پاس کے گٹر بھر کر ابلنے لگے،انکے گٹر جتنے گھر میں غلیظ پانی بھر گیا،بدبو متلی سے نوری مرنے کے قریب ہو گئی کیا کچھ نہیں بہہ رہا تھا اس پانی میں،توبہ،توبہ… اب اس بدبو اور غلاظت میں گزارا نہیں ہوتا تھا پیٹ میں جو جو کچھ بھر بھر کر ڈالا تھا باہر آنے کو تھا۔
رشید آیا دیکھ کر چلا گیا پھر آیا سامان نکال کر باہر رکھا،سامان بھی کیا دو چارپائیاں اور چند برتن،دونوں کو لے کر ایک خالی گھر میں آ گیا دو کمروں کا صاف ستھرا گھر تھا،سامان وہاں لاکر جمایا۔
”خوش بھابھی جی؟ پہلی بار نوری سے ہی بات کی تھی نوری نے سر ہلا دیا۔“
”دو ضرورت مند اکٹھے ہو گئے رشید اور جاوید“
جاوید نے سبزی کی ریڑھی لگانی ہی چھوڑ دی رزق گھر بیٹھے ہی مل رہا تھا باہر نکل کر کمانے کی کیا ضرورت تھی۔ تھا ہی نکما جاوید اس کے بھائی گاؤں میں جانوروں کی طرح رات دن کام کرتے اور وہ ادھر ادھر تانک جھانک میں رہتا،اب کہاں کا کام؟ رشید کھلا رہا تھا انہیں۔
شروع شروع میں جاوید ایک چھوٹے ہوٹل میں رات دن برتن دھونے پر لگا تھا پھر ٹیبل مین بن گیا،بھاگ بھاگ کر ایک سے دوسرے میز تک جاتا،خالی جگ بھرتا،گندے میز گاہک کے جانے کے بعد صاف کرتا، آڈر پر آڈر لیتا… رات کو سوجھے ہوئے پیر لے کر گھر آتا دو قدم بھی چلا نہ جاتا اگلے دن پھر کئی سو قدم چلنا پڑتا دوڑنا پڑتا…
”شہر کے لوگ“ جاوید گندی گالی دے کر کہتا ”سالے اتنا کام لیتے ہیں اور چند سکے پکڑا دیتے ہیں۔
اب ٹھیک تھا،لاہور شہر کی ہیرا منڈی کا دلال رشید اسے لاکھوں تھما رہا تھا… اب ٹھیک تھا سب۔“
رشید آ جاتا تو نوری کو دیکھ کر خفا ہوتا۔
”پرے ہٹو“ جھاڑو چھین کر خود لگانے لگتا،برتن دھو جاتا،بستروں کی چادریں جھاڑتا،جاوید موڑھے پر بیٹھا دانتوں میں تیلی پھیرتا رہتا اور مسکرا مسکرا کر نوری کو چڑاتا۔
ایک بار آیا تو جوسر لے آیا کہ تازہ تازہ جوس نکال کر پیئو،نوری سے زیادہ جاوید جگ بھر بھر پی جاتا،دودھ میں کیلے ڈالو،آدم ڈالو جو جی میں آئے ڈالو گھماؤ اور پی جاؤ ،جاوید کو گھمانا آ گیا اب سب کچھ گھومنے گا۔
”بھابھی جی کے پیر دبا دے“ ایک دن رشید جاوید کے کان میں سرگوشی کرنے لگا جاوید گلا پھاڑ کے ہنسا۔
”جا تو دبا دے یہ کام بھی تو کر دے“ رشید کو سانپ سونگھ گیا۔
”اب کے کہا تو زبان کھینچ لوں گا قسم پنج تن پاک کی“
جاوید سچ مچ ڈر گیا۔
”بازاری تو میں ہوں پر لگتا ہے نتا تو بھی نہیں“
جاوید اندر تک بھڑک اٹھا لیکن پانچ لاکھ کا سوچ کر چپ رہا،چپ رہنا پڑا ورنہ اتنی بڑی بات پر ہاتھ پکڑ کر باہر کرتا،کنڈی لگاتا،آرام کرتا لیکن کمینی ہنسی ہنس کر چپ رہا۔
خالص دودھ،تازہ جوس اور ملک شیک پینے والی نوری پانی پیتی تو متلی ہوتی،دال روٹی کا سوچتی تو دل باہر کو آتا،پکا پکایا آ رہا تھا چولہے کے پاس جانے کا خیال بھی نہ آتا۔ جاوید گھر ڈھونڈ رہا تھا تین لاکھ میں سودا ہوا رشید نے جھٹ تین لاکھ نکال کر پکڑا دیئے۔
نوری جاوید کو کبھی نفرت سے دیکھ ہی لیتی رشید کو نہ دیکھا جاتا،ایک دن تعویز لے آیا… گلے میں پہننے کو،نوری نے پہن لیا… جمعرات کے جمعرات مزار پر لے جاتا نوری کے ہاتھ سے تبرک تقسیم کرواتا،مزار کی دہلیز پر رکھا نمک نوری کو چاٹنے کیلئے کہتا،ہر بار دربار کی جالی میں دھاگا باندھ آتا،جانے کہاں کہاں سے دم شدہ پانی لاکر اسے پلاتا وہ اس ذی روح کی طرح ہو گیا جو آسمان کی اور بے قراری سے دیکھے جاتا ہے،بے چینی سے اس دھانے کو کھوجتا ہے جس میں سے اس کی جھولی بھری جاتی ہے آسمان کو شک ہونا ہی ہے اسے شک ہونا ہی پڑے گا… وہ جھولی اٹھائے گھوم گھوم کر اس دھانے کو کھوج رہا ہے… رو رہا ہے،تڑپ رہا ہے۔
ایک جمعرات نوری زنانے حصے سے دعا مانگ کر مردانے میں جاوید کو ڈھونڈنے آئی،احاطے میں کونے میں لگے درخت کے نیچے وہ دونوں ٹانگیں پھیلائے درخت کے تنے سے سر ٹکائے مردوں کی طرح پڑا تھا آنسو گریبان میں جذب ہو رہے تھے۔ دو چھوٹے بچے اس سے چند قدم دور کھڑے اسے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ بندر تماشہ کر رہا ہو اور اس تماشے میں بندر وہ ہو،ذرا ذرا دیر بعد ہوا میں ہاتھ گھمانے لگتا… نوری اس کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی… غوں غاں کی آوازیں بھی نکال رہا تھا… منہ سے رال ٹپک رہی تھی۔
”رشید بھائی“ نوری نے ڈرتے ڈرتے آواز دی جتنا اسے رشید پر ترس آیا اتنا ہی وہ ڈر گئی۔ رشید بھائی بدستور معلق ہی رہے۔
”رشید بھائی“ نوری نے آواز ذرا تیز کی ذرا سا جھک کر اس کا شانہ ہلایا… ذرا دیر لگی رشید چونک کر اپنے آپ میں آیا اسے ایسے دیکھا جیسے شرمندہ ہو اور اگلی نظر بے حد شرم لئے ہوئے تھی۔
”اونگھ نے جھپٹ لیا تھا“ وہ کھوکھلی ہنسی ہنسا۔
کھلی آنکھیں اور اونگھ،نوری کا جی چاہا اپنے پلو سے اس کی آنکھیں پونچھ ڈالے… اس کے سر پر وہ تھپکی دے جو اسے سکون کی نیند جگا دے۔
جس کمرے میں نوری پڑی کراہ رہی تھی اسی کمرے کی چھت پر رشید ہاتھ جوڑے لڑکے کیلئے التجا کر رہا تھا کبھی وہ ایک ٹانگ اٹھا لیتا کبھی ہاتھ چھوڑ جھولی اٹھا لیتا۔
رات کا دوسرا پہر تھا جاوید نے رشید کو آواز دی۔
”تیری مراد بر آئی“ جاوید آواز دبا کر چلایا۔
”میری مراد بر آئی“ رشید ہچکی دبا کر شکر بجا لایا،بھاگا نیچے۔
”جانکل جا دوبارہ کبھی ہمیں اپنی شکل نہ دکھانا“
پاک ناموں کا ورد کرتے ہوئے رشید نے اپنے بازوؤں میں بچے کو تھام لیا اور سینے سے لگائے اپنے گھر کی طرف بھاگا۔ وہ سارے انتظام پہلے ہی کر چکا تھا بچہ لیتے ہی شہر سے نکل گیا۔
###
نوری کئی دن خاموش سی رہی ریت نبھا رہی تھی یا رسم وہی جانتی تھی چند دن اس نے اس کھیل کو کھیلا،چلنے پھرنے لگی تو جاوید اسے اپنے ساتھ بازار لے گیا جس چیز پر ہاتھ رکھا وہ لے کر دی۔ فریج،ٹی وی،بیڈ،میز کرسی،کپڑے،برتن،سب مل گیا،اپنی سکینڈ ہینڈ موٹر سائیکل پر جاوید اسے لئے گھومتا،بازاروں میں ہوٹلوں میں،پارکوں میں،نئی نئی چیزیں کھلائیں،نوری نے کبھی سمندری جھینگا نہیں کھایا تھا وہ تک کھا لیا نوری شیر کا گوشت کھانا چاہتی تو جاوید اس کا بھی سوچ لیتا ارادوں کا پکا تھا جاوید۔
نوری دنوں میں ہٹی کٹی ہو گئی روز نئے نئے کپڑے پہن لیتی رات کو چند بار رو لیتی،پھر خود ہی چپ کر جاتی،شاموں اور دوپہروں میں آہیں بھرتی جاتی اور سیب کیلا کھائے جاتی اور جلدی جلد چکنے فرش پر گیلا کپڑا لگائے جاتی۔
شیشے کے سامنے بیٹھتی آنکھوں کے گرد حلقے دیکھتی منا یاد آ جاتا اور پھر کوئی نا کوئی کریم اٹھا کر منہ پر لگا لیتی۔
رشید نے پانچ لاکھ کا کہا تھا پورے آٹھ لاکھ دے کر گیا تھا۔ اتنا مہنگا گوشت کا لوتھڑا خرید کر لے گیا تھا، پاگل ہی تھا۔
منے کی پیدائش کے تین دن بعد ایک ٹولہ ان کے گھر آن دھمکا۔ جاوید نے تو صاف انکار کیا کہ ان کے یہاں کوئی بچہ وچہ نہیں آیا کہاں منہ اٹھائے چلے آ رہے ہو… کہیں اور دفعان ہو جاؤ۔
گرو بھڑک اٹھا یہ زور سے تالی پیٹی“ اے لو جی… پیسے دھیلے پر سواہ ڈال بچے سے ہی انکاری ہو رہا ہے… اے بابو ہم پکے کام کرتے ہیں لاؤں کیا اس دائی کو تیرے منہ پر… پھر بولے گا کوئی بچہ وچہ نہیں ہے… بول بانکے سجیلے بولے گا کہے گا کہ بچہ نہیں ہے… کیسا باپ ہے رے تو… ہاے موری میّا… کیسے منہ پھاڑ کر کہہ رہا کوئی بچہ نہیں ہے… ذرا آواز اس طرف کو منہ کرکے نکال آس پڑوس اکٹھا کر… دادا نانا تو یہاں کوئی نظر نہیں آ رہا دو پیسے محلے والے ہی دے دیں گے۔
”میں کہتا ہوں نکل یہاں سے سنا نہیں تو نے؟ نہیں نچوانا ہمیں تمہیں… نکلو یہاں سے ہیجڑوں…“ جاوید نے جھک کر گھنگھرو باندھتی چٹکی کو لات ماری وہ دھڑام فرش پر گری ”اے“ چٹکی نے گالی دی تیوری چڑھی اور لپک کر اس کی گردن دبوچنے کے درپے ہوئی۔
”اے پرے ہٹ چٹکی… آئے ہائے… اے بابو…“ گرو بھڑک اٹھا،ہتھیلی پر ہتھیلی یہ زور سے ماری چٹکی بھی شامل ہوئی ڈھولکی استاد بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا سب زور زور سے تالیاں پیٹنے لگے۔
تالی کا یہ ردھم ہیجڑے غم و غصے،دکھ اور سوگ میں جگاتے ہیں۔
”بابو بانکے سجیلے بیٹھے بٹھائے بچہ نگل رہا ہے“ وہ صحن سے اندر کمرے میں جانے لگا جاوید نے لپک کر اسے پرے دھکا دیا۔ چٹکی پھر دیوار کے ساتھ جا لگی دھکا کھا کر گرو بدلے میں جاوید کو پرے پھینک کر اندر کمرے میں گھس گیا۔ نوری چارپائی پر لیٹی تھی اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکی۔ تالیوں کی گونج کمرے میں پھیل گئی دروازے میں جاویڈ ڈھولکی استاد سے الجھ رہا تھا ہٹا کٹا استاد جاوید کے گلے پڑ رہا تھا۔
”اے چٹکی یہ رہی زچہ… اے بی بی خدا مبارک کرے“ گرو نے دونوں ہاتھوں سے نوری کی بلائیں لیں۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed