Episode 9 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 9 - سودا - سمیرا حمید

کون کسے الزام دیتا کسے گناہ گار کہتا خود کو بری کیسے کرتا،نوری کیسے جاوید کی طرف انگلی کرتی باقی کی چار خود اس کی طرف اٹھتیں۔ نوری کس کو جا کر کہتی کہ جاوید کو روکو،اپنے باپ کو یا جاوید کے باپ کو؟ دونوں کے باپ دونوں کو دھتکار چکے تھے وہ کس کے پاس جاتی اور جاتی بھی کیوں؟
وہ تو نوری بنی رہی جاوید کی محبوبہ،اب جاوید کو کون روکتا مل کر کھیل شروع کیا تھا اب ایک بھلے سے پیچھے ہٹ جائے،دوسرا تو کھیلے گا اپنی مرض اپنی چاہ سے۔
اس ایک منے پر ہی بس نہیں ہوتی ڈھلتی عمر کی ایک وکیل بیوہ فاخرہ نے ایک لڑکی لے لی۔ جاوید نے دی تو اس نے لے لی۔
پشتوں سے خاندانی دشمنی چلی آ رہی تھی دو بہن بھائی ہی بچے تھے بھائی بیرون ملک جا کر لاپتہ ہو گیا تھا سالوں بعد بڑی بہن سے رابطہ کر لیتا ڈر ہی رہتا کہ کوئی رابطہ اسے لے ہی نہ ڈوبے ساری جائیداد پر قبضہ ہو چکا تھا سب کی جانیں جا چکی تھیں۔

(جاری ہے)

 
فاخرہ کا شوہر بھی اسی دشمنی کے ہاتھوں قتل ہوا بس اسی قتل کیلئے آواز اٹھا رہی تھی انصاف چاہتی تھی سالوں سے جی جان لگا کر مقدمہ لڑ رہی تھی شوہر کے قاتلوں کو سزا دلوا کر ہی چھوڑنا چاہتی تھی… اپنی پریکٹس بھی تھوڑی بہت چل رہی تھی ایک بار خود کشی کی کوشش بھی کر چکی تھی۔ جاوید کا آنا جانا تھا اس کی اجاڑ کوٹھی میں۔ جاوید نے ہی سمجھایا کہ اپنی اجاڑ زندگی کو آباد کر لے کوئی بچہ لے کر پال لے۔
”ایک بار گئی تھی ایک ادارے سے بچہ لینے خاندانی دشمنی کی تاریخ کا سن کر انکار کر دیا ایک نے ضمانت مانگی کہ میں بچے کی سکیورٹی کی ضمانت دے دوں میری اپنی جان کی ضمانت نہیں ہے چوکیدار آئے دن بھاگ جاتے ہیں،بھائی ملکوں ملک بھاگ رہا ہے،میرا تو ایسے منہ چھپا کر بھاگے پھرنے کو جی نہیں چاہتا،شوہر کے گھر کو چھوڑ کر کیسے چلی جاؤں… موت تو جب آئے گی کسی بھی جگہ آ جائے گی۔
اس اکیلی،دکھیاری بیوہ عورت کو جاوید نے اپنی بیٹی دے دی تاکہ اس کی زندگی میں بہار آ جائے۔ امیر دیوالیہ بھی ہو جائے تو فقیر نہیں بنتا… جاوید نے ایسے ہی بچی نہیں دی تھی۔ میڈم فاخرہ کو۔ وہ بھی فقیر نہیں ہوئی تھی اپنی طرف سے کچھ نہیں دیا تھا لیکن گھر کی ہر چھوٹی بڑی چیز بیچ آنے والے کیلئے وہ بہت تھا… بہت تھا۔
پلاسٹک کے برتن بنانے والی فیکٹری تھی فی الحال بند تھی۔
جاوید نے چپکے سے جا کر جائزہ لیا جاوید کا حلقہ احباب کم نہیں تھا وہ تو عورت تھی کیا قبضہ چھڑواتی یہ تو مردوں کے کام ہوتے ہیں جاوید ہٹا کٹا گھاگ،عیار… اور پھر دلال… اس کے تو بائیں ہاتھ کا کام تھا قبضہ چھڑوانا۔
اصل کاغذات لے کر جاوید لاہور کے بڑے اور مانے ہوئے بدمعاش گڈو کے پاس گیا،گڈو نے کاغذات دیکھے،فیکٹری دیکھی اور فیکٹری کے آدھے مالکانہ حقوق پر راضی ہو گیا… سودا یہ بھی گھاٹے کا نہیں تھا بے کار سے مفت بھلا اور مفت سے آدھا… چھ مہینے کے اندر اندر گڈو نے فیکٹری کا قبضہ لے لیا بدمعاش ہی وہاں قبضہ کئے بیٹھے تھے بدمعاشوں نے ہی قبضہ چھڑوا لیا۔
اس ساری رات جاوید سو نہیں سکا اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ کبھی وہ ایک سائیکل کا ہی مالک بن جائے گا آج وہ ایک فیکٹری کا مالک بن چکا تھا۔ برتن بنانے کا پلانٹ لگا ہوا تھا فیکٹری چالو کرنے پر جو لاگت آئی وہ گڈو نے اٹھائی اور وہ تین چوتھائی کا مالک بن گیا۔ یہ تو ہونا ہی تھا بدمعاشوں کی بدمعاشی سے کوئی نہیں بچتا۔ جاوید اندر ہی اندر کھولتا رہا لیکن کیا کرتا چوں چاں کرتا تو قتل ہو جاتا اب جو تھا بہت تھا۔
نوری نے جو وائی تباہی مچائی تھی اسی کا انجام تھا یہ،گھر آ کر جاوید نے نوری کی خوب دل لگا کر دھلائی کی۔
”تیرے رونے کی نحوست پڑی ہے سب پر… سب کچھ ہاتھ سے گیا۔“
پوری فیکٹری کا مالک اب ایک چوتھائی کا حق دار رہ گیا تھا سب نوری کی نحوست کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔
”تیرا باپ بہت بیمار ہے نوری“ شام کو جاوید کو ایک دم سے یاد آیا اسے بتاتا اس کا رابطہ تھا گاؤں کے یار دوستوں کے ساتھ۔
”زیادہ بیمار ہے ابا۔“
”دیکھ آ جا کر…“ جاوید نے بروقت طنز کیا۔ آدھی رات کو فون سنا اسے اٹھایا… وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
”جلدی کر بی بی تیرا پیو مر گیا“ اس نے سوچا کہ ذرا طریقے سے اسے بتائے گا لیکن وہ اٹھ ہی نہیں رہی تھی وہ سوتی پڑی کہ کان میں ہی چلایا۔
”اسے جھنجھوڑا… نوری بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔“
”اٹھے گی یا مرے کا منہ بھی نہیں دیکھے گی۔
مرے کا منہ دیکھنے کیلئے وہ اٹھ بیٹھی۔
###
وہ پھوڑی میں ایک طرف ہو کر بیٹھ گئی کسی ایک نے بھی پلٹ کر دیکھا نہ منہ لگایا بڑی چیز تھے وہ سب ایسے ظاہر کر رہے تھے جیسے نوری وہاں بیٹھی ہی نہیں اس کی خالہ اس کی پھوپی اس سے الجھی کر گرنے لگیں جیسے اس سے نہیں کسی اینٹ پتھر سے الجھی ہوں۔ ہونہہ… نہیں تو نہ سہی… نوری جم کر پرے بیٹھی رہی۔
جاوید مردانے میں تھا۔ اس کی بہنوں بھابھیوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا… کیسے نہ اٹھاتیں یہ وہی باپ تھا جس نے بہوؤں کا غصہ بیٹیوں پر اتار لیا اور بیٹیوں کا غصہ بیوی پر لیکن انہیں کچھ نہ کہا کبھی۔
نوری نے لعنت بھیجی جاوید پر کس کی محبت میں اندھی ہو کر وہ گھر سے نکل گئی۔ ورنہ آج وہ بھی دل کھول کر بین ڈالتی،بال کھول مٹی سواہ ڈالتی،بڑی بوڑھیوں کے گلے لگتی،ماں بہن کے گلے سے جھولتی،کوئی اسے بھی تسلی دیتا،صبر کا کہتا اس کے آنسو پونچھتا۔
اس کا دل جلتے تیل کی کڑاہی میں جیسے ابلنے لگا خون دماغ کو چڑھنے لگا۔ چپکے چپکے آنسو بہا رہی تھی اماں نے ایک بار بھی پلٹ کر اسے نہ دیکھا آپا کی طرح اس کا بھی جی چاہا کہ بار بار لپک کر ابا کی پیشانی چومے،ہاتھوں کو گالوں سے لگائے اور نہیں تو قریب بیٹھ کر چپکے سے معافی ہی مانگ لے اب ابا تو چپل مارنے سے رہا لیکن وہ جانتی تھی اب سب سے ہاتھوں میں چپل ہو گی وہ قریب ہوئی نہیں کہ سب اس پر بل پڑیں گے۔
”آگئی باپ کو پلید کرنے“
”چل پرے ہٹ“
وہ پرے ہی ہٹی رہی بہانے سے گڑیا کو آگے کیا کہ نانا کو پہلی اور آخری بار دیکھ لے کہ آپا نے ہاتھ بڑھا کر گڑیا کو پرے دھکا دیا نوری بل کھا کر رہ گئی۔
جنازہ اٹھا تو کہرام مچا اس کی بہنیں غش کھا کر گریں… غش اسے بھی پڑ رے تھے مگر اس کے منہ میں کوئی پانی ڈالنے والا نہیں تھا تو گری نہیں کھڑی رہی۔
حاجن جی آئیں اس کے پاس صبر کرنے کا کہا اور یہ بھی کہ اب بس جاؤ… وہ ڈھیٹ بن کر بیٹھی رہی چلی جائے گی اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ اس نے سوچا ذرا نظر بچا کر ابا کے ٹرنک میں سے اس کا ایک آدھ کپڑا ساتھ لے جائے جب وہ بھاگ رہی تھی تو اپنے کپڑے ساتھ لے جا رہی تھی اور ساتھ باپ کی عزت اب اسے مرے ہوئے کا ایک کپڑا چاہیے تھا جسے سینے سے لگا کر وہ ابا کی خوشبو سونگھ سکے اور اسے یاد رہے کہ اس کا کوئی باپ تھا۔
ایسا باپ جس پر بھاگتے ہوئے نظر نہ ڈالی تھی اور مرے ہوئے کو مسلسل دیکھ رہی تھی جس کی کھلی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی اور اب بند آنکھوں کو چومنا چاہتی تھی۔
ابا کے کمرے کی طرف نظر رکھے وہ موقع کی تاک میں تھی لیکن اندر باہر سوگوار جمع تھے ساری برادری آئی تھی وہ کیسے ابا والے کمرے میں چلی جاتی رات کے آثار نمایاں ہونے لگے،رشتے داروں کا رش ذرا چھٹا تو اماں اس کے قریب بیٹھی۔
”کس دھندے سے لگی ہے تو نوری وہاں“ نوری ہکا بکا رہ گئی مرگ والے گھر میں اماں کیا لے کر بیٹھ گئی تھی اسے گلے سے نہ لگاتی تسلی نہ دیتی اتنی بڑی گالی تو نہ دیتی بیوہ نہ ہوئی ہوتی اماں تو ضرور نوری پلٹ کر کھری کھری سناتی۔
”تہجد پڑھ کر سوتی ہوں تو تیرے ہاتھ پاؤں،ناک منہ کان سے پھنسی پھوڑوں سا خون نکلتا دکھائی دیتا ہے… کس گند سے لگی ہے نوری غڑغڑ کس کا خون پیتی ہے؟“
نوری کو لگا ابھی ابھی اسی کا جنازہ اٹھا وہی مر گئی قبر میں بھی وہی پڑی… منکر نکیر آئے کھڑے ہیں… پوچھتے ہیں ”بول نوری… بتا نوری…“
”تیرا باپ قبر میں پڑا ہے نا مجھے بھی جانا ہے اولاد کیلئے بھی جواب دینا ہوگا ہمیں… کچھ رحم کر اپنے مرے باپ پر اپنی پوچھ پڑتال کا بوجھ اس پر نہ ڈال۔
نماز روزہ کیا کر… باقی ہم نے تجھے معاف کیا اپنی دنیا میں بس یہاں نہ آیا کر۔“
نوری نے چار بندوں کا انتظار کیا کہ آئیں اور اس کا لاشا اٹھا کر لے جائیں اس سے اپنی لاش کا بوجھ اب کہاں اٹھایا جائے گا۔
گاؤں میں رہنے والی اس کی اماں نے کتنی باتیں جان لی تھیں کیا یہ مائیں ولی ہوتی ہیں؟
اماں نے زندگی بھر ایک تہجد نہ چھوڑی اور نوری نے ایک بھی فرض نہ پکڑا۔ دیواریں تھام کر نوری اٹھی باہر نکلی۔
اس کے اتنے بڑے خاندان میں صرف جاوید ہی سیٹھ لگ رہا تھا اور وہ اکیلی سیٹھانی آپا بھابھیاں خاندان کی دوسری سب اس کے سامنے چوڑی چمارن لگ رہی تھیں۔ ایک وہی مہارانی تھی ان میں مہارانی چپکے سے اپنے محل میں واپس آ گئی۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed