Episode 17 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 17 - سودا - سمیرا حمید

ثاقب نے گوہر کو طلاق دے دی وہ اسے بیوی بنا کر رکھنا نہیں چاہتا تھا جو اپنے شریف شوہر پر کیچڑ اچھال رہی تھی۔ گوہر ثاقب کی دی پراپرٹی اس کے منہ پر مار آئی۔
دونوں میں سب کچھ شروع ہو کر ختم ہو گیا۔
اور سارہ؟
اس کی زندگی پر اتنے سوالیہ نشان لگ چکے تھے کہ انہیں مٹانے کیلئے کئی بہاریں چاہئیں تھیں… یہ بہاریں بھی کچھ کر پاتی ہیں کہ نہیں وقت نے ہی طے کرنا ہے ورنہ یہ مٹتے نہیں اور سے اور بنتے چلے جاتے ہیں…
###
امین بڑا ہونے لگا تو رشید بیمار رہنے لگا،مسافروں کے اڈے پر چائے کے ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا،قریب ہی گھر لے لیا تھا مدرسے سے امین کو لانے کے بعد وہیں اڈے پر لے آتا امین ایک طرف بیٹھا پڑھتا رہتا۔
رشید سے اب کام بھی نہ ہوتا،پیٹ میں ایک طرف بہت درد اٹھنے لگا تھا،اس درد کو لئے وہ کام کئے جاتا، کسی قریبی کلینک جاتا انجکشن لگوا آتا،دوا کھا لیتا،درد پھر بھی نہ جاتا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر نے کہا چیک اپ ہوگا اتنے جتن رشید سے نہیں ہوتے تھے انتظار کرنے لگا درد خود ہی جاتا رہے وہ بڑھنے لگا،پھر اتنا بیمار رہنے لگا کہ کام سے بھی گیا ہلا ہی نہ جاتا تو جتن کرتا درد نہ جاتا،بہت دیر اسی حالت میں رہا جلد کا رنگ سیاہ پڑنے لگاا تو اسے تشویش ہوئی درد ناقابل برداشت ہو گیا اپنی جان کی تو اسے رتی بھر پرواہ نہیں تھی فکر اب امین کی تھی وہ نو سال کا ہونے والا تھا اتنا بڑا تو نہیں تھا کہ خود کو بھی سنبھال سکتا اور رشید کو بھی اور اگر رشید کو کچھ ہو جاتا تو اکیلا رہ بھی لیتا۔

گھنٹی بجی رشید کے اندر اسے وہم ہوا کہ یہ موت کی گھنٹی ہے وہ کیسے موت کو بھلائے بیٹھا تھا،بھلائے تو سب ہی بیٹھے ہیں پر وہ اکیلی جان امین کیلئے اسے اپنی موت کی فکر رکھنی چاہئے تھی،رشید بے کل ہو گیا۔
شہر گیا سرکاری ہسپتال سے ٹیسٹ کروائے۔ چاند جو دیسی شرابیں،چرس،گانجا پیتا تھا ان سب کی رپورٹس آ گئی تھیں اس کے گردے تقریباً ناکارہ ہو چکے تھے اسے جلد سے جلد علاج کروانا ہوگا،زندگی سکڑ سمٹ کر رشید کے ہاتھ میں آ گئی رشید نے زندگی کی آخری لکیر دیکھ لی ڈاکٹر نے اسے صاف صاف بہت کچھ بتا دیا تھا۔
کسی ایک وقت کا عمل کسی دوسرے وقت میں ردعمل دکھاتا ہے تو بال نوچ لینے کو جی چاہتا ہے جس وقت چاند مر جانے کیلئے تیار تھا۔ 
تب جسم ہٹاکٹا رہا اب اسے امین کے ساتھ رہنا تھا تو قبر کی مٹی یاد کرنے لگی تھی،قبر نے منہ ہی کھول لیا تھا۔
اس سے ایک بڑی غلطی ہو گئی تھی وہ یہ تو سوچے بیٹھا تھا کہ امین کو کسی وقت میں اس کے ماں باپ سے ملوائے گا لیکن ان کا اتا پتا نہیں رکھا تھا جس وقت امین اس کی گود میں آیا وہ سب کچھ فراموش کر بیٹھا اسے جلد سے جلد شہر چھوڑنے کی سوجی،جاوید اور اس کے درمیان یہی طے ہوا تھا پھر وہاں اس محلے میں لوگ ان دونوں کو جانتے تھے۔
وہ وہاں رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ امین کو لے کر وہ سب کچھ بھلا دینا چاہتا تھا لیکن سب بھلا کر اس نے ٹھیک نہیں کیا،امین اس کے ساتھ تھا لیکن وہ کب تک امین کے ساتھ تھا وہ سوچ کر کانپ گیا تھا اب وہ ایک ہی بات سوچ رہا تھا کہ امین کا کیا ہوگا… امین کہاں جائے گا،زندگی کی منصوبہ بندی اس نے کی… موت کی کیوں نہیں کی…؟؟
اس جیسے شخص کو ہی تو موت یاد رکھنی چاہئے تھی… اب اسے ہر شے کا اختتام نظر آ رہا تھا سب کچھ جاتا دکھائی دے رہا تھا، کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
امین کی پیاری صورت دیکھتا تو افسوس کرتا کیا ضرورت تھی اسے لینے کی… اس نے بھی اپنے باپ والی ہی حرکت کی نا ”اپنا کر چھوڑ دینے والی“ امین کی محبت میں پچھتا رہا تھا اب ” اب کسے امین کا خیال رکھنے کیلئے کہتا۔“
چند ہفتے پہلے ہی وہ اس شہر اور علاقے سے ہو آیا تھا جہاں سے جاوید کے ہاتھوں امین کو لیا تھا وہاں ان کا کوئی نشان نہیں تھا ۔
لوگ اتنا جانتے تھے کہ یہاں وہ سبزی والا رہتا تھا اب وہ کہاں ہے انہیں معلوم نہیں تھا۔ جاوید اب کہاں ملے گا؟ رشید کس کے پاس جاتا کہ اس کی مدد کی جائے… وہ ایک مسئلے میں نہیں روگ میں مبتلا ہو چکا تھا۔ امین کے پیار میں پاگل ہو رہا تھا اس کی جان ہلکان ہو رہی تھی،کوئی امید کی کرن نظر نہیں آ رہی تھی اندھیرا ہی گہرا ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
اسے سرحدی قصبہ چھوڑ کر پنجاب آنا پڑا،جہاں سے وہ گیا تھا جہاں سے وہ بھاگا تھا بہت سکون میں تھا سرحد میں اب پھر اسی گند کے قریب آ گیا تھا۔
لاہور کی ایک غریب آبادی میں اس نے کرائے کا ایک گھر لیا۔ یہاں سے وہ سرکاری ہسپتال سے مفت علاج کروا سکتا تھا آنا جانا بھی آسان تھا اس کیلئے اب وہ اتنا چاہتا تھا کہ اچھی طرح علاج کروائے اور موت سے زندگی کے صرف چند اور سال گھسیٹ لے اتنے ہی کہ امین تھوڑا سا سمجھ دار ہو جائے اکیلے رہ سکے،امین سرحد کے چھوٹے سے قصبے کا سادہ سے لوگوں میں رہنے والا بھولا بھالا سا بچہ تھا میٹھی میٹھی باتیں کرتا،ہوٹل پر سب کا لاڈلا تھا اجنبی لوگوں کو دیکھ کر ڈر جاتا رشید کے ساتھ ٹک جاتا تھا۔
رشید کے کانوں میں آآ کر سرگوشیاں کرتا وہ اتنا پیارا صابر بچہ تھا کہ چند دنوں کا ہی تھا تب بھی گلا پھاڑ کر نہیں روتا تھا اس نے رشید کو اتنی آسانیاں دیں کہ رشید نے آسانی سے اسے بڑا کر لیا۔
”وہ رشید کی لوری اللہ… اللہ… اللہ ہو…“ پر آنکھیں موند لیتا اور آنکھ کھلنے پر چپ پڑا رہتا۔ وہ رشید کیلئے ایک تحفہ تھا جو گلابی،میاں یا اس کی اپنی کسی دعا کا ثمر تھا۔
رشید کا دل نہیں مان رہا تھا کہ وہ اسے حالات سے آگاہ کرے اس کا سکون چھین لے،وہ سن تو لے گا لیکن سمجھے گا نہیں وہ امین کا بابا جی تھا اور بابا جی کی وہ جان تھا۔
رشید کو اب علاج بھی کروانا تھا،جاوید کو بھی ڈھونڈنا تھا اور امین کا خیال بھی رکھنا تھا۔ اس نے امین کو ایک مدرسے نما سکول میں داخل کروا دیا جہاں وہ شام تک رہ سکتا تھا۔
گھر بیٹھے اس نے بہت حساب کتاب لگائے کہ کیسے جاوید کو ڈھونڈا جا سکتا ہے وہ ہر طرف سے حساب لگا کر ناکام ہو رہا تھا وہ کسی قریبی شہر میں بھی جائے تو اسے ایک دن اور رات چاہئے اور پھر پیچھے امین کا کیا ہوگا… وہ اکیلا گھر میں رہے گا اسے عادت ہی نہیں ایسے اس کے بغیر رہنے کی۔
بہت سوچ بچار کے بعد رشید منہ چھپا کر رات گئے اپنے پرانے ٹھکانے پر گیا اسی بازار جہاں کی وہ دھول تھا۔ وہاں اس کا ایک دوست تھا ”جوبلی“ کل پرزہ تھا،ہر مسئلے میں فٹ ہو جاتا تھا۔
”او حاجی سرکار آئے“ جوبلی نے چھوٹتے ہی اس کی داڑھی پر طنز کیا ۔رشید جانتا تھا وہ ایسا ہی کچھ کہے گا،جوبلی اس سے بہت دیر بغلگیر رہا کئی طرح کے نشوں کی بدبو آ رہی تھی اس میں سے رشید ضبط کئے رہا،ناک کیسے سکیڑ لیتا اپنے کام سے آیا تھا۔
اس کے چار پانچ اور طنز سن کر رشید نے اسے اپنا مسئلہ بتایا وہ سنتا رہا۔
رشید کا دل امین کی طرف سے الگ پریشان تھا اسے سلا کر آیا تھا اکیلا کبھی وہ سویا نہیں تھا اس کے سینے پر سر رکھ کر سوتا تھا۔ دن کے وقت وہ یہاں آنا نہیں چاہتا تھا سو دوسرے لوگ پہچان لیتے ہیں اور دن میں جوبلی شاز ہی کسی کو ملتا تھا اس کا دیدار رات ہی کو ہو سکتا تھا۔
رشید جوبلی کے ساتھ اس کے اڈے پر ایک ہی چارپائی پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ وہ کس سودے کیلئے اس خرانٹ دلال کے پاس آیا ہے وہ بھی رات کو… راتیں گناہی دن بھلے…
جوبلی اپنی ہانک رہا تھا رشید اپنی سوچ رہا تھا… ساتھ پیتے پیتے جوبلی منحوس نشے میں آتا جا رہا تھا۔ رشید اس کی بکواس پر سر ہلا رہا تھا… ابھی تک جوبلی نے ہاں نہیں کی تھی کہ ”چاند بابو مسئلہ ای کوئی نئیں“۔
جوبلی اگر صرف اتنا کہہ دے گا تو بس پھر کام بن گیا اس کا سر ہلا دینا ہی کافی ہوتا تھا،یہ جوبلی کا سر ہلا دینا ہوتا تھا کسی عام آدمی کا نہیں،نام نجانے کیا تھا جوبلی سینما کے نام سے بازار میں جوبلی جوبلی بلایا جانے لگا۔
 ہر جگہ ہر پنگے میں ہوتا تھا ہر شخص کو جانتا تھا۔ ہر ایک سے دوستی تھی اور انہی سے دشمنی تھی۔ اچھا تو جانے کن کن کے ساتھ تھا لیکن برا بہت سوں کیلئے تھا۔
بات بعد میں کرتا گالی پہلے دیتا بہت سی گالیوں کا موجد تھا ہر گالی میں استاد تھا۔ ایک پیک جیب میں رکھتا گھونٹ گھونٹ پیتا رہتا۔
 رشید سے چند سال ہی چھوٹا تھا بھینسے کی طرح پھٹا ہوا تھا،ہمہ وقت سر گنجا رکھتا،چلتے ہوئے آس پاس والوں کو دھکے دیتا ٹھڈے مارتا،آگے پیچھے ہنٹر مارتا رہتا،کوٹھے پر کوئی نوٹنکی کرتی جوبلی کا نام ہی کافی تھا گردن سے پکڑ کر چوبارے سے لٹکا دیا کرتا… سارا بازار نوٹنکی والی کا تماشا دیکھتا رہ جاتا یہ گردن چھوڑ ٹپکانے کو تیار رہتا،ہر احساس سے عاری… ہر برائی کی جڑ ”جوبلی“۔
رشید مر کر بھی جوبلی کے پاس نہ آتا پر وہ جانتا تھا کہ اب صرف یہ جوبلی ہی ہے جو یہ کام کر سکتا ہے۔ ہر طرف اس کے رابطے تھے، نہیں بھی تھے تو وہ بنا لیتا۔ رشید ملنگ بنا جوبلی کے ساتھ بیٹھا تھا جوبلی کو دیکھ دیکھ کر بڑی طمانیت ہوئی۔ اندر ہی اندر اکڑ رہا تھا رشید کے نام کا ڈنکا بجا کرتا تھا اور اس ڈنکے سے ہی وہ حاسد تھا جلتا تھا۔ کبھی دونوں ساتھ ساتھ کے تھے،اب کیسے رشید مسکین بنا اس کی منت کر رہا تھا… جوبلی نے گلاس بھر کر رشید کے آگے کیا رشید نے جزبز ہو کر اسے دیکھا ”میں علاج کروا رہا ہوں ڈاکٹر نے منع کیا ہے“ رشید جوبلی کو یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں اب پیتا نہیں یہ کہہ دیتا تو کام کیسے نکلواتا۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed