Episode 12 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 12 - سودا - سمیرا حمید

انسان کے اتار چڑھاؤ انسان ہی جانے،چاند تو چاند نہ رہا،بنا بچے کے اماں ابا بن گیا،ماں کو میاں کو یاد کر کرکے روتا،میاں کو معاف کر دیا تھا اپنی معافی کیلئے روتا تھا اب۔
ڈھلتی عمر میں کیا سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے؟ یہ ڈھلتی عمر میں سوچ کے اتنے در کیوں کھل جاتے ہیں،پچھتاوے کیوں جاگنے لگتے ہیں،گناہوں کی سمجھ کیوں آنے لگتی ہے؟ ہنسی ٹھٹھے گناہ کیوں بن جاتے ہیں،یہ عمروں کا آخر… انسانی خاتمے کی قربت… ایک اختتام کا انجام یہ اتنی قیامت کیوں لاتا ہے؟ اس کے اندر دونوں سمندر بیک وقت ٹھاٹھیں مارنے لگے،پدرانہ و مادرانہ… پل پل وہ پاگل ہونے لگا جیسے بن چاہی دلہن پل پل مرتی ہے۔
 رشید کو لگتا اس کی شادی کو عشرے بیت گئے ہیں اب بس گود بھرنے کا انتظار اور نہیں ہوتا،یا انگارے بھر دو یا گود،وہ بانجھ پن کا بوجھ اٹھائے سیاہ پڑتی عورت کی طرح باؤلا ہو گیا وہ ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس بھاگتی ہیں یہ مزاروں اور بچہ دینے اور دلانے والوں کے یہاں جانے لگا،ورنہ کیا تھا کسی بھی اٹھائی گیر سے بات طے کرتا پیسے دیتا اور کسی کا بھی بچہ اٹھوا لیتا لیکن وہ ذات کا بے ذات ہو سکتا تھا خصائل میں اچھے اثرات باقی تھے۔

(جاری ہے)

بچی ذات وہ رکھ نہیں سکتا پھراس کی شادی کا مسئلہ ہوتا،لڑکا کوئی دیتا نہیں تھا،ایک بچی تو مفت مل رہی تھی آٹھویں بچی تھی اپنی ماں کی ماں نے کہا لے جاؤ اس کا باپ اسے مار دے گا،چاند نے ہاتھ جوڑ کر انکار کیا۔
”میرے ساتھ اسے معاشرہ مار دے گا“
رشید جب چاند بنا تھا تو خوب بنا تھا ہیرا منڈی میں اس کی چاندنی کو زوال نہیں تھا اب باپ بننا چاہتا تھا تو خوب تڑپ رہا تھا… اس نے ہر سوانگ بہت دل سے اور جم کر رچایا۔
جاوید کے گھر سے نکلتے ہی… امین کو سینے سے لگاتے ہی وہ کئی جہانوں کی سیر کر چکا تھا۔ داڑھی رکھ لی تھی میاں جی کی طرح سرحد کے ایک چھوٹے سے قصبے کی طرف چلا گیا تھا۔ ہر اس امکان سے دور جہاں اسے پہچان لیا جائے۔ رات دن محنت مزدوری کرتا تھا۔ اچھے لوگوں میں تھا اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ جتنے پیسے تھے وہ اس نے امین کیلئے بچا رکھے تھے،فی الحال وہ اسے اپنی کمائی ہی کھلا رہا تھا تاکہ جب وہ بڑا ہو اس کا مستقبل محفوظ ہو اور وہ آرام سے پڑھ سکے۔
راستے کی ایک مسجد کے مولوی صاحب سے اس کے کان میں اذان دلوائی تھی اور نام بھی انہوں نے ہی رکھا تھا۔
امین چاند کا چاند تھا اسے بہت پیارا تھا۔
جب امین چلنے لگا تو وہ اسے پانچ وقت مسجد لے جاتا،بولنے لگا تو مدرسے کے استاد محترم کے پاس چھوڑ آیا۔ اس قصبے میں کوئی سکول نہیں تھا بہت لمبی مسافت پر تھا مدرسے میں ہی ابتدائی تعلیم دی جاتی تھی… امین نے الف اللہ ب بسم اللہ سیکھ لی،رشید کئی کئی بار امین سے اس کا سبق سنتا اس کا جی ہی نہ بھرتا امین کو سن سن کر۔
رشید امین کو کھلاتا،نہلاتا … مدرسے لے کر جاتا… رات کو اسے سرکار دو عالمﷺ کا درود سیکھا کر سلا دیتا،درود پاک کی ہی لوری سناتا اسی لوری سے اٹھاتا۔ رشید خوش تھا اب اپنی زندگی سے اسے وہ مل گیا تھا جو اس نے کبھی نہیں چاہا تھا اور جب چاہا تو ویسا ہی مل گیا۔
کرائے کے چھوٹے سے گھر میں وہ دونوں خوش تھے،امین کی جان تھی رشید بابا میں… اس بابا کو دیکھ دیکھ کر وہ سانس لیتا تھا۔
رشید نے ایک بار سوچا کہ امین کو اس کے ماں باپ بہن بھائیوں سے ملوانا چاہئے،دونوں ملتے رہیں گے لیکن یہ بعد کی باتیں تھیں ابھی وہ صرف اپنے اور امین کیلئے جی رہا تھا۔ امین اس سے اتنا پیار کرتا ہے کہ اسے کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گا وہ اسے سب سچ سچ بتا دے گا کہ رشید کا ماضی کیا تھا کہاں رہا اور امین کو کیسے حاصل کیاوہ اس کا لے پالک باپ ضرور تھا لیکن محبت کی ہر حد سے زیادہ اس سے محبت کرتا تھا۔
وہ امین کے دونوں ہاتھ اٹھوا کر میاں اور گلابی کیلئے دعا کرواتا،امین ایک بے حد من موہنا بچہ تھا بے حد پیارا…
###
گوہر سارہ کو لے کر کینیڈا اپنے والدین کے ساتھ رہنے لگی۔ سارہ بہت خوبصورت تھی اس کے گھر والوں نے کھلے دل سے اس کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ گوہر سارہ سے پہلے سکون آور گولیاں کھاتی تھی اس عادت سے چھٹکارا ملا،نفسیاتی مریضہ بننے لگی تھی۔
سارہ اس کی زندگی میں انقلاب لے آئی۔ گوہر کی ایک بہن اور دو بھائی شادی شدہ تھے گوہر سے زیادہ سارہ سے پیار کرنے لگے تھے۔
کینیڈا میں اس نے اپنا گھر سیٹ کر لیا الگ سے… جاب کرنے لگی،سارہ کو لے کر گھومتی،رات کو اس کے ساتھ باتیں کرتے کرتے سو جاتی۔ وہ سارہ کے ساتھ اپنی زندگی سے بے حد خوش تھی۔ ویک اینڈ پر سب اکٹھے ہو کر ڈیڈی کے گھر ڈنر کرتے… ایک عرصہ وہ آپس میں ناراض رہے تھے،ان سب کے درمیان گوہر کی اپنی مرضی کی شادی نے خلیج پیدا کر دی تھی گوہر کو ثاقب کے ساتھ طوفانی محبت ہو گئی تھی سانس نہیں آ رہا تھا ثاقب کے بغیر،کینیڈا میں ہونے والی ایک بین الاقوامی بزنس کانفرنس میں ثاقب شریک تھا گوہر وہاں اپنے آرٹیکل کیلئے گئی تھی جو اسے کالج میگزین کیلئے لکھنا تھا۔
 اس پہلی ملاقات کے بعد گوہر ثاقب کے پیچھے پاکستان تک گئی اپنے گھر والوں کو ناراض کیا،نہ صرف گئی بلکہ شادی بھی کر لی،اتنے سال اس کیلئے پاکستان میں رہی۔ ثاقب کو اولاد کی پرواہ نہیں تھی کیونکہ اس کے دو بیٹے تھے۔ گوہر خود ہی علاج کرواتی رہی،امریکہ بھی اکیلی ہی گئی اس کام کیلئے ثاقب کے پاس وقت نہیں تھا وہ ایک اچھی کنسٹرکشن کمپنی کا مالک تھا پیسے کی کمی نہیں تھی وقت کی بہت کمی تھی۔
چند سالوں میں ہی گوہر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ کئی بار ثاقب سے لڑ کر طلاق کی بات کی… لیکن طلاق کا یہ مطالبہ ثاقب کے ذرا سے بہلانے پر محبت میں بدل جاتا… ایک دو بار وہ اس کے ساتھ چیک اپ کیلئے چلا گیا۔ دو بار گوہر کینیڈا بھی گئی گھر والوں سے ملی لیکن پہلے جیسی بات نہ بن سکی انہیں ثاقب پسند نہیں تھا ان کا کہنا تھا کہ گوہر بہت معصوم ہے لوگوں کی پہچان نہیں رکھتی ثاقب کو چھوڑ دے لیکن وہ ثاقب کو چھوڑ نہیں سکی،اولاد کیلئے تڑپتی رہی۔
ثاقب اسے بے بی لینے بھی نہیں دیتا تھا۔
جاوید نے اسے بے بی دینے کا کہا تھا تو وہ رہ نہ سکی اور خود سے ہی فیصلہ کر لیا۔ ثاقب نے صاف کہہ دیا کہ وہ اسے کسی بچے کے ساتھ گھر میں گھسنے نہیں دے گا،کچھ جاوید کا ڈر اور کچھ ثاقب سے اختلاف وہ فوراً کینیڈا آ گئی۔
اس نے ڈیڈی کی گود میں سارہ دی تو وہ خوشی سے کھل اٹھے اس کے گھر والوں نے گرینڈ پارٹی دی سارہ کے اعزاز میں… گوہر تو جیسے ڈریم ورلڈ میں آ گئی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ بچے ایسے زندگی بدل دیتے ہیں اتنی پیاری لگنے لگتی ہے زندگی۔
آٹھ ماہ بعد ثاقب اس سے ملنے آیا یہ ٹھیک تھا کہ ان میں اختلاف تھا لیکن گوہر اس سے اتنی محبت کرتی تھی کہ ایک نئے اظہار محبت پر پچھلی لڑائی بھول جاتی۔ وہ ثاقب پر جان وار دیتی تھی۔ ثاقب اب گوہر سے ملنے چھ ماہ میں ایک بار آ جاتا،گوہر کیلئے یہی کافی تھا،ثاقب کے آنے سے پہلے گوہر سارہ کو ڈیڈی کے چھوڑ دیتی… ثاقب دس پندرہ دن رہتا اور چلا جاتا،وہ سارہ کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتا تھا اور پھر اتنے سے دنوں کیلئے گوہر کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی اس کی زندگی ٹھیک جا رہی تھی۔
سارہ سکول جانے لگی تھی… وہ سات سال کی ہوئی تو ثاقب اس پر نظر ڈال کر نظر ہٹانا بھول گیا ایک دو بار وہ اسے تین چار سال پہلے دیکھ چکا تھا اس بار دیکھا جیسے دنگ رہ گیا۔
”ادھر آؤ“ ثاقب نے پہلی بار بلایا اپنے پاس بٹھایا باتیں کی اس کے بال سہلانے لگا،گالوں پر چٹکی لی اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے بیٹھا رہا گوہر بہت خوش ہوئی،سارہ بھی بہت خوش نظر آنے لگی بہت دیر تک نئے نئے بنے پاپا سے باتیں کرتی رہی۔
پاپا اسے آئس کریم کھلانے لے گئے۔ اس کا سر سینے پر رکھ کر اس سے باتیں کرتے رہے،بار بار گال پر چٹکی لیتے… کس کرتے… گوہر تو نہال ہو گئی یہ سب دیکھ کر… اب اس کا گھر مکمل ہو گیا۔
ثاقب کی سارہ سے ملاقات بھی اتفاقیہ ہی تھی سارہ تھوڑی دیر کیلئے گھر آئی تھی،ڈیڈی کو کہیں جانا تھا ماما بھی گھر نہیں تھیں وہ اسے گوہر کے پاس چھوڑ گئے،ثاقب کو تو کوئی پسند ہی نہیں کرتا تھا۔
اس مکمل گھر کو مکمل ہی رکھنے کیلئے گوہر نے سارہ کو اپنے پاس ہی رکھ لیا،دونوں اسے گھمانے لے جاتے،سارہ پاپا کو بہت پسند کرنے لگی تھی،پاپا جو اس کا نہیں تھا لیکن بنا ضرور تھا۔ گوہر نے ایک ماہ کی چھٹی لے لی اور وہ تینوں امریکہ چلے گئے گھومنے۔ امریکہ سے ثاقب واپس پاکستان چلا گیا،دو ہی ماہ بعد پھر آ گیا۔ پہلے ثاقب لمبے عرصے بعد آتا تھا گوہر جاب سے چھٹی لے لیتی تھی اب اس کیلئے یہ ممکن نہیں تھا،ثاقب ہی سارہ کو سکول چھوڑ دیتا اسے لے بھی آتا،ڈیڈی ثاقب کے پیچھے پیچھے رہتے… گھر آ جاتے… یا سارہ کو ساتھ گھر لے جاتے… لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ سارہ کو پاپا ہی چاہئے تھے وہ ہر وقت ثاقب کے ساتھ رہنا چاہتی۔
اس دن ایسا ہوا کہ گوہر آفس سے جلدی آ گئی اس کا خیال تھا کہ ایک دو دنوں میں ثاقب چلا جائے گا تو وہ آج خاص ڈنر کی تیاری کر لے گی سارہ کو سکول لینے گئی تو پتا چلا کہ ثاقب اسے لے کر جا چکا ہے جبکہ ثاقب نے کہا تھا کہ آج اسے اپنے کسی ضروری کام سے جانا ہے۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed