Episode 15 - Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat

قسط نمبر 15 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

ترکان خاتون کی ریشہ دوانیاں بدستور جاری رہیں۔ اب اس نے ملکہ زبیدہ کے بھائی ملک اسماعیل پر ڈورے ڈالے اور شادی کی امید دلا کر اسے اس بات پر آمادہ کر لیا وہ اپنے بھانجے برکیا روق پر حملہ کرے۔ چنانچہ اس نے رے پر فوج کشی کی لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے بعد برکیا روق کی بادشاہت کا اعلان بغداد میں بھی کر دیا گیا۔ برکیا روق کی حکومت تسلیم کر لی گئی لیکن ابھی اس کی مشکلات ختم نہیں ہوئی تھیں۔

برکیا روق کے مصائب یہیں نہیں ختم ہو جاتے اس کے بعد اس کے چچا توتوش (توتش) نے حملہ کرکے جوان شاہ کو قید کر لیا اور اصفہان لاکر زندان میں ڈال دیا۔ محمود چاہتا تھا کہ اسے اندھا کرکے ہمیشہ کیلئے تخت و تاج سے محروم کر دے۔ لیکن محمود کی عمر نے وفا نہ کی اور وہ خود ایک ہفتہ بعد چیچک کے عارضے میں مبتلا ہو کر راہی ملک عدم ہوا۔

(جاری ہے)

اس پر امراء نے برکیا روق کو زندان سے نکال کر تاج پہنایا اور ترکان خاتون کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

برکیا روق نے توتوش پر حملہ کرکے اسے شکست دے کر قتل کر دیا اور اس کے بعد برکیا روق پر ایک اسمعیلی نے حملہ کیا لیکن وہ بال بال بچ گیا۔ برکیا روق مشکلات پر قابو پا چکا تو خراسان کی حکومت سنجر کے سپرد کرکے عراق چلا گیا۔
سلطان سنجر:
سنجر بن ملک شاہ 1136ء میں تخت نشین ہوا اور سلطان السلاطین کے نام سے موسوم ہوا۔ اس سے سلطان بہرام غزنی نے دب کر خراج گزاری گوارا کی تھی۔
جب سلطان علاؤ الدین غوری جہاں سوز نے بہرام کو بے دخل کرکے غزنین کو فتح کیا۔ تو سلطان سنجر سلجوقی نے پہنچ کر علاؤ الدین غوری کو گرفتار کیا۔
سنجر نے خراسان کی حکومت سنبھالی تو تین سال کے بعد اس کے بھائی محمد نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ نظام الملک کے بیٹے موید الملک نے محمد کا ساتھ دیا۔ کیونکہ برکیا روق نے اسے وزارت سے معزول کرکے اپنا دشمن بنا لیا تھا۔
سلجوقی عہد کا یہ وہ زمانہ ہے جب کہ شاہی خاندان کے متعدد افراد اور وزراء چن چن کر قتل کرائے گئے۔ برکیا روق کی والدہ زبیدہ کو محمد کے حکم سے گلا گھونٹ کر مروا دیا گیا۔ مجدد الملک جو موید الملک کی معزولی کے بعد وزیر بنا تھا۔ تیغ انتقام کا نشانہ بنا۔ موید الملک کو برکیا روق کے حکم سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا آخر اس خونیں ڈرامہ کے بعد کچھ دیر کیلئے بھائیوں میں صلح ہو گئی۔
برکیا روق فوت ہوا تو اس کے بیٹے ملک شاہ ثانی نے عراق کی حکومت سنبھالی۔ لیکن محمد نے اس پر حملہ کرکے گرفتار کر لیا اور پھر اسے اندھا کرکے خود عراق کی حکومت سنبھال لی۔ جب محمد فوت ہوا تو اس کا بیٹا محمود چودہ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ اس نے تخت نشین ہوتے ہی خراسان پر چڑھائی کی جہاں اس کا طاقتور چچا سنجر حکمران تھا۔ سنجر نے سادہ کے میدان میں اسے شکست دی آخر اس کی خطا سے درگزر کرکے اپنی بیٹی ماہ ملک کی شادی اس کے ساتھ کرکے عراق حکومت بھی اسی کو دے دی۔
سلطان سنجر خاندان سلاجقہ کا آخری عظیم المرتبہ حکمران تھا اس نے خراسان میں بحیثیت بادشاہ چالیس برس حکومت کی سنجر نے انیس مہمیں سرکیں۔ نیز اپنے بھتیجے محمود کو شکست دے کر سلجوق کی تمام طاقت کا مالک بن گیا۔ 1130ء میں اس نے ماورانہر کے حاکم احمد خان پر حملہ کیا کیونکہ اس نے خراج دینا بند کر دیا تھا۔ سمرقند پر قبضہ کرکے احمد خان کو قید کر لیا۔
لیکن بعد میں رہا کرکے اس کی قابلیت سے متاثر ہو کر اسے بحال کر دیا۔ اس کے بعد بہرام شاہ غزنوی نے بغاوت کی جو کہ دبا دی گئی۔
1140ء میں سمرقند میں دوبارہ بغاوت ہو گئی اور چھ ماہ تک سنجر نے محاصرہ کو جاری رکھ کر فتح کر لیا اور شمال کی طرف اس نے خوارزم پر قبضہ کر لیا۔
سلطان سنجر کا غزنی پر حملہ:
بہرام غزنوی چونکہ سلطان سنجر سلجوقی کی سیادت کو تسلیم کر چکا تھا۔
لہٰذا اس نے ہندوستان سے سلطان سنجر کے پاس فریاد نامے بھیجے۔ سلطان سنجر نے دوسرے سال حملہ کرکے غور و غزنی کو فتح کرکے علاؤ الدین کو اپنے ہمراہ لے گیا۔ علاؤ الدین غوری نے جو کچھ غزنی میں کیا تھا۔ وہ جوش انتقام سے کیا۔ ورنہ وہ بہت سمجھ دار اور دور اندیش اور قابل شخص تھا۔ چنانچہ چند ہی روز بعد سلطان سنجر نے علاؤ الدین کی قابلیت سے متاثر ہو کر اس کو خوشی سے رہا کر دیا اور وہ اپنے وطن غور میں آکر پھر حکومت کرنے لگا۔
سلطان سنجر کی شکست:
ملک شاہ نے انوشتگین کو خدمات کے صلے میں خوارزم یا خیوہ کی حکومت دی اس کے بعد اس کا بیٹا قطب الدین محمد اس کا جانشین بنا لیکن چینی ترکستان کے علاقے خطا سے قراخطائیوں نے اس پر حملہ کر دیا اور فتح حاصل کررکے قطب الدین کو خراج دینے پر مجبور کر دیا۔ قطب الدین کے بعد اس کا بیٹا اتسز تخت نشین ہوا۔ چونکہ اتسز قراخطائیوں کا باج گزار تھا۔
اس لئے اس نے مصلحت وقت کے خیال سے انہیں اپنے ساتھ ملا کر سلطان سنجر پر حملہ کرنے کی دعوت دی چنانچہ ان کے ساتھ مل کر سلطان سنجر کو دریائے جیحوں کے کنارے شکست دی۔ یہ اس کی پہلی شکست تھی۔ قراخطائیوں نے مرو اور نیشاپور پر قبضہ کر لیا اور اتسز نے خوارزم میں آزاد ریاست کا اعلان کر دیا۔
سلطان سنجر کی اسیری:
1152ء میں قراخطائی قبائل نے غزقبائل پر غلبہ پاکر ان کی چراگاہیں چھین لیں اور انہیں بلخ کے علاقے کی طرف دھکیل دیا۔
غزقبائل کو سلطان سنجر نے اس شرط پر بلخ کے علاقے میں آباد ہونے کی اجازت دی کہ وہ سالانہ خراج کے طور پر بیس ہزار بھیڑیں بھیجا کریں گے۔ خراج ادا کرنے کا جب وقت آیا تو بھیڑوں کی اقسام پر حاکم بلخ سے کچھ جھگڑا ہو گیا۔ جسے حاکم بلخ نے نپٹانے کی بجائے اور طول دیا۔ آخر 1152ء میں سلطان سنجر کو غز قبائل کے خلاف فوج کشی کرنی پڑی۔ غز قبائل سخت خوف زدہ ہوئے اور کثیر رقم بطور تاوان ادا کرنے کی پیشکش کی۔
لیکن حاکم بلخ مصر تھا کہ غزقبائل کو خوفناک سزا دی جائے۔ لیکن جب سلطان نے حملہ کیا تو غزا تنی بہادری سے لڑے کہ سلطان کو شکست دے کر نہ صرف قید کر لیا بلکہ مرو اور نیشاپور کو فتح کرکے لوٹ بھی لیا۔
سلطان سنجر کی رہائی اور وفات:
سلطان سنجر چار سال تک غزوں کی قید میں رہا۔ یہ قید اس قسم کی تھی جیسے کہ ہندوستان کا بادشاہ جہانگیر مہابت خان کی قید میں تھا۔
یعنی ترکان غزو دن کے وقت سلطان سنجر کو تخت پر بٹھاتے اور اس کے سامنے مودبانہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے اور رات کے وقت اس کو ایک آہنی قفس میں بند کر دیتے۔ سلطان سنجر ہی کو اپنا بادشاہ مانتے جہاں چاہتے لئے پھرتے۔ ایک دفعہ شکاری مہم سے سلطان بچ کر نکل بھاگا۔ لیکن جب وہ مرو پہنچا تو اس تباہ شدہ شہر کو دیکھ کر جینے کی امنگ جو اسے یہاں لائی تھی سرد پر گئی۔
اس افسردگی کی حالت میں 1156ء میں 73 برس کی عمر میں جہان فانی کو خیر باد کہا اور اپنے بنائے ہوئے مقبرے میں دفن ہوا۔ اس کے بعد اس کا خواہر زاددہ محمود خان تخت نشین ہوا۔ اس کے بعد طغرل ثالث تخت نشین ہوا۔ آخر تکش نے اس کو شکست دے کر سلجوقی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے علاوہ سلاحقہ ، کرمان ، سلاجقہ ، عراق ، سلاجقہ روم ، سلاجقہ سوریہ چھوٹی چھوٹی حکومتوں کے سلجوقی سلسلے تھے۔
اتابکان شیراز:
سلجوق سلاطین اپنے شہزادوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاق فاضلہ سکھانے کیلئے جن اتالیقوں کے سپرد کرتے تھے وہ اتابک کہلاتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان اتابکوں کو وزارت بھی ملنے لگی اور خاندان سلجوقیہ کے کمزور ہونے پر ان اتابکوں نے مختلف ملکوں اور صوبوں میں اپنی خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔ چنانچہ ان اتابکوں کے بہت سے خاندان شام ، عراق ، فارس میں برسر حکومت رہے اور بعض نے عالم اسلام میں بڑی ناموری حاصل کی۔
اتابکان شیراز کی حکومت کو ”دولت سلغریہ“ بھی کہتے ہیں۔
سلطان سنجر سلجوقی کے عہد میں مظفر الدین سنقر بن مودود سلغری فارس کا عامل و حاکم تھا۔ سلطان سنجر کی وفات کے بعد اس نے اپنا خطاب اتابک تجویز کیا اور فارس پر خود مختارانہ حکومت کرنے لگا۔ 1161ء میں فوت ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا 1176ء میں تخت نشین ہوا اور وہ بیس سال تک حکمران رہا۔
اس کا نام تکلہ تھا۔ اس کے بعد اتابک سعد بن زنگی 28 سال تک حکمران رہا۔ 1227ء میں وفات پائی۔ سعد کے نام پر ہی سعدی نے اپنا تخلص رکھا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا اتابک ابو بکر بن سعد زنگی تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد میں ہلاکو خان کے ہاتھ سے بغداد کی تباہی عمل میں آئی۔ اس نے مغلوں کی باج گزاری اختیار کر لی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اتابک محمد تخت پر بیٹھا۔ 664ھ تک یہ خاندان شیراز و فارس پر حکمران رہا اور مغلوں کے زوال پر ایک دفعہ پھر خود مختار ہو گیا۔ اس کے بعد تیموری دور آ گیا۔

Chapters / Baab of Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat