Episode 18 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 18 - سودا - سمیرا حمید

”یہ کیوں نہیں کہتا کہ تو حاجی ہو گیا ہے“ وہ مکروہ ہنسی ہنسا چاند پر بری گزری یہ بازار اس کی بنیاد نہ ہوتا ،امین اس کے ساتھ نہ ہوتا تو وہ سینہ ٹھونک کر کہتا ہاں ہو گیا ہوں،پر امین کیلئے نہ کہہ سکا جوبلی سے کام جو تھا۔
میرا کم ہو جاوے گا جوبلی؟ رشید نے براہ راست پوچھ ہی لیا… چاند کا سر ایسے ہلتا رہا جیسے مجرا دیکھتے ہلتا تھا نہ ہاں نہ ناں… رشید کا دھیان امین میں لگا ہوا تھا۔
”اک لاکھ دا گا“ رشید نے ناچار کہہ ہی دیا پیسے کا ہی شیدائی تھا۔ جوبلی کی نشیلی آنکھیں پوری کھل گئیں۔ کون نہیں جانتا تھا کہ رشید کتنا پیسے والا ہے…
”ایہ کیہ گل کیتی میں حاضر آں“ جوبلی کی زبان بھی ہلی اور سر بھی،رشید مطمئن ہو کر گھر آ گیا۔ امین آنکھیں کھولے لیٹا تھا،رشید کی ہر بات مانتا تھا اس لئے لیٹا رہا لیکن سو نہ سکا۔

(جاری ہے)

”میرا لال سویا نہیں“ رشید نے اسے بانہوں میں بھر لیا“
”بابا جی مجھے بھوک لگی تھی“ امین کی ایک عادت تھی اسے زیادہ بھوک نہیں لگتی تھی لیکن سوتے ہوئے وہ دو تین بار اٹھ کر چند نوالے ضرور مانگتا تھا… رشید بہت شوق سے بار بار اٹھ کر کھانا گرم کرتا اور اپنے ہاتھ سے اسے نوالے کھلا کر سلا دیتا۔
بھوک کا سنتے ہی رشید نے فوراً کھانا گرم کیا اور اسے کھلانے لگا بہت خوبصورت تعلق تھا دونوں کا… ایسے ہی تعلق کیلئے انسان ترستے ہیں۔
دوبارہ رشید کے گردے واش ہو چکے تھے،وہ بہت لاغر ہو چکا تھا اس کی بیماری بڑھ رہی تھی۔ وہ بار بار جوبلی کی طرف چکر لگاتا جوبلی بہانے بہانے سے اور پیسے لیتا،پھر جوبلی رشید کے گھر چکر لگانے لگا،اپنی عادت کا حامل امین جوبلی کے حبثے کو دیکھ کر ڈر گیا اور رشید کے پیچھے چھپ گیا۔
اس بدمعاش نے جانتے بوجھتے ہاتھ بڑھا کر امین کو اپنے سامنے کیا ”پتر جی مکھڑا وکھاؤ ذرا“۔
رشید ضبط کئے بیٹھا رہا اب وہ جوبلی کو کیسے کہتا کہ بچے کا ہاتھ چھوڑ دے وہ ڈر رہا ہے۔ اتنی سی بات پر جوبلی مرنے مارنے پر تل آتا۔ امین باقاعدہ رونے لگا۔
”بڑا ڈرپوک اے کاکا“ جوبلی ہنسنے لگا رشید ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا یہ وقت بھی آنا تھا۔ جوبلی جیسے لوگ امین پر تبصرہ کر رہے تھے اسے رلا رہے تھے۔
جوبلی رشید کے گھر آتا،ادھر ادھر کی سنا کر چلا جاتا،اس سے ملا،اس سے ملا،یہ کیا وہ کیا… اس کو کہا،اس کو کہا۔
قیامت کا وقت جا رہا تھا رشید تکلیف سے بے حال رہتا تھا چھ مہینے پہلے گردے واش ہوئے تھے اب تین ماہ بعد ہونے تھے۔ اس بار امین کو کہاں چھوڑتا… پہلی بار جوبلی کے پاس چھوڑ گیا تھا دوسری بار اپنے ساتھ ہسپتال لے گیا تھا گم ہوتے ہوئے بچا تھا امین وہاں۔ اب بھی اس کی جان نکل رہی تھی یہ سوچ کر کہ امین پھر سے اس بازار کے کسی ٹھکانے پر رہے گا۔
امین… قرآن پاک کا مقدس غلاف… اسے کیسے پھر سے وہاں چھوڑ دے۔
رشید نے ناچار پھر سے صرف ایک ہی بار امین کو سمجھا دیا۔
”بیٹا جوبلی انکل کے ساتھ چلے جاؤ میرا ہسپتال جانا ضروری ہے یہاں بہت درد ہوتا ہے“ سر ہلا کر امین نے سر جھکا لیا… ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے،رشید کا دل کٹ گیا،ہائے ہائے کرنے لگا۔
”میرے بچے مجھے معاف کر دے“ رشید نے ہاتھ جوڑ دیئے“
”یہ کیا کر دیا میں نے تیرے ساتھ،تجھ سے پھول کو کہاں چھپاؤں“
جوبلی کے پاس رہ کر امین کچھ کھاتا پیتا نہیں تھا گم سم ایک طرف بیٹھا رہتا۔
رشید کے بغیر وہ رہتا نہیں تھا جوبلی جیسے بندے کے ساتھ اسے رہنا پڑ رہا تھا۔ جوبلی کے اڈے پر بابا جی نہیں تھے جو اسے اپنے سینے پر سلاتے اور نوالے توڑ توڑ ہاتھ سے کھلاتے۔ امین کو جوبلی کے پاس چھوڑ کر رشید ہسپتال آ گیا،گھنٹے بعد ہی بھاگ آیا بنا واش کروائے۔
امین کو ساتھ لیا اور گھر آ گیا۔ جوبلی کی منت کی کہ جلد سے جلد اس کا کام کردے اب علاج نہیں کروائے گا وہ تو مطلب جلد ہی بستر پر پڑنے والا تھا پھر قبر میں وہ چاہتا تھا کہ رات سے دن نہ ہو اور جاوید مل جائے۔
اس نے اخبارات میں اشتہار بھی دیئے لیکن نتیجہ صفر ہی رہا۔ وہ جاوید اور نوری کو ڈھونڈ رہا تھا وہ دونوں اپنا بچہ نہیں ڈھونڈ رہے تھے۔
رشید بدترین وقت سے گزر رہا تھا اس کے گردوں میں ناقابل برداشت درد اٹھتا… ڈاکٹر کے پاس انجکشن لگوانے جاتا درد رفع کرنے کی دوا مانگتا وہ ڈانٹ کر بھگا دیتے۔
زندگی کے گنے چنے دنوں کی گنتی اور کم ہو گئی۔
کیسی قسمت تھی رشید کی پہلے وہ باپ سے الگ ہوا اور اب اسے اپنے بیٹے سے الگ ہونا تھا سکندر وہ انسان ہوتا ہے جو زندگی کی ہرخوشی پر مکمل فتح پاتا ہے۔ وہ وہ سکندر نہیں تھا۔
چند مہینے ایسے ہی گزر گئے وہ درد کو لئے چلتا پھرتا رہا تکلیف سے بلبلاتا… تڑپتا… گردے پھٹنے کے قریب لگنے لگتے… اور ایک دن خون کا اخراج شروع ہو گیا یہ آخری سنگین علامت تھی اب سمجھ لینے میں دیر کیسی… اب وہ لبیک کہے نہ کہے موت لبیک کہلوا کر ہی جائے گی۔
راتوں کو اٹھ اٹھ کر رشید کو چومنے لگا اس سے بار بار معافی مانگتا۔
”میری خواہش تجھے لے ڈوبی“ سینے سے لگائے روتا رہتا۔“
اگلے دن نئے لوگوں سے ملتا،جوبلی کا سر کھاتا…
”حوصلہ… حوصلہ… مل جاوے گا…“ جوبلی تسلی دیتا… جاوید ملتا تب نا جب جوبلی ڈھونڈتا… اصل جونک تو جوبلی تھا،پیسہ چوس رہا تھا رشید کا۔ رشید اپنے حال سے اتنا بے حال نہ ہوتا تو جوبلی کو جان ہی جاتا۔
اب حالات اتنے ہی خراب ہو چکے تھے تو رشید نے کچھ اور ہی سوچنا شروع کر دیا تھا جاوید تو مل کر ہی نہیں دے رہا تھا نہ ہی ملتا نظر آ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ امین کو کسی اچھے ادارے میں داخل کروا دیتا ہے… دو تین سال کی بات تھی پھر وہ کافی بڑا ہو جائے گا… خود کو سنبھال لے گا… پیسے رشید کے پاس تھوڑے بچ گئے تھے اس کا کام بن سکتا تھا جیسے تیسے وہ چودہ پندرہ سال کا بھی ہو جاتا تو کافی تھا۔
رشید اب ایسے کسی ادارے کی تلاش میں تھا جہاں امین چند سال اچھے ماحول میں گزار سکے۔ رشید امین کو اچھی طرح سے سمجھانے والا تھا کہ اسے آئندہ زندگی میں کیا کیا کرنا ہے،کیسے رہنا ہے… اپنے ماں باپ کو ڈھونڈنا ہے ورنہ پڑھ لکھ کر اچھی زندگی گزارنی ہے… زندگی برے موڑ پر آئی ہے تو اچھے موڑ پر بھی آ ہی جائے گی… رشید نے اگر کچھ بگاڑ دیا تھا تو سنور بھی سکتا تھا… رشید کو کچھ سکون ملا،امین کا ذہن ساتھ ساتھ بنا رہا تھا بہت سے ادارے تھے جو اس کی نظر میں تھے جہاں وہ پرورش حاصل کر سکتا تھا،پڑھ سکتا تھا اور محفوظ بھی رہ سکتا تھا۔
وہ باری باری ان اداروں میں جا رہا تھا ماحول دیکھ رہا تھا۔
 انتظامات کی پڑتال کر رہا تھا۔ ایک تو اسلامی ادارہ تھا جو بچے کو بالغ ہونے تک پاس رکھتے تھے حافظ بناتے تھے میٹرک تک تعلیم دلواتے تھے،اخراجات بھی زیادہ نہیں تھے اس ادارے کے… رشید نے سوچا باقی پیسے وہ امین کے نام ڈپوزٹ کروا سکتا ہے وقت آنے پر وہ نکلوا لے گا… اسلامی ادارے میں بچے کو پانچ سال کی عمر سے لیا جاتا تھا لیکن رشید نے ان سے خاص درخواست کی… انہیں اپنی مجبوری،اپنی بیماری اور اکیلا ہونے کے بارے میں بتایا… ادارے والے مان گئے… امین کا داخلہ وہاں ہو گیا… رشید اسے ہفتے میں ایک بار مل سکتا تھا۔
رشید تڑپ تڑپ کر روتا رہا… چند دن بعد وہ اس کا سامان پیک کرنے لگا… موت کا فرشتہ بھی آ جاتا تو وہ اس کی منت بھی کر لیتا کہ مجھے مہلت دے دو مجھے میرے امین کے پاس رہنے دو… اور امین اس سے اتنا پیار کرتا تھا کہ اس کی قبر میں اس کے ساتھ دفن ہو سکتا تھا۔
جوبلی آیا ادھر ادھر کی نئی خبریں لایا… جاوید کا پتا نہ لایا۔ رشید امین کے کپڑے بیگ میں رکھ رہا تھا ساتھ ساتھ بتا رہا تھا کہ دو دن بعد امین چلا جائے گا… حافظ بنے گا،عالم بنے گا… ساتھ ساتھ ہچکیوں سے رو رہا تھا۔
جوبلی ہوں ہاں کرتا رہا پھر رشید کے کان میں سرگوشی کی ”جاوید کے گھر کا پتا ملا ہے چل کر دیکھ لے وہی ہے کہ نہیں۔“
رشید کے ہاتھ پاؤں پھول گئے خوشی سے،امین کو گھر میں ہی چھوڑ کر وہ جوبلی کے ساتھ آ گیا۔ جوبلی اسے دو گھنٹے گھماتا رہا… بار بار فون کرتا رہا… ایک دو جگہ رکا… جاوید کا پوچھا… جاوید ان گھروں سے نہ نکلا… مایوس رشید گھر واپس آ گیا۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed