Episode 7 - Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat

قسط نمبر 7 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

دولت سامانیہ(874ء تا 999ء)
آل سامان کا مورث اعلیٰ ایک شخص تھا۔ جو اپنے آپ کو بہرام چوبین کی نسل سے بتاتا تھا۔ سامان بلخ کے رؤسا میں سے تھا۔ لیکن کچھ حالات ایسے ہو گئے کہ وہ ترک وطن پر مجبور ہو گیا۔ اسد بن عبداللہ حاکم خراسان نے خلیفہ مہدی کے زمانے میں پشت پناہی کی۔ سامان دین زر تشتی کا پیرو تھا۔ لیکن اسد بن عبد اللہ کا اس قدر شکر گزار تھا کہ نہ صرف یہ کہ اسد کی تلقین پر وہ حلقہ بگوش اسلام ہو گیا بلکہ اپنے ایک بیٹے کا نام اس کے نام پر اسد رکھا۔
سامان کے چار بیٹے تھے۔ یہ چاروں ہارون الرشید کی ملازمت میں تھے۔ انہوں نے بغاوتوں کو فرو کرنے میں بہت نمایاں خدمات انجام دی تھیں۔ مامون الرشید کا سامان اور اس کی اولاد پر مہربان ہونا کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔

(جاری ہے)

چنانچہ مامون نے ان چاروں بھائیوں کو خدمات کے صلے میں علی الترتیب انہیں سمرقند ، فرغانہ ، شاش اور ہرات کی حکومت دے دی۔

ان بھائیوں میں احمد سب سے زیادہ کامیاب رہا۔ جب اس کا بھائی نوح فوت ہوا تو اس نے سمرقند اور کاشغر کے علاقے بھی اپنی حکومت میں شامل کر لئے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد حکومت کو اپنے بیٹے کے سپرد کرکے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔
نصر تخت نشین ہوا تو اس نے اپنے چھوٹے بھائی اسماعیل کو بخارا کی حکومت دے دی تھی۔ تھوڑے ہی عرصہ میں دونوں بھائیوں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی جس میں اسماعیل کو فتح ہوئی اور نصر اسیر ہو گیا۔
لیکن اسماعیل نے برادرانہ شفقت سے کام لے کر نصر کو آزاد کر دیا اور اس کی حکومت پھر اس کو دے دی۔ نصر نے 892ء کو وفات پائی تو سمرقند کا صوبہ اسماعیل کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ عہد سامانیہ کی مستقل حکومت اسماعیل ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اسماعیل نے جب 907ء میں صفاریہ حکومت کو ختم کیا تو خلیفہ بغداد نے اسماعیل کی خدمات کے صلے میں خراسان ، ترکستان اور ماورالنہر کی حکومت بھی اسے دے دی۔
اسماعیل نے بخارا کو اپنا دار السلطنت بنایا۔ یہ سامانی حکمران علم و فضل کا بڑا قدر دان تھا۔ اس لئے متعدد مورخ شاعر فقیہہ بخارا آ گئے اور بخارا علم و فضل کا مرکز بن گیا۔
اسماعیل نے سات آٹھ سال حکومت کی اور اس کی وفات کے بعد ابو نظیر احمد بن اسماعیل سامانی باپ کا جانشین ہوا۔
اسمٰعیل کی سیرت:
اسمٰعیل اپنی عادات کے اعتبار سے نہایت شریف اور توکل علی اللہ شخص تھا۔
جہانگیری کے ساتھ جہانبانی کے اصول سے بھی خوب واقف تھا۔ رعایا اس سے خوش تھی اور اس نے اپنے طرز عمل سے اس بات کا کافی ثبوت بہم پہنچا دیا تھا کہ وہ ایران کے شریف خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
احمد بن اسمٰعیل:
اس نے تخت نشین ہو کر اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو اپنی بداخلاقی سے ناراض کر دیا۔ چھ سال حکومت کرنے کے بعد اپنے ہی غلاموں کے ہاتھوں 920ء میں قتل ہوا۔
احمد کے بعد اس کا بیٹا نصر بن احمد سامانی آٹھ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا۔ یہ بالکل اپنے داد اسمٰعیل کا نمونہ تھا۔ اس نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنی سلطنت کی حدود کو وسیع کرکے رے ، قُم اور اصفہان کو سلطنت سامانیہ میں شامل کر لیا۔ اس نے تیس سال تک بڑے دبدبے سے حکومت کی۔ یہ وہی تاجدار ہے۔ جس کے دربار کا ملک الشعرا رود کی تھا۔ جو فارسی شاعری کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے۔
نصر 943ء میں فوت ہوا۔ نصر کو سامانی عہد کا المامون سمجھا جاتا ہے۔ نصر کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد میں سلطنت سامانیہ کو زوال آنا شروع ہوا اور اس نے 997ء میں وفات پائی۔
دولت سامانیہ کا زوال:
نوح کے بعد اس کا بیٹا عبد الملک تخت نشین ہوا۔ اس نے اپنے ممالک مقبوضہ کے جنوبی حصے یعنی صوبہ خراسان کی گورنری پر اپنے سردار ا سبکتگین کو مامور کیا تھا۔
آخر سات سال حکومت کرنے کے بعد چوگان کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر فوت ہوا اس کے بعد اس کا بھائی منصور تخت نشین ہوا۔ اس نے رکن الدولہ دیلمی کی بیٹی سے شادی کی اور عراق و فارس کے صوبے اس کی سلطنت میں شامل کر دیئے گئے۔ اسی کا وزیر ابو علی بن محمد تھا جس نے تاریخ طبری کا ترجمہ فارسی میں کیا تھا۔ منصور بن نوح نے پندرہ سال حکومت کی۔ منصور کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ابو القاسم نوح ثانی تخت نشین ہوا۔
اس کے تخت نشین ہوتے ہی اس کے درباریوں نے بغاوتیں برپا کرکے بغرا خان کو جو ترکی قبائل کا سردار تھا بخارا پر حملے کی دعوت دی۔ بغرا خان نے اپنے صدر مقام کاشغر سے کوچ کرکے بخارا پر حملہ کر دیا۔ نوح کو شکست ہوئی اور بخارا پر بغرا خان کا قبضہ ہو گیا۔ مگر بغرا خان جلد ہی راہی ملک عدم ہوا۔ چنانچہ نوح نے پھر بخارا کی حکومت سنبھال لی اور بغرا کی فوج واپس چلی گئی۔
نوح نے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا اور اس کے سازشی امراء بھاگ کر خراسان آ گئے اور دیلمی حکمران فخر الدولہ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب غزنی میں سبکتگین نے اپنی مستقل حکومت قائم کر لی تھی اور سبکتگین انتقال کر چکا تھا۔ نوح نے سبکتگین کو اس خدمت کے صلہ میں جو اس نے بغرا خان کے خلاف کی تھی۔ ناصر الدین کا خطاب دیا۔
نوح کو جب فخر الدولہ دیلمی اور اپنے امراء کی سازش کا پتہ چلا تو اس نے پھر سبکتگین سے امداد طلب کی۔ سبکتگین نے اپنے بیٹے محمود کے تحت کمک کے طور پر فوج بھیجی۔ ہرات کے مقام پر فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ محمود غزنوی نے بڑی بہادری کے جوہردکھائے۔ اس لڑائی میں نوح کی فتح ہوئی۔ محمود کو خوش ہوکر سیف الدولہ کا خطاب اور سبکتگین کو صلے کے طور پر خراسان کی حکومت کی عطا کی۔
نوح نے بائیس سال حکومت کی۔ مگر اس کا زمانہ اکثر لڑائی جھگڑوں اور بغاوتوں کو فرو کرنے میں بسر ہوا اور ملک کے صوبے یکے بعد دیگرے قبضے سے نکلتے گئے۔
نوح ثانی کے بعد اس کا بیٹا منصور ثانی تخت پر بیٹھا۔ منصور کے عہد میں ان امراء نے جو اس کے باپ کیلئے موجب اذیت رہتے تھے۔ اس کو بھی پریشان رکھا اور شکست دے کر بخارا سے بے دخل کیا۔ پھر انہوں نے اسی کو بادشاہ تسلیم کرکے امور سلطنت اپنے اختیار میں لے کر خراسان کا علاقہ ایک اور حاکم کو سونپ دیا۔
لیکن محمود نے اس نئے حاکم کو خراسان سے بھگا کر خود قبضہ کر لیا۔
اسی عرصہ میں امیروں نے منصور کو تخت سے اتار کر اندھا کر دیا اور اس کے بھائی عبد الملک ثانی کو تخت پر بیٹھا دیا اور اس کو ساتھ ملا کر محمود پر حملہ آور ہوئے لیکن شکست کھا کر واپس بخارا آ گئے۔
اس کے بعد اہل خان (علی سبکتگین) جو کہ حاکم کاشغر اور بغرا خان کا جانشین تھا ، نے خوارزم پر حملہ کرکے بخارا فتح کر لیا اور آخری سامانی تاجدار عبد الملک کو اسیر کرکے قید کر دیا اور اس نے قید ہی میں وفات پائی۔
عبد الملک کا ایک اور بھائی منقر بھیس بدل کر بخارا سے فرار ہوا اور چند روز تک قزاقوں کی ایک جمعیت کے ساتھ رہ کر بعد میں قتل ہوا۔ اس طرح سامانی خاندان اور اس کی دولت و حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
سامانی حکمرانوں کی علمی اور ادبی سرگرمیاں:
خراسان اور ماورالنہر سامانیوں کے تصرف میں تھے۔ یہ لوگ اس بات پر بڑا زور دیتے تھے کہ ہم بہرام ساسانی کی اولاد سے ہیں۔
فردوسی ”شاہنامہ“ کا مولف پہلے سامانیوں کے سایہ عاطفت ہی میں زندگی بسر کرتا رہا اور یہ سچ ہے کہ سمرقند ، بلخ ، نیشاپور اور بخارا میں گویا واقعی ادب اور فنون کا احیاء ہو گیا۔ افراسیاب (پرانا سمرقند) میں جو کھدایاں ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد کی کوزہ گری مقبول و مشہور تھی۔ دیہاتی فنکاروں کے بنائے ہوئے ظروف اور چینی کے برتنوں کے مشابہ روغنی برتن دریافت ہوئے ہیں۔
سامانیوں کے عہد حکومت کوزہ گروں اور ظروف پر نقش و نگار بنانے کا فن اور اسلوب اس طرح برتا کہ عراقی صنعت گروں سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ نقش و نگار کیلئے برتن یا کوزے کی سطح یوں تیار کی جاتی کہ سرخ مٹی کے برتنوں پر پہلے کھریا مٹی کی تہہ دی جاتی تھی۔ کھریا سفید بھی ہوتی تھی ، ارغوانی ، سیاہ بھی اور زرد بھی۔ سکے سے جو روغن نکلتا ہے وہ کوزوں پر لگا کر پکایا جائے تو نقش و نگار کے رنگ پھیل جاتے ہیں۔
یہ دیکھ کر کوزہ گروں نے پکے رنگ کی تہہ جما دینا شروع کی۔ اس قسم کی کوزہ گری کے کئی نمونے ملتے ہیں۔ لوورے میں جو طشتری ہے وہ اس زمانے کی سادہ بے تصنع لیکن نفیس ہنر مندی کا عمدہ نمونہ ہے اور اسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ عراق کے کوزہ گر ظروف کی روغنی سطح پر نیلگوں نقش و نگار بناتے تھے اور کمال کرتے تھے لیکن سامانی عہد کے فن کار بھی اپنے خاص اسلوب سے کام لے کر کوزہ گری کی زیبائی و کمال عروج پر پہنچا دیتے تھے۔
 اس طشتری کے علاوہ جو نمونے ملے ہیں وہ نسبتاً اتنے سادہ نہیں ہیں بلکہ رنگ شوخ ہیں۔ اس ارغوانی زردی مائل سبز سے کام لے کر کوشش کی گئی ہے کہ چمکدار اور مجلہ سطح کا اثر پیدا کیا جائے۔ جس طشتری کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس پر نقش و نگار نہیں ہیں صرف خط کوفی میں عبارات درج ہیں اور ان کا رنگ ارغوانی مائل سیاہ ہے۔ دوسرے نمونوں میں مختلف قسم کے نقش و نگار ملتے ہیں۔
مثلاً عبارات نخل خرما ، پرندے ، سامانی زمانے کے سامان آرائش پر جو عبارات کھدی تھیں ان کے اقتباسات وغیرہ بعد میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب سامانی حکومت زوال پذیر ہوئی تو یہ فن بھی ساتھ ہی روبہ زوال ہو گیا۔
خلفائے عباسی کے عہد میں کوزہ گری کو معراج کمال پر پہنچانے والے سامانی عہد کے ایرانی فنکار ہی تھے۔ دسویں اور گیارہویں صدی سے ایران میں کوزہ گری کا ایک اور اسلوب بھی مغربی علاقوں میں رائج تھا۔
وہ یہ کہ سرخ مٹی کے ظروف پر روغن کرتے تھے اور نقش کھریا مٹی میں کھود کر بناتے تھے۔ سامانیوں کے عہد میں جو دھات کا کام ہوا ہے وہ بھی بہت ترقی یافتہ تھا اس عہد کے دو چاندی کے قرابے بھی ملے ہیں جنہیں دیکھ کر اس عہد کے کمال فن کا سراغ ملتا ہے۔ ایک قرابے پر ابھرواں کام ہے لیکن پورا نخل خرما اور کہیں نصف دکھایا گیا ہے۔ دوسرے پر پرندوں کی ابھرواں تصویریں بنائی گی ہیں۔

Chapters / Baab of Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat