Episode 19 - Soda By Sumaira Hamed

قسط نمبر 19 - سودا - سمیرا حمید

گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا… امین سے کنڈی لگوا کر تسلی کرکے ہی وہ گیا تھا،امین کو اندر ہی ہونا چاہئے تھا۔ رشید کے گھر کوئی آتا نہیں تھا پھر بھی امین کو رشید نے کہہ رکھا تھا کہ کوئی بھی دروازہ کھٹکائے دروازہ نہیں کھولنا… لیکن اب دروازہ کھلا ہوا تھا،امین وہ بچہ ہی نہیں تھا جو کھیلنے یا کسی اور کام سے گھر سے باہر جاتا۔ رشید پر انوکھی کیفیت ہو کر گزری… موت سی،اس نے جوبلی کو فون کیا کہ اسے بتائے کہ امین یہاں کہیں نہیں ہے آکر اس کی مدد کرے… وہ آس پاس کئی بار دیکھ آیا تھا آثار اچھے نہیں تھے اس کا دل ڈوب رہا تھا اسی لئے فوری جوبلی کو فون کیا… جوبلی کے جواب سے رشید ڈگمگا کر گر گیا اور زمین کی رفتار کے ساتھ گھومنے لگا۔

”کاکا میرے پاس ہے پیسے دے اور لے جا“
پیسے… پیسے… پیسے… یہ پیسہ سب برباد کر چکا ہے برباد کو بھی اور برباد کرے گا…؟ کتنا اور…؟
جوبلی کو اور پیسے چاہئے تھے اتنے پیسے تو وہ اسے دے چکا تھا یکدم رشید پر آشکار ہوا… رشید کیسے بھول گیا کہ جوبلی پرانا تعلق اس کے ساتھ نبھائے گا؟ اسے سب سمجھ آ گئی کہ جوبلی نے دراصل جاوید کو ڈھونڈا ہی نہیں اس سے بہانے بہانے سے پیسے لیتا رہا تھا کبھی بیس،کبھی تیس ہزار…
رشید نے کیسے توقع کر لی کہ وہ اس کے ساتھ کوئی بھلائی کرے گا،وہ بازاری ہے بھاؤ کرے گا یا چاؤ؟
رشید غصے سے کھولنے لگا،وہ اس کے اتنے پیسے کھا چکا تھا اب تو وہ اسے ایک کوڑی بھی نہیں دے گا،اسے دے دیئے تو امین کیلئے کیا بچے گا… اس پیارے امین کا کیا ہوگا جو پیاری پیاری من موہنی باتیں سیکھ چکا ہے۔

(جاری ہے)

پیارے امین بڑے پاپا کا کیا نام ہے؟
بابا رشید… میرے پیارے بابا جان
سب سے بڑے بابا کا؟
میاں جی… اللہ انہیں پیار سے اپنے پاس رکھے۔ ”آمین“
ابو… امی؟
پیارے ابو جی جاوید اور پیاری امی نور فاطمہ
اور امین کون؟
امین… بابا کا بیٹا بابا کی جان… میاں جی کا بیٹا…
پیارے امی ابو کا پیارا… امین سب کا پیارا… سب پیارے… امین بھی پیارا… ”آمین“ دونوں ہاتھ منہ پر پھیر کر رشید کی آنکھوں پر رکھ دیتا۔
ہم سب مر جائیں گے نا امین پیارے؟
جی بابا! سب…
جو مر جائیں گے وہ کیا کریں گے؟
”وہ اللہ میاں جی کے سوالوں کے جواب دیں گے
جو زندہ رہیں گے وہ کیا کریں گے میرے چاند؟؟
وہ دعا کریں گے ہاتھ اٹھا کر اللہ میاں جی سے کہیں گے سب کو معاف کر دو نا۔ ”آمین“
تم یہ دعا کرتے رہو گے؟؟
ہمیشہ بابا جی… ہمیشہ… ہر روز… سونے سے پہلے… اٹھنے کے فوراً بعد… اللہ میاں جی سب کو معاف کر دو۔
”آمین“
”ہم سب مر جائیں گے نا… میں مر جاؤں گا تو روؤ گے تو نہیں امین بیٹے۔“
اس نے سر نفی میں ہلا دیا ”پر میں کس کے ساتھ سوؤں گا۔“
رشید نے بڑھ کر اسے چٹا چٹ چوما ”بہادر بن جاؤ۔“
میں بہادر ہوں… اللہ میاں جی سے محبت کرتا ہوں،میں بہادر ہوں بابا جی۔“
اس نے کہہ تو دیا لیکن اکیلا کوئی بھی بہادر نہیں ہوتا،اپنوں کے بغیر رہنا سیکھ لینا… یہ بہادری کوئی بھی نہیں کرنا چاہتا۔
الٹے پیروں رشید غصے میں جوبلی کی طرف آیا… بازار سے ذرا پرے اس کا اڈہ تھا جہاں رات رات بھر شراب اور دوسرے نشے چلتے رہتے کالج یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیاں چرس خریدنے آتے اور لڑکے نشہ کرکے وہیں پڑے ہوتے ساتھ ادھر ادھر کے دوسرے غنڈے بدمعاش بھی موجود ہوتے۔
خون کا دباؤ رشید میں بڑھ رہا تھا اس کا دماغ اور پیٹ پھٹنے کے قریب تھے،غصے سے وہ اندھا ہو رہا تھا اور لڑکھڑا کر گر رہا تھا۔
”امین پیارے‘ رشید سسکنے لگا میں نے تیرے ساتھ ٹھیک نہیں کیا“ راستے بھر وہ روتا رہا اس کے اندر ٹن،ٹن چھڑی تھی… خدا جانے کس گھڑی کی آمد کیلئے چھڑی تھی۔اڈے سے پرے ہی رشید نے آستین سے اچھی طرح آنکھیں صاف کر لیں… مگر آنکھیں سرخ ہی رہیں… غصے سے کپکپاہٹ جو چھڑی تھی وہ تھم ہی نہیں رہی تھی… خود کو قائم دائم رکھے جب رشید وہاں پہنچا تو جو پہلا منظر اس نے دیکھا اس منظر کو دیکھنے سے پہلے کاش وہ تیز دھار آلے سے خود کا گلا کاٹ لیتا۔
 
ایک موٹے گجر بدمعاش کی ایک ٹانگ کو امین اپنے چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے ہاتھوں سے زمین پر بیٹھا دبا رہا تھا بہت روتا رہا تھا۔ گم صم ہچکی ابھی بھی بندھی تھی،جوبلی ذرا فاصلے پر کرسی پر بیٹھا پی رہا تھا… ادھر ادھر چند نشئی لڑکے بیٹھے تھے۔ جوبلی جانتا تھا کہ رشید بس آیا کہ آیا اور اس نے جان بوجھ کر امین کو اس کام سے لگایا تھا۔
رشید بے چارہ ڈھلی ہوئی عمر کا کھنڈر… ناکارہ گردوں اور کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ امین کی طرف لپکا۔
جیسے ہی امین کی طرف جھکا گجر بدمعاش نے ایک زور دار لات اس کے منہ پر دھری… رشید درد سے ضرور بلبلاتا لیکن وہ امین کیلئے پہلے ہی بلبلا رہا تھا… اسی گجر نے دو تین اور رکھی۔
”طریقے سے بات کر چاند… بچے کو ہاتھ نہ لگا“
جوبلی امین کو گھسیٹ کر اندر کر آیا… امین بابا بابا چلانے لگا۔
”یہ دیدے اندر کر چاند… تو مجھے جانتا نہیں“ وہ بھونک رہا تھا جوبلی اطمینان سے کرسی پر بیٹھا تھا جیسے الحمراء ہال میں تھیٹر دیکھ رہا ہو،نشئی لڑکوں نے سر اٹھانے کی زحمت بھی نہ کی… رشید درد سے دہرا ہوتا اندر امین کی آواز کی طرف لپکا… جوبلی کے دو آدمیوں نے اسے گھسیٹ کر نیچے پٹخا… گجر بدمعاش نے اپنی وزنی ٹانگ اس کی گردن پر رکھی اور پورا زور ڈال دیا… وہ ڈھائی تین سال سے بیمار تھا ڈیڑھ سال سے گردوں کے عارضے میں مبتلا تھا وہ تو ایک بچے سے مقابلہ نہیں کر سکتا تھا کہاں اس موٹے سانڈ سے مقابلہ کرتا اس کی ٹانگ کے نیچے تڑپتا رہا… جابجا خون نکلنے لگا اٹھنے کی ہمت نہ رہی،اس سانڈ نے لاتوں کی برسات کر دی ساتھ گالیاں دے رہا تھا خوب دل لگا کر مار رہا تھا۔
”کہا ہے ٹک کر بات کر… ادھر کدھر جا رہا ہے…؟؟
تیرے یار ادھر بیٹھے ہیں… ادھر بات کر… پیسے رکھ ادھر اور لے جا اسے…“
لاتیں اس کے پیٹ میں لگیں رشید درد سے چلانے لگا،چلاتے ہوئے بھی امین کا نام ہی لے رہا تھا… دور کہیں اندر سے اسے بابا… بابا کی آواز آ رہی تھی۔
”کوئی کہہ گیا ہے کہ جو محبت کر لیتا ہے وہ کسی اور کام کا نہیں رہتا“ رشید اس کہے کی زندہ تصویر بنے ہیرا منڈی کی زمین پر تکلیف سے،کرب سے،محبت سے بلبلا رہا تھا،وہ امین کے علاوہ ہر کام سے گیا۔
 یہی وہ بازار تھا اور یہی وہ لوگ تھے جنہیں وہ چٹکی سے دھول سے برباد کر سکتا تھا کیا اوقات تھی جوبلی کی اس کی جھوٹی شراب اور سگریٹ کے ٹوٹے پیا کرتا تھا،اس کی ٹانگیں دبایا کرتا تھا،اسی اڈے پر وہ سب موج مستی کرتے تھے اپنی من پسند محفلیں لگاتے،جھومتے،جوا کھیلتے تھے،آج نرالا ہی کھیل کھیلا جا رہا تھا،اسی کا امین اور اسی سے پیسے…؟
رشید کی کنپٹیاں سلگنے لگیں،اس کا جی چاہا ایک ایک کا خون کر دے… رشید اٹھا اور جوبلی پر جھپٹا اس کا گلا دبوچ لیا… رشید تو شیر بن چکا تھا۔
جوبلی کی اتنی ہمت قرآن پاک پڑھنے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے والے ہاتھوں سے اس غلیظ بدمعاش کی ٹانگیں دبوائے،اس پر اپنا جوا کھیلے امین کا سودا کرے… ہیرا منڈی میں ایک فرشتے کا سودا،یہ کم ذات بازار والے کیا جانیں امین کیا ہے؟ وہ سب کیلئے مغفرت ہے… سرکارﷺ کا نام لے کر چومنے والا… اس کے سینے پر سر رکھے درود پڑھتے پڑھتے سو جانے والا،امین کیا ہے؟ کوئی رشید چاند سے پوچھے… اپنی پیاری آواز سے لوری دے سلانے والا۔
”اللہ ہو… اللہ ہو… پیارے ہمارے اللہ… اللہ ہو جی اللہ ہو…“
اس بازار میں اس کے دام لگانے لائے ہیں؟
گردن رشید کے کانپتے ہاتھوں میں جکڑی تھی،اڈے پر موجود باقی بدمعاش رشید پر بل پڑے،ایک نے پستول نکال کر اس کی کنپٹی پر رکھ دی… سب مل کر رشید چاند کو مارنے لگے۔
گلابی مر چکی تھی… میاں جی کا خدا جانتا ہے کیا بنا… رشید چاند بدمعاشوں کے ہاتھوں پٹ رہا ہے امین بابا بابا چلا رہا ہے۔

Chapters / Baab of Soda By Sumaira Hamed