Episode 6 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 6 - سودا - سمیرا حمید

”وہی تو کہہ رہی ہوں… عیش کر رہے ہیں نا… گاؤں سے نکلے تو چار چار وقت روٹی نہیں ملتی تھی مانگ مانگ کر بھی کھائی اب چار مہینے کا راشن رکھا ہے باورچی خانے میں پکانے کو… گھر بھرا پڑا ہے…“
”یہ سب میری محنت سے آیا ہے۔“
نوری کو آگ ہی لگ گئی“ بچہ تو نے جنا تھا؟“ دونوں فیصلہ کروانا چاہتے تھے کہ یہ عیش دراصل کس کی وجہ سے تھا۔
”دونوں کی وجہ سے“
ہاں تو میں جن لیتا… کس پے اترا رہی ہے اتنا پیچھے سے لائی ہے یہ بچے؟؟
”پیچھے سے لاتی تو تجھے سودے کرنے دیتی؟ جاوید نے لپک کر اس کی چٹیا پکڑی چار پانچ گالیاں دیں اور پٹخ کر چلا گیا وہ چیخ چیخ کر رونے لگی… تھوڑی دیر بعد جاوید آیا،اسے اٹھایا،بٹھایا… منہ آنکھیں صاف کیں اور جڑ کر اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
”تو میری نوری نہیں؟“
جب دونوں میں پیار کی پینگیں بڑھنی شروع ہوئی تھیں تو جاوید اسے نہ جانے دینے کیلئے… ہاتھ پکڑنے کیلئے… پاس بٹھانے کیلئے اور ایسے ہی بہت سے ڈھکے چھپے کام کروانے کیلئے لاڈ سے کہا کرتا تھا اور نوری فوراً اترا کر کہتی تھی ”نہیں“ مطلب ہاں… پکی ہاں… وہ وہی عورت تھی جس کی ناں ہی ہاں ہوتی ہے… وہ عورت بھی جو جلدی مان جاتی ہے اور خاص کر وہ عورت جو اپنے مرد کی مانتی ہے۔

(جاری ہے)

”میری محبت پر شک ہے تجھے نوری؟ بے چاری میڈم کا سوچ… ان کے دکھ… محبت کی شادی کی تھی،دوسری بیوی ہے اپنے صاحب کی… شوہر خود تو اولاد والا ہے یہ اکیلی تڑپتی ہے کہہ رہی تھی کہ بچے کو کینیڈا لے جا کر پڑھاؤنگی ،خود سوچ کینیڈا میں جا کر پڑھے گا ہمارا بچہ… انگریز بنے گا انگریز… گاڑی… گھر… ہمارے پاس نہ سہی اس کے پاس تو ہوگا… اتنی بے چاری نہ بن اس عورت کا بھی سوچ تو بھلا کر دے گی اس کا تو تیرا کیا جائے گا الٹا ہمارے بچے کا ہی فائدہ ہوگا… میں تو اپنے بچے کا ہی سوچ رہا ہوں… خوش ہوں کہ جو ہم نہیں دے سکتے وہ کوئی تو دے گا… ہمارے بچے بڑے آدمی بن جائیں گے… یہ تھوڑی سی قربانی کی ہی بات ہے… ماں باپ کیا نہیں کرتے اولاد کیلئے… اپنا آپ بیچ ڈالتے ہیں… بیچ چوراہے میں نیلام کر ڈالتے ہیں خود کو…“
نوری سنتی رہی اٹھ کر نہ گئی۔
جاوید نے اس کے گرد بازوؤں کا حلقہ تنگ کر دیا نوری اس حلقے میں خوشی سے مدغم ہو گئی اسی حلقے میں رہنے کیلئے وہ گاؤں سے بھاگ نکلی تھی۔
”مجھ سے تو بھی میڈم کا دکھ دیکھا نہیں جاتا… ورنہ یہ گڑیا تین کی ہوئی ہے نا ابھی اسی کی بات کر لیتا ہوں۔“
نوری نے فوری ہاتھ بڑھا کر جاوید کا منہ بند کر دیا۔
”گڑیا کا نام مت لے جاوید۔“
”چل پھر تو اس کی تیاری کر… دل سے سے سمجھ لے تو نے کسی اور کا رکھا ہے۔
کس کا؟ نوری نے اتنا بڑا طنز کیا جاوید کا ہاتھ اٹھتے اٹھتے رہ گیا۔“
دیکھ نوری مجھے ایسے طیش نہ دلا… قسم خدا پاک کی،میں تجھے چھوڑ کر چلا جاؤں گا… دکان اور کاروبار ہیں میرے پاس… کہاں جائے گی تو… بہت عورتیں مجھے اور نہیں تو یہ فٹ پاتھوں،چوکوں میں جو بنجار نہیں جھولتی پھرتی ہیں نا انہی میں سے ایک کو گھر لا بٹھاؤں گا… تجھے سکھ کھلتا ہے دکھ تجھے بھلے… باہر نکل کر گلی گلی جا کر کمانا پڑے نا تو تجھے پتا چلے… یہاں گھر بیٹھی تو سارا دن ٹی وی دیکھتی رہتی ہے یا سوتی رہتی ہے… ایویں کم عقلیاں نہ کر… بھولی پگلی… سمجھ میری بات… تو مجھ سے زیادہ سمجھ دار نہیں ہے… تو عورت ہے… میں مرد ہوں… تجھے نہیں مجھے پتا ہے کیا کرنا ہے…
اب جاوید نے اسے سینے سے لگا لیا نوری عین اس کے دل کی دھڑکن سے جا لگی۔
”یاد نہیں گاؤں کی حاجن بی… اوپر تلے کے اپنے دو بیٹے دے دیئے تھے ایک تو ساتھ والی کو دیا تھا جو ہر وقت حاجن بی سے لڑتی رہتی تھی روتی پیٹتی رہتی تھی رات دن بین ڈالتی تھی میڈم کی طرح ہی دکھی تھی۔ حاجی بی نے خود سے ہی لے جا کر اس کی جھولی میں ڈال دیا… یاد کر… یہ سامنے کا ہی گھر تھا نا حاجن بی کا… تو کیا سانپ لوٹتے ہونگے ان کے سینے پر؟ کیسے راضی باضی تھیں وہ… کیسا نور برستا تھا۔
ان میں… گاؤں بھر نے تعریف کی… تو کیا وہ بچہ دینے سے بری بن گئیں؟ حاجن بی سے کچھ سبق سیکھ… دوسروں کی آس مراد ہم سے پوری ہو جائے تو کیا برا ہے؟ میں تو بھئی اسی میں راضی بارضا ہوں…“
”جاوید کے دل کی دھڑکنیں سنتے نوری اونگھنے لگی۔“
نوری بمشکل سترہ سال کی تھی جب وہ جاوید کے ساتھ گاؤں سے بھاگی تھی۔ جاوید ہٹا کٹا بیس بائیس کا ہوگا پر چھ سات سال اور بڑا ہی لگتا تھا اپنی اصل عمر سے۔
گاؤں میں ان کا چکر بہت دیر رہا۔ بہت جگہوں پر ملے بہت کونوں میں چھپے۔ جاوید کہتا ”سارے گاؤں کو آگ لگا دوں گا اگر نوری کے گھر کوئی اور بارات لایا۔“ بارات تو خیر کسی کی نہ آئی،دونوں اپنی بارات لے کر شہر آ گئے۔
جس رات جاوید نے اسے کہا کہ شہر بھاگ چلتے ہیں اسی رات کے پچھلے پہر دونوں بھاگ گئے… سوچنا کیسا؟ سورج کے اشارے پر جس طرح دن نکلتا ہے ایسے ہی نوری جاوید کے اشارے پر چلتی تھی،گاؤں میں اس نے اپنی پکی سہیلی کو بھی ہوا لگنے نہیں دی کہ اس کا جاوید کے ساتھ چکر ہے۔
اتنے سال اس کے گھر والے اسے چپ چپیتی گائے سمجھتے رہے… وہ دو دو گھنٹے جاوید کے ساتھ گزار آتی اور اماں بے فکر رہتی“ ہوگی دس بارہ سہیلیوں میں سے کسی ایک کے پاس۔ وہی اماں اسے رات کے پچھلے پہر اپنی دو آنکھوں سے بھاگتے ہوئے دیکھ لیتی تو بھی یقین نہ کرتی کہ یہ نور فاطمہ بھاگی جا رہی ہے۔ سارا دن زبان منہ میں دیئے بھیڑ بکریوں کی طرح کام کرنے والی نوری… خاندان کے ہر چھوٹے بڑے لڑکے کو بڑھ بڑھ کر بھرا جی بھرا کہنے والی کسی چھوکرے کے ساتھ رات گئے بھاگ رہی ہے،نوری کیلئے بس جاوید ہی ناخدا تھا،جی جان لگا کر اس کی پرستش کرتی۔
گھر سے بھاگ آئی تھی ایک بار نہیں سوچا تھا غلط کر آئی ہوں،جائز ناجائز،غلط درست کے چکروں میں پڑنے والی نہیں تھی وہ۔
جاوید خود تو خیر کیا ڈرتا اسے ضرور ڈرا کر رکھتا اس کے باپ اور بھائیوں سے ۔ وہ اسے کہتا کہ وہ تو بھاگ جائے گا گردن تو نوری کی پکڑی جائے گی… نوری ڈر جاتی جاوید منہ کھول کر پرانے انجن کی سی آواز لئے ہنسنے لگتا… نوری سو سو بار پوچھتی،قسمیں لیتی۔
”تو مجھے چھوڑ کر بھاگے گا تو نہیں… بتا بول…“اور وہ انجن چلائے ہی جاتا اور جب وہ رونے لگتی،تو بریک لگا کر اسے اپنے ساتھ لپٹا لیتا۔”اگر تیرے بھائیوں نے میری گردن دبوچ لی تو… تو بھاگ جائے گی کیا۔“نوری فوراً سر نفی میں ہلا دیتی ساتھ جینے مرنے کی قسمیں ابھی یاد تھیں۔”پھر میں کیسے بھاگ سکتا ہوں تو میری نوری… میں تیرا انور،بات ختم“
جاوید نوری کو سینے سے لگائے پیار کی لوری سنا رہا تھا۔
جو عورت محبت میں غرق ہو جاتی ہے وہ جائز ناجائز سے تو پرے ہی ہو جاتی ہے نا… وہ محبت ہی کئے جاتی ہے… محبت ہی کئے جاتی ہے… کسی کام کی نہیں رہتی اسی لئے کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کر پاتی۔ وہ عورت جو محبت کو ہی دین ایمان بنا لیتی ہے… مرد کو خدا اور سر جھکانے کو عبادت… ایسی عورت کسی کام کی نہیں رہتی۔
اب یہ نہیں تھا کہ جاوید ہی بے غیرت تھا نوری اپنی سہیلیوں کی نظریں بھٹکا کر بندے،ہار چرانے والی… ان کی چیزیں اٹھا کر پلو میں دبا کر بھاگ جانے والی بھابھیوں کے میکے سے آئے مربے،مرونڈے چوری چھپے منہ بھر بھر کھانے والی… بے ایمان نوری… دور پرے کی پھوپھی خالہ یا اپنی سگی بہنوں کے جاتی تو چھوٹی بڑی ہزاروں چیزیں اٹھا لاتی۔
حاجن بی قرآن خوانی کرواتیں تو سستی کی ماری ایک صفحہ پڑھتی دو چھوڑ دیتی باقی کا سارا وقت ہونٹ ایسے ہی ہلائے جاتی ساتھ ساتھ تھوڑا اونگھ لیتی یا ذرا اوٹ میں ہو کر سپارہ ہاتھ میں لئے جاوید سے ہوئی ملاقات کو یاد کر لیتی۔ اماں کہتی نوری ابالے پر ابالا آ جائے،دودھ اچھی طرح سے کڑھ جائے تو ہی چولہے سے اتاری… وہ ایک ہی بار ابال کر ایک طرف رکھ دیتی پھر سچی قسمیں کھاتی کہ اتنا تو کڑھ گیا تھا دودھ تبھی تو اتارا… اب اللہ جانے دودھ کے ساتھ کیا بنی،میں نے تو ابال لیا تھا کئی بار،آئیں بائیں شائیں۔
اس نوری میں بہت چور در تھے… بہت بڑے تھے بہت گھنے تھے۔ ایسے ہی نہیں اماں کے فرشتوں کو بھی سلا کر وہ جاوید سے کئی کئی بار مل آتی تھی۔ صحن میں بھائی سو رہے ہوتے اور وہ سامنے کے ہی دروازے سے جاوید کو لاکر گودام تک لے جاتی۔ بوریوں کے پیچھے گھپاسی بنا رکھتی تھی وہیں جاوید اور وہ دونوں جڑ کر بیٹھے ہوتے،پچھلے پہر جاوید چلا جاتا اور مجال ہے کہ کوئی اتنی سی شکایت بھی کر جائے کہ رات کو کوئی اٹھ کر چل رہا تھا۔
بڑی بھابھی ذرا تیز تھیں ادھر ادھر نظر رکھتی تھیں انہیں بھی اندھا کئے بیٹھی تھی نوری… گودام کی گھپا میں وہ جاوید کے ساتھ لپٹی رہتی… اسے کھلاتی… پیار کی لوری سناتی…

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed