Episode 8 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 8 - سودا - سمیرا حمید

”ٹھیک ہیں سب“
”کہاں گئے ہیں سب“
”جاوید اندر کیوں نہیں آیا“ وہ یہ سوال کرنے لگیں نوری اٹھ کھڑی ہوئی کار میں بیٹھ کر بلاوجہ گڑیا کو مارا۔
”اب نہیں لاؤں گا تجھے… عزت سواہ کر دی میری،ابا کو دیکھا تھا گوبر کے پاس بیٹھا رہا گند میں… حقہ گڑگڑاتا رہا مچھر مکھی کی بھنبھناہٹ سنتا رہا ہمیں کتا سمجھ کر ہش بھی نہ کیا۔“ جاوید سارے راستے بکتا رہا۔
نوری چپ رہی اس کے گھر والوں کو بھی گالیاں دیتا رہا۔
نوری نے کام والی کو ساری چیزیں اٹھوا دیں۔ اسے منہ کھول کر حیرت کے اظہار کا سلیقہ بھی نہ آیا۔ جھپٹ کر چیزیں نکل گئی کہ باجی سیٹھا گئی ہے کہیں عقل ہی نہ پکڑ لے۔
گاؤں کا اپنا راستہ نوری بھاگ کر بند کر آئی تھی نا… اس پر لگا تالا بھی کل دیکھ آئی تھی تسلی ہو گئی تھی۔

(جاری ہے)

جاوید نے پستول والی الماری کو تالا لگا دیا وہ تو گھر کو ہی تالا لگا کر بھاگ لئے تھے اس کے پیچھے خاک آئیں گے۔
نوری کا خیال تھا کہ اس کے بھائی گاؤں گاؤں پھرے ہونگے اسے ڈھونڈتے ریلوے اسٹیشن،لاری اڈے جانے کہاں کہاں مہینوں کھپتے رہے ہوں گے۔ نوری مل جائے کہیں نوری مل جائے مارنا ہی ہے لیکن پکڑ میں تو آئے۔
انہوں نے تو اسے اتنی وقعت بھی نہ دی کہ ڈھونڈ کر مار ہی ڈالیں۔ انہوں نے شاید زمین تھوکا ہوگا۔
”اخ تھو… اماں سمجھ لے وہ کبھی اس گھر میں رہی ہی نہیں،پیدا ہی نہیں ہوئی… بھاگ گئی ہے نا… اولاد والی ہو گی تو اولاد اس سے بھاگے گی… بار بار بھاگے گی… ایک بار کی بھاگی بار بار بھاگتی ہے۔
ٹھکانے بدلتی ہے… بدلتی ہی رہے گی۔“
بھائیوں نے ٹرنک میں سے کپڑے نکال کر آگ لگا دی ہوگی ہر نشان مٹا دیا ہوگا اس کا۔ اگر جو کوئی اس کا پوچھ ہی لیتا ہوگا تو صاف کہتے ہونگے۔
”کون نوری؟ ہم تو نہیں جانتے… ہم سے نہ پوچھو…“
اماں نے جہیز کا سامان نکال نکال نائین یا چمارن کو اٹھوا دیا ہوگا اور ابا اس نے زمین پر دو تین بار چپل ماری ہوگی۔
”میرے لئے تو یہ گو موت ہوئی۔“
ابا کی جب کسی سے لڑائی ہوتی وہ زمین پر تھوک کر دو تین بار چپل مار کر دو چار گالیاں دے کر کہتا۔ ”لو یہ پڑا ہے یہ… کر لو جو کرنا… پھر کبھی ابا اس کی طرف پرت کر نہ دیکھتا۔ تو اب وہ بھی ان سب کیلئے گو موت ہوئی… گند… اس کا ابا کتنی جلدی اس کی اصلیت جان گیا خود نوری کے جاننے سے بھی پہلے وہ جان گیا کہ وہ غلاظت کا ڈھیر ہے… ایسی غلاظت جسے ڈھیر پانی سے بہا دیا جاتا ہے ورنہ بدبو آتی ہے۔
###
نوری ایک بیٹی کی ماں بن گئی اس میں رچ بس گئی،بیٹے کیلئے آہیں ضروری بھرتی،مانو کی جگہ اس کے بیٹا ہوتا تو اس کا دل خوش ہو جاتا،گڑیا سکول جانے لگی،مہینے میں ایک بار نوری پارلر چلی جاتی،بال بھی رنگوا لئے تھے۔
کئی بار جاوید نے بتایا کہ بیگمات کیسے چلتی ہیں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر ایسے جیسے ہوا میں ہلکورے لے رہی ہوں،تو بھی ایسے چلا کر،وہ ویسے تو خاک چلتی ہاں کچھ قریب قریب ضرور ہو گئی تھی باہر نکلتی تو چال کو قابو میں رکھتی اور گھر آتے ہی گم کئے سانس کی طرح چال کو ایک دم سے کھلا چھوڑ دیتی۔
بہت سی چیزوں کا ملغوبہ بن گئی تھی۔ بال رنگوانے میں کٹوانے میں،برقع پہننا ہے نقاب نہیں کرنا،جھینگا چٹخارے کے لیے کھانا ہے پیٹ بھرنے کیلئے نان کباب کھانے ہیں، جھینگنے سے زبان بھرتی ہے پیٹ نہیں… بے شک زبان بھرنے والے کھانوں سے پیٹ بھر کر حلق تک آ جاتا۔
کام والی کام کر جاتی تو اس کی چندی آنکھوں کو گند نظر آنے لگتا،پانی کا پائپ لگا کر فرش دھونے بیٹھ جاتی۔
دل کرتا تو کھانا پکا لیتی پھر چکھتی تو بدمزہ لگتا اور وہ بدمزہ کھانا کام والی مزے سے کھا جاتی۔ نوری جاوید کو فون کرکے بازار سے ہی منگواتی،پیزا کا آڈر دینا بھی آ گیا تھا نوری کو پانچ سو کا پیزا لانے والے کو تین سو روپیہ ٹپ پکڑا دیتی… اگلے دن پیٹ بھر کر پیزا کام والی ہی کھاتی باجی نوری نے ذرا سا چکھا ہی ہوتا تھا۔
جاوید سیدھا سادا ہی رہا،گھر آتا،نان کباب،مچھلی،گوشت،سلاد،کھیر،گاجر کا حلوہ،دس بندوں جتنا لے آتا خوب ٹھس ٹھسا کر کھاتا اوپر سے دو گلاس پانی پیتا پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ڈکار لیتا پیسوں کا حساب کتاب کرتا اور سو جاتا۔
وہ روز کا روز ایک ہی رہا۔
صبح کام والی آتی تو میز پر رات کا بچا کھانا اٹھا کر شاپر میں ڈال کر جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے جاتی، روز اُسے اتنا کھانا مل جاتا تھا کہ اسے روز ہی پکانا نہیں پڑتا تھا ایک ذرا سی خواہش تھی اس کی کہ رات کو اگر یہ کھانا ڈھانپ دیا جائے تو ذرا سا کھٹکا بھی جاتا رہے… لیکن وہ اس ذرا سے کھٹکے کے ساتھ ہی کھا لیتی تھی۔
اکثر رات کو نوری اُٹھ بیٹھتی… نہ جاننے کے احساس کو لئے رونے لگتی،کبھی ایک بار بھی نہیں ہوا تھا کہ جاوید نے آنکھ کھول کر اسے دیکھا ہو اسے پچکار کر سو جانے کیلئے کہا ہو۔ وہ گڑیا کے بستر پر آ جاتی اسی کے ساتھ سو جاتی ورنہ جاگتی رہتی۔ مانو سادھو سی بچی تھی بمشکل ہی روتی،بھوکی ہو کر بھی نہ مچلتی … پڑے خود ہی سو جاتی،گڑیا الگ ہی تھی عجیب ہی باتیں کرتی۔
”اماں بدبو… نہاتی نہیں ہو کیا؟ نئی نئی سکول جا رہی تھی تو نئی نئی باتیں کرنے لگی تھی۔ نوری خود کو تسلی دیتی دوبارہ پھر سے نہا لیتی صاف کپڑے پہنتی کہاں کی بو پھر… پر گڑیا پھر بھی باز نہ آتی۔
”اماں تمہارے دانت میں خون لگا ہے” ایک آدھ میں کیڑا لگا تھا گڑیا کو خون نظر آ رہا تھا۔ جاوید گدھے کی طرح ہچکوں ہچکوں کرنے لگا۔
”ہاں خون ہی ہے گڑیا… تیری ماں خون پیتی ہے… چڑیل ہے یہ بڑے لوگوں کو مر کھاتی ہے“ ہچکوں ہچکوں میں اکیلی تو نہیں مار کھاتی… نوری پھنکاری۔
جاوید نے پھاڑ کھانے والی نظروں سے اسے گھورا۔
”اب بول نا… کہہ کہ ہم سب اورھ بلائیں ہیں مل کر کھا رہے ہیں“جاوید غصے سے اٹھ کر چلا گیا لیکن نوری کو منا منی یاد آ گئے۔ ایسے وقت وہ ٹی وی کی آواز اونچی کر دیتی تھی یا پرس اٹھا کر بازار چلی جاتی،کپڑے جوتے خریدتی دکان داروں سے بلاوجہ بحث کرتی اٹھ کر چلی جاتی پھر واپس آکر وہی چیز خرید کر گھر لے آتی۔
گھر آنے تک منا منی بھول چکی ہوتی۔ کپڑے ساتھ لگا لگا کر دیکھتی جوتے جیولری پہن پہن کر شیشے کے آگے کھڑی رہتی۔
نوری عورت ہی بنی رہتی… کھانے پینے والی گڑیا… بیاہ بیاہ رچانے والی گڑیا… سبھی کھیل کھیلنے والی گڑیا۔
اس گڑیا کو اب صرف ایک بیٹا چاہیے تھا جلد سے جلد… سبھی کچھ تھا صرف ایک بیٹا ہی نہیں تھا۔ بیٹے کی پیاس لگ گئی تھی اسے بیٹا بیٹا کرتی رہتی ہر وقت… امید سے تھی بہت خوش رہتی تھی ہزار طرح کی چیزیں منگوا کر بچوں میں بانٹتی،منت کا پیالہ اٹھایا… چادر مان لی دیگیں مان لی…
جاوید بہت چپ چپ رہتا اسے گنگناتے دیکھ لیتا تو چڑ جاتا۔
”بند کر اپنے یہ سُسر“ وہ ڈر کر اپنے سُسر بند کر لیتی پھر بھی خوش ہی رہتی جی بھر کر خریداری کر رہی تھی۔ جاوید کو ایک دن دکھانے بیٹھ گئی سب،جاوید نے سارے شاپر اٹھا کر الماری میں رکھ کر تالا لگا دیا،وہ منہ کھول کر اسے دیکھنے لگی۔
”تالا کیوں لگایا“ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
”ابھی انہیں تالے میں ہی رہنے دے… دیکھیں گے کب باہر نکالنا ہے“جاوید سگریٹ سلگا کر سوٹے لگانے لگا۔
 
”ایک اور گاہک… ایک اور سودا۔“ نوری بت بن گئی۔
کیسے دل لگا کر کام کرتا تھا جاوید… فارغ رہتا ہی نہیں تھا… اس کا باپ اسے ایک ہی گالی دیا کرتا تھا ”کم ذات“ گالی چھوٹی تھی بہت گہری تھی۔
”وہ ذات کا کمینہ اور خواص کا شیطان تھا۔“
باہر ہی باہر گندم کی کئی بوریاں بیچ کر کھا گیا تھا۔ ابا کو پتا چل ہی گیا کہ گودام میں سے گندم جا کہاں رہی ہے۔
وہ گھر کو ہی بیچ کھانے والوں میں سے تھا۔ اماں کی سونے کی بالیاں،بڑی چھوٹی پیٹی میں رکھے پتل تابنے کے بڑے بڑے پتیلے… لوہے کی بالٹیاں،چمٹے،گلاس،جگ،گھر والے کسی شادی،مرگ میں جاتے اور وہ پیچھے کچھ نہ کچھ بیچ کر کھا جاتا۔ گھر کا کاٹھ کباڑھ تو وہ سامنے ہی سائیکل پر لاد لاد کر کباڑیے کے پاس لے جاتا… باقی کا سب ادھر ادھر ہو جاتے تو نکال کر لے جاتا۔
اماں کا چاندی کا لوٹا تھا کبھی کبھار وضو کیلئے استعمال کر لیتی تھیں ایک دن وہ لے اڑا اماں نے دو تھپڑ لگائے۔
”وضو کی چیز بھی نہ چھوڑی بدذات تو نے۔“
وہ ہر چیز پر نظر رکھتا کہ کیا کیا بک سکتا ہے اٹھا اٹھا کر چیزیں دیکھتا یہ اتنے کی نکل جائے گی وہ اتنے کی نکلے گی… موقعے کی تاک میں رہتا گھر والوں کی لعن طعن سے ذرا نہ گھبراتا۔
اگر کوئی بیوپاری بن جائے تو وہ اپنے سونے کا بستر اور پہنے کپڑے بھی بیچ ڈالتا ہے۔ مول کھرے کرنا ایسا نشہ ہے کہ پیسہ بے شک زمین میں دبا دے یا دریا میں بہا دے مول کھرے کرنے سے باز نہ آئے۔ اپنے گاؤں کے گھر میں لوٹے گلاس پر نظر رکھ کر دل ہی دل میں اس کا بھاؤ لگانے والے جاوید نے اب ایک ہی زمین پر نظر رکھ چھوڑی تھی مول بھی اسے معلوم تھا اور تول بھی۔
”ذات کا کمینہ خواص کا شیطان۔“
کوئی بیگم تھیں جن کے بنگلے پر جاوید انڈے ڈبل روٹی کی ترسیل کیلئے جاتا تھا۔ جانتا تو وہ ہر بنگلے کی ہر بیگم کو تھا۔ آنکھیں جو تراش لی تھیں اپنی اب سب پر نظر رکھتا تھا۔
بیگم کی سہیلی تھی امریکہ میں… چند سال ہوئے تھے شادی کو،لڑکی بانجھ تھی معجزے سے ہی ماں بن سکتی تھی۔ خاندان سے چھپا کر بیٹھے تھے دونوں میاں بیوی۔
جاوید نے بیگم سے بات طے کر لی۔ بیگم اور سہیلی مریم رابطے میں تھے۔ میڈیکل چیک اپ کی رپورٹس امریکہ فیکس ہونے لگیں،نوری ذرا مہنگے کلینک لے جائی جانے لگی۔ مریم اور اس کا شوہر سیاحت کا کہہ کر امریکہ سے نکلے پیرس گھومنے وہاں سے جرمنی ترکی کو پار کرتے پاکستان آ گئے… مریم نے امریکہ فون کرکے اپنے امید سے ہونے کا بتا دیا… مزید یہ کہ سفر منع ہے بے بی لے کر ہی امریکہ آئیں گے۔
یہ تو اتنی بڑی آسامی تھی کہ جاوید کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ کیا مانگے؟ کتنا مانگے؟ کیا چھوڑے کیا لے…
جاوید مریم اور اسفند سے ملا بے حد خوبصورت تھے دونوں،اپنا کہہ کر بچہ گود لے جا کر خاندان والوں کی گود میں ڈالنے والے تھے۔ پہلے انہوں نے کاغذات بنوائے بچے کی سپردگی کے۔
اب اتنے بھی الو کے پٹھے نہیں تھے امریکہ سے آئے،دنیا گھومے تھے،جانتے تھے کوڑیوں کے بھاؤ رلتے ہیں بچے تیری دنیا میں جتنے چاہے اٹھا لو۔
وہ تو انہیں عین وقت پر ان کی منصوبہ بندی کے مطابق چل رہا تھا تو دو پیسے دے بھی رہے تھے۔
چند لاکھ پاکستانی روپے ہاتھ میں تھمائے،دستخط کروائے اور یہ وہ جا۔ جاوید تو دیکھتا ہی رہ گیا اس کی تو ایک نہ چلی،ان کی انگریزی گٹ پٹ اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ بیگم ہی درمیان میں رہی۔
جاوید کا منہ کڑوا ہو گیا،چند لاکھ امریکن ڈالرز کی جگہ وہ اسے پاکستانی پیسے دے گئے تھے۔
جاوید بچھتایا مول ٹھیک سے نہیں کمایا۔
رہا نہ وہ سیدھا سادا گاؤں کا دیہاتی جسے سب شہری الو بنا جاتے ہیں سو سو گالیاں دی انہیں نوری سے بھی منہ ماری ہوئی،بیگم کا بھی سر کھایا اس نے سولہ آنے کی بات منہ پر ماری۔
”دو پیسے کی چیز تھی وہ تو لاکھوں میں لے گئے۔“
”میرا بچہ دو پیسے کا تھا“ جاوید برا مان گیاچلانے لگا۔
”دو پیسے کا نہ ہوتا تو قارون کے خزانے پر بھی کسی کو نہ دیتے“ کمال کی بات کر دی تھی بیگم نے ایسے ہی بنگلے میں نہیں رہ رہی تھی۔
”بدشکلوں والے یہ امیر لوگ مر کیوں نہیں جاتے۔“
اس بار نوری مہینوں روتی رہی اس بار بیٹا تھا پر جاوید نے اس کی سنی نہ کچھ سوچا،کلینک سے بیٹا لے کر نکل گیا کار میں تھے وہ تینوں،لڑکا لیا،چیک دیا… دستخط وہ پہلے ہی لے چکے تھے اور سودا ختم۔
جاوید کا اندر ٹھنڈا تھا چنگاری نوری کے اندر بھڑکی۔ جاوید سے بہت مار کھائی پیار سے سمجھایا… منایا… نہیں مانی تو خوب مارا۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed