Episode 28 - Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat

قسط نمبر 28 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

علاء الدین محمد خوازم شاہ (1201تا1220)
شاہزادہ قطب الدین توشیز کا معاصرہ کیے ہوئے تھا کہ اسے تکش کی وفات کی اطلاع موصول ہوئی۔ ترشیز کے محاصرے کو چار مہینے ہوچکے تھے اور اہلِ شہر اس قید بامشقت سے ازبس تنگ آگئے تھے۔ شاہزادے نے اس ناخوشگوار خبر کو اہل لشکر پر ظاہر نہ ہونے دیا اور آہستہ آہستہ کوچ کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ اگرچہ سپاہ بھی چار مہینے کی کشمکش سے اکتا چکی تھی لیکن چونکہ حالات روز بروز ان کے حق میں سازگار ہو رہے تھے اس لیے وہ شہر فتح کے بغیر محاصرہ اٹھا لینے کے حق میں نہ تھے۔
ادھر جب اہالیانِ ترشیز کو شاہزادے کی تیاریوں کا علم ہوا تو بجائے خوش ہونے کے گھبرا سے گئے، کیونکہ وہ لوگ محاصرے کی سختی کی مزید تاب نہیں لاسکتے تھے اس لیے محاصرہ اٹھا لینے کو انہوں نے کسی خطرناک تر فوجی چال کا پیش خیمہ خیال کیا۔

(جاری ہے)

چنانچہ اہل شہر کے ایک وفد نے حاضر ہو کر تقصیرات کی معافی طلب کی اور ایک لاکھ دینار بطور تاوان ادا کرنے کی پیشکش کی۔

شاہزادے کو اور کیا چاہیے تھا، عہد نامہٴ صلح پر دستخط ہوگئے اور قطب الدین محمد لشکر لے کر خوارزم کو روانہ ہوگیا۔ امرا اور اراکینِ سلطنت چشم براء تھے اور ڈر رہے تھے کہ ایسا نہ ہو ولی عہد کے آنے سے پیشتر کوئی اور دعودے دار اٹھ کھڑا ہو اور خانہ جنگی شروع ہوجائے۔ شاہزادے نے خوارزم پہنچ کر ۲۰ شوال ۵۰۶ ھ مطابق ۳ اگست ۱۲۰۱ ع کو علاء الدین محمد خوارزم شاہ کے لقب سے تختِ سلطنت پر جلوس فرمایا۔
۱
۱۔ جہاں کشا: ج ۲، ص ۴۸ -
جب تکش مرا تو اس کا دوسرا بیٹا تاج الدین علی شاہ اصفہان کا صوبے دار تھا۔ تخت نشینی کے بعد جب خوارزم شاہ نے اسے دربار میں طلب کیا تو اس ناعاقبت اندیش شاہزادے نے شہر کو لوٹ لیا۔ سلطان کو اس کی یہ جاہلانہ حرکت بہت ناگوار گزری۔ جب وہ دربار میں پہنچا تو خوارزم شاہ نے اسے بہت کچھ سخت سست کہا اور وہاں کی حکومت سے معزول کر کے خراسان بھیج دیا۔
غوریوں سے کشمکش:
شاہزادہ ناصر الدین کی وفات سے لے کر اب تک اس کا بیٹا ہندو خان نیشاپوری کا حکم چلا آرہا تھا۔ جب علاء الدین تخت نشین ہوا تو چونکہ ہندو خان کے باق کے تعلقات علاء الدین سے اچھے نہ تھے اور بھتیجے کو خطرہ تھا کہ چچا اس سے کسی طرح کی مروت کا روادار نہ ہوگا، اس لیے وہ نیشا پور چھوڑ کر مرو چلا گیا۔ جب ذرا سستا چکا تو خراسان پر چڑھائی کی تیاری میں مصروف ہوگیا۔
علاء الدین نے جنقدر الترکی نامی ایک کماندار کو فوج دے کر ہندو خان کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ جب ہندو خان کو سلطان کے ارادے کا علم ہوا تو وہ مرو سے سلاطینِ غور کے پاس چلا گیا اور جنقر الترکی نے مروپر قبضہ کر کے ہندو خان کے بال بچوں کو گرفتار کر کے خوارزم بھیج دیا۔ غیاث الدین نے اس ناخواندہ مہمان کو تپاک سے خوش آمدید کہی اور امداد کا وعدہ کیا۔
غیاث الدین اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ چونکہ علاء الدین نو عمر اور ناتجربہ کار ہے اس لیے اسے اچھی طرح دبا دینا چاہیے تاکہ آگے چل کر یہ فتنہ قیادت نہ بننے پائے۔ چنانچہ غیاث الدین نے محمد بن جریک کو، جو غوریوں کا آزمودہ کار جرنیل تھا، جنقر الترکی کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ اس نے مرو پہنچ کر جنقر کو کہلا بھیجا کہ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ علاء الدین سے علیحدگی اختیار کر کے دربارِ غور سے تعلق پیدا کرلو۔
چونکہ جنقر، محمد بن جریک کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اس لیے دربار خوارزم سے اس شرط پر قطع تعلق پر آمادہ ہوگیا کہ غیاث الدین کا دماغ پھر گیا اور لگا خیالی پلاؤ پکانے کہ کیوں نہ خوارزم شاہ کے دور افتادہ علاقوں کو اپنی قلمرو میں شامل کرلے۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے نسا، مرو، سرخس اور ابیورد کو فتح کر کے زنگی بن مسعود کی تحویل میں دے دیا۔
اس وقتی کامیابی سے سلاطینِ غور نے یہ غلط تاثر لیا کہ نوجوان علاء الدین ان کا حریف نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ایک جرار لشکر لے کر، جس میں نوے بھاری بھرکم ہاتھی بھی شامل تھے، طوس پر حملہ کردیا۔ معمولی مقابلے کے بعد شہر فتح ہوگیا جسے غوری لشکر نے تاخت وتاراج کر کے مکمل طور پر تباہ کردیا۔ وہاں سے نیشا پور کو روانہ ہوا تاکہ اسے بھی فتح کر کے اپنی قلمرو میں شامل کرلے۔
انہی دنوں تاج الدین علی شاہ عراق سے واپسی پر نیشا پور میں پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔ اس نے مقابلے کی ٹھان لی اور حکم دیا کہ فصیلِ شہر کے باہر تمام وہ درخت کاٹ دئیے جائیں اور بستیاں مسمار کر دی جائیں جن کی اوٹ میں دشمن کو پناہ مل سکتی ہے۔ جب غوری سپاہ غیاث الدین کی سرکردگی میں شہر کے قریب پہنچی تو اس نے اپنے بیٹے کو بلا کر کہا کہ میں جب تمہاری بہادری کا قائل ہوں گا کہ اپنے چچا شہاب الدین کے آنے سے پہلے قلعہٴ شہر پر اپنا جھنڈا گاڑ دو۔
جواں سال شاہزادہ باز کی طرح جھپٹا اور قبل ا س کے کہ اہلِ شہر مزاحمت کر سکیں، قلعہٴ شہر پر جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہوگیا۔ حسبِ سابق لشکر نے شہر کو لوٹ لیا۔ جب غیاث الدین کو فوج کی ان دست درازیوں کا علم ہوا تو اس نے لشکر میں منادی کرا دی کہ اہلِ شہر کا لوٹا ہوا سامان فوراً واپس کردیا جائے اور اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز پائی گئی تو قتل کردیا جائے گا۔
۱
۱۔ جہاں کشا: ج ۲، ص ۴۸ - ۴۹ -
جب سلطان کو سلاطینِ غور کی دست درازیوں کا علم ہوا تو بہت سٹپٹایا۔ اس نے غیاث الدین کو لکھا کہ والد کی وفات کے بعد میرا خیال یہ تھا کہ اگر کسی وقت ترکان خطا نے مجھ پر حملہ کردیا تو ایسے آڑے وقت میں آپ میری امداد سے دریغ نہیں کریں گے لیکن یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی کہ آپ نے الٹا مجھ پر ایسے نازک وقت میں چڑھائی کردی جب میں اپنے نامور باپ کا ماتم کر رہا تھا۔
ممکن ہے آپ اس سے اتفاق نہ کریں لیکن یہ آئینِ جواں مردی نہیں ہے۔ آپ کو چاہیے کہ میری قلمرو سے فوراً اپنی فوجیں واپس بلالیں اور جو علاقے آپ نے فتح کرلیے ہیں وہ میرے آدمیوں کو واپس کردیے ورنہ مجبوراً مجھے ترکانِ خطا سے امداد لینا پڑے گی۔ اس وقت تک ترکانِ خطا کے نام کی دھاک بندھی ہوئی تھی اور قرب وجوار کی تمام ریاستیں ان کے ڈر سے کانپ اٹھتی تھیں۔
غیاث الدین نے ترکانِ خطا کا نام سنا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ نہ لڑنا چاہتا تھا اور نہ فتح کیے ہوئے علاقے واپس کرنے پر آمادہ ہوسکتا تھا۔ لگا ٹالنے اور بہانے بنانے۔ اصل بات یہ تھی کہ شہاب الدین ان دنوں کسی مہم کو سر کرنے کے لیے ہندوستان گیا ہوا تھا اور غیاث الدین بے تابی سے اس کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اگر لڑائی تک نوبت پہنچ ہی جائے تو بھائی کی موجودگی سے فائدہ اٹھا سکے۔
علاء الدین غیاث الدین کی اس چال کوسمجھے ہوئے تھا۔ اس نے غیاث الدین کے داماد ضیاء الدین کو، جو کہ نیشا پور میں متعین تھا، لکھا کہ وہ فوراً نیشا پور سے نکل جائے۔ اس نے غیاث الدین سے استصواب کیا اور یہ بھی لکھا کہ چونکہ اہلِ نیشا پور خوارزم شاہیوں کے وفادار ہیں اس لیے بیرونی حملے کے علاوہ اندرونی بغاوت کا خطرہ بھی بڑا وقیع ہے۔ غیاث الدین نے لکھا کہ جس طرح بن پڑے، میرے آنے تک دشمن کو روکے رکھو۔
چنانچہ بغیر تاخیر مزید کے سلطان نے ۱۵ ذی الحجہ ۵۰۷ھ مطابق ۱۶ ستمبر ۱۲۰۱ع کو نیشا پور پر حملے کے ارادے سے کوچ کیا اور شادیاخ کے مقام پر جا ٹھہرا تاکہ مزید فوج بھرتی کر کے آغاز موسمِ بہار میں اپنی مہم کی ابتدا کرسکے۔ جب تاجیک قبیلے اور ترکوں کے کافی آدمی جھنڈے تلے جمع ہوگئے تو نیشا پور پر چڑھائی کا حکم دے دیا۔ بیرون شہر دوچار جھڑپوں کے بعد غوری افواج واپس شہر میں داخل ہو کر محصور ہوگئیں۔
کچھ دنوں بعد انہیں احساس ہوگیا کہ وہ خوارزم شاہی فوجوں کے مقابلے میں زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکیں گی اس لیے علماء وفضلا شہر کی وساطت سے انہوں نے صلح کی درخواست کی اورشہر حوالے کردینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ چونکہ سلطان خود بھی معاملے کو طول نہیں دینا چاہتا تھا اس لیے اس نے ضیاء الدین کو اجازت دے دی کہ وہ مع لشکر کے جاسکتا ہے، اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔
نیز اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اگر ہوسکے تو وہ سلاطینِ غور کو یہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ وہ ازراہِ کرم اس کے خلاف رویہ بدل لیں تاکہ خواہ مخواہ خون ریزی نہ ہونے پائے۔ ۱
۱۔ ابنِ اثیر: ج ۱۲ ، ص ۸۱ - ابنِ خلدون: ج ۵ ة ص _ ۹ - جہاں کشا/ ج ۲ ، ص ۵۹ -
جب یہ مہم بہ خیر وعافیت انجام پاگئی تو سلطان نے سرخس کا رخ کیا جسے سلطانِ غور نے زنگی بن مسعود کی تحویل میں دے رکھا تھا۔
ہرچند سلطان نے کوشش کی کہ زنگی بغیر لڑائی بھڑائی کے شہر حوالے کردے لیکن اس نے ایک نہ مانی اور شہر کے دروازے بند کر کے محصور ہوگیا۔ سلطان نے محاصرے کا حکم دے دیا۔ ابھی بہ مشکل چالیس دن ہی گزرنے پائے تھے کہ شہر میں اشیائے خورد ونوش اور سوختنی لکڑی کا سخت قحط پڑ گیا اور بچاؤ کی کوئی صورت نہ رہی۔ چنانچہ زنگی نے سوچا کہ کیوں نہ کوئی چال چل کر لشکر اور اہالیانِ شہر کو ہنگامی طور پر ہی سہی، اس تباہی سے بچالے۔
اس نے سلطان کو لکھا کہ وہ اس شرط پر شہر کو سلطان کے حوالے کرنے کو تیار ہے کہ سلطان اپنے لاؤ لشکر کو لے کر شہر سے پرے ہٹ جائے تاکہ وہ اطمینان سے اپنی فوج لے کر شہر سے نکل جائیں۔ چونکہ اس بظاہر بے ضرر شرط کے مان اپنے میں سلطان کو کوئی خرابی نظر نہیں آتی تھی اس لیے وہ لشکر لے کر پیچھے ہٹ گیا۔ یہ دیکھ کر زنگی نے دروازے کھول دئیے اور طے شدہ تجویز کے مطابق سلطان اور اس کے لشکر کی آنکھوں کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں اور جلانے کی لکڑی کے انبار کے انبار اٹھا کر شہر میں واپس چلا گیا اور دروازے بند کر کے پھر سے محصور ہوگیا۔
سلطان بڑا جزبز ہوا لیکن کیا کرسکتا تھا۔ چونکہ زنگی خورد ونوش کے تمام ذخائر اٹھا کرلے گیا تھا، نتیجتاً خوارزمی فوج کو لینے کے دینے پڑ گئے، کیونکہ اتنی بڑی فوج کے لیے خورد ونوش کا ازسر نو انتظام کرنا از بس دشوار تھا۔ اب سلطان کے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہٴ کار نہ تھا کہ وہ کچھ سپاہ وہاں چھوڑ کر خود خوازم چلا جائے اور اس بعد کا انتقام لینے کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار کرے۔
جب محمد بن جریک کو سلطان کی واپسی کا علم ہوا تو وہ فوراً زنگی بن مسعود کی امداد کو روانہ ہو پڑا۔ خوارزمی سپاہ کے لیے دو محاذوں پر لڑنا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ سردست محاصرہ اٹھا کر اپنی راہ لی۔ ۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۲ ، ص ۸۱ - جہاں کشا: ج ۲ ، ص ۵۰ -
اسی اثنا میں زنگی بن مسعود اور محمد بن جریک نے مل کر مرو الرود اور اس کے نواحی علاقے فتح کر کے غوری قلمرو میں شامل کرلیے۔
جب سلًان کو علم ہوا تو اس نے اپنے نائبوں کو تین ہزار فوج دے کر زنگی کے مقابلے کے لیے روانہ کیا۔ اگرچہ زندگی کی کہانی میں اس وقت صرف نو سو سپاہی تھے لیکن وہ ایسا جی توڑ کر لڑے کہ خوارزمیوں کو شکست فاش ہوئی۔ جب سلطان کو سپاہ کی ہزیمت کا علم ہوا تو انتقامی کارروائی کی تیاری میں لگ گیا اور اس ڈر سے کہ کہیں غوریوں کو پتہ نہ چل جائے، بظاہر مصالحت کی پیشکش کردی، اور دربار غور کو لکھا کہ وہ اپنا سفیر روانہ کریں تاکہ مصالحت کی شرائط سے کی جاسکیں۔ جب سفیر واردِ خوارزم ہوا تو سلطان کیل کانٹے سے لیس ہوچکا تھا۔ چنانچہ سفیر کی گرفتاری کا حکم دیا اور خود فوج لے کر ہرات کا رخ کیا۔ ۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲ ، ص ۸۱ - ۸۲ - ابن خلدون: ج ۵ ، ص ۹۸ ۹۹ -

Chapters / Baab of Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat