Episode 41 - Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat

قسط نمبر 41 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

چنگیز خان
ترکستان کے شمال میں ایک وسیع صحرا ہے جسے صحرائے گوبی کہتے ہیں۔ جو فرغانہ سے لے کر دریائے آمد تک پھیلا ہوا ہے۔ زمانہ قدیم میں یہاں نیم وحشی قومیں آباد تھیں۔ جو گاہے بگاہے یورش کرکے گرد و نواح کے ممالک کو تہ و بالا کر دیتی تھیں۔ منگول (یا مغل) اسی علاقے کے خانہ بدوش تھے۔ گھوڑوں اور مویشیوں کو پالنا ان کا اہم پیشہ تھا۔ یہ بہترین قسم کے گھوڑ سوار اور مانے ہوئے تیر انداز تھے۔
وہ سخت غلیظ ہوتے حتیٰ کہ وہ اپنے ملازمین کو یہ حکم دیتے کہ جو قطرہ شراب گرے اسے چاٹیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان نے لفظ ”گندہ“ کا استعمال ممنوع قرار دے دیا تھا وہ پانی کی بجائے دھوپ سے غسل کرتے۔
ترک نسل کا مورث اعلیٰ یافث جو کہ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا۔

(جاری ہے)

یافث کی اولاد بلاد شرقیہ ملک چین وغیرہ میں آباد ہوئی۔ یافث کی اولاد میں ایک شخص ترک نامی ہوا اس کی اولاد چین و ترکستان میں پھیل گئی وہ سب ترک کہلائے لہٰذا ترک بن یافث کی اولاد کے ہر قبیلے پر ترک کا لفظ بولا جاتا ہے۔

مغول و تاتار:
سلجوقیوں کے مسلمان ہونے اور خراسان کی جانب خروج کرنے سے پہلے ترکوں کے دو اور قبیلے دو حقیقی بھائیوں کے نام سے نامزد ہو چکے تھے۔ جن کے نام مغول اور تاتار تھا اور ان کے والد کا نام النجہ خان تھا۔ ان دونوں سے مغول اور تاتار قومیں پیدا ہوئیں۔ مغول خان کا بیٹا قرا خان اور قرا خان کا بیٹا ارغون خان اس کا بیٹا تیگز خان اس کا بیٹا منگلی خان اس کا بیٹا ایل خان اس کا بیٹا قیان خان تیمور تاش جانشین مقرر ہوا۔
اس کے بعد یلدوز خان اور اس کے بعد جونیہ بہادر جونیہ بہادر کے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اس سے بوقا خان اور بوقا خان سے تومین خان اور اس سے قائدو خان اس سے تومنہ خان اور اور تومنہ سے قبل خان اور قبل خان سے برنان بہادر اور اس سے میسو کا بہادر اور اس سے تموجین (یاچنگیز خان) پیدا ہوا۔
چنگیز خان کسی اعلیٰ خاندان کا فرد نہ تھا۔ بلکہ اس کا قبیلہ یوکیات کہلاتا تھا۔
اس کے معنی خرگوش کے ہیں۔ یہ پست خاندان چینی تاجروں کا دست نگر تھا۔
کہتے ہیں کہ جب تموجین پیدا ہوا۔ اس کی مٹھی میں جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا تھا۔ دنیا میں یہ آیا تو سوائے زندہ بچنے کی طاقت ور جبلت کے اپنے ساتھ کچھ نہ لایا۔ اس منجمد خون کو یکھ کر اس وقت سب نے یہی رائے قائم کی تھی کہ لڑکا بڑا خون ریز ہوگا۔ 564ھ میں جب چنگیز خان کے والد کا انتقال ہوا تو اس وقت اس کی عمر صرف تیرہ برس تھی۔
سوائے امیر قراچا کے تمام رشتہ دار تموجین سے باغی ہو گئے۔ اس حالت میں تموجین نے اورنگ خان سے امداد چاہی۔ لیکن جب اس نے پناہ دی تو اسے دھوکے سے قتل کر دیا اور وسیع علاقے پر قبضہ کرکے یانگ خان کو بھی شکست دی۔ ان فتوحات کے بعد تموجین قبائل مغلیہ کا مرجع و مرکز بن گیا۔
نام کی تبدیلی:
ایک شخص تنکیری نام تھا اور مغل اس کو بڑا عابد و زاہد اور قابل تکریم سمجھتے تھے۔
اس نے تموجن کو کہا کہ وہ اپنا نام تموجن کی بجائے چنگیز خان رکھ لے۔ چنگیز خان نے اس بات کو تسلیم کر لیا اور اپنے آپ کو چنگیز خان کے نام سے موسوم کیا۔ ترکی زبان میں اس کے معنی شہنشاہ کے ہیں یا شاید یہ نام شہنشاہ کے مترادف قرار پایا۔
اس کے بعد رفتہ رفتہ تمام قبائل مغلیہ پر چنگیز خان کا قبضہ ہو گیا اس طرح جب چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو مٹا کر ایک زبردست سلطنت قائم کر لی تو اس نے مناسب سمجھا کہ اپنے مدمقابل خوارزم شاہ سے صلح و دوستی کا عہد کر لے۔
کیونکہ دونوں کی حدود سلطنت ایک دوسرے سے مل گئی تھیں۔
خوارزم شاہ سے اقدام صلح:
چنگیز خان نے اپنے ایلچیوں کے ہاتھ خوارزم شاہ کی خدمت میں ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا کہ ”میں نے اس قدر وسیع ممالک فتح کر لئے اور میرے زیر فرمان اس قدر جنگجو قبائل ہیں کہ اب مجھ کو دوسرے ملکوں کے فتح کرنے کی آرزو اور تمنا نہیں ہے۔ اسی طرح تم بھی بہت سے ملکوں پر قابض و متصرف اور بہت بڑے بادشاہ ہو۔
مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم تم دونوں آپس میں محبت و دوستی کا عہد کریں تاکہ ہر ایک دوسرے طرف سے مطمئن رہے اور اصلاح و فلاح خلائق میں اطمینان کے ساتھ مصروف ہو جائیں۔ اس خط میں چنگیز خان نے یہ بھی لکھا کہ میں تم کو اپنے بیٹے کی مانند عزیز سمجھوں گا۔ اس خط کو پڑھ کر خوارزم شاہ نے بظاہر چنگیز خان کے سفیروں کی خاطر مدارت اور دوستی کا عہد نامہ لکھ دیا۔
مگر خط کے آخری لفظ یعنی بیٹے والے فقرے کو ناپسند کیا اور اپنی تحقیر سمجھا۔ عہد نامہ میں طرفین نے تجارت کی آزادی کو تسلیم کیا اور تاجر ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے لگے۔
چنگیز خان اگرچہ کافر تھا۔ مگر ہمیں اس کی دانائی کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے ایک زبردست بادشاہ کے خطرے سے محفوظ رہنے کیلئے آشتی میں ابتداء کی یہ بات بھی اس کی دانائی کی دلیل ہے کہ عہد نامہ صلح میں اسی کی خواہش سے تاجروں کے آنے جانے کی آزادی کا ذکر کیا گیا۔
خوارزم شاہ کی غلطی:
خوارزم شاہ کی بدبختی دیکھئے کہ جب چنگیز خان نے اپنا ایک خط ایلچی کو دیا اور اس ایلچی کو ان ساڑھے چار سو مسلمان سوداگروں کے قافلے کے ساتھ کر دیا۔ جو مغولستان (ترکستان) میں بغرض تجارت آئے ہوئے تھے اور اب واپس جا رہے تھے۔ سوداگروں کے اس تمام قافلہ کو چنگیز خان نے اپنا وفد سفارت قرار دیا۔ کیونکہ ان سوداگروں میں بعض بڑے مرتبہ کے اور دربار رس تاجر تھے۔
جب یہ قافلہ مقام اترار میں پہنچا تو خوارزم کے نائب السلطنت نے جو وہاں موجود تھا۔ اس قافلہ کو قید کر لیا۔ قافلہ والوں نے ہر چند کہا کہ ہم مسلمان ہیں۔ سوداگری کیلئے ترکستان گئے تھے۔ اب واپس آ رہے ہیں اور بادشاہ کی طرف سے سفیر بن کر بھی آ رہے ہیں۔ مگر اس حاکم نے کچھ نہ سنا اور خوارزم شاہ کو لکھا کہ ترکستان سے کچھ جاسوس سوداگروں اور سفیروں کے لباس میں آئے ہیں۔
میں نے ان کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان کی نسبت آپ کا کیا حکم ہے۔ سلطان نے لکھا کہ ان کو قتل کر دو۔ چنانچہ حاکم اترارنے ساڑھے چار سو آدمیوں کو بے دریغ تہ تیغ کرکے تمام مال و اسباب پر قبضہ کر لیا۔ ان میں سے ایک شخص کسی طرح بچ کر نکل بھاگا۔ اس نے جاکر چنگیز خان کو قافلہ کے مقتول ہونے کا حال سنایا۔
چنگیز خان نے ایک خط پھر خوارزم شاہ کے پاس نہایت اہتمام و احتیاط کے ساتھ بھیجا اس میں لکھا کہ حاکم اترار نے بڑی نالائقی کا کام کیا ہے اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرکے جرم عظیم کا مرتکب ہوا ہے۔
مناسب یہ ہے کہ اسے یا تو میرے سپرد کیا جائے یا آپ خود کوئی عبرت ناک سزا دیں۔ خوارزم شاہ نے اس خط کو پڑھتے ہی ایلچی کو قتل کر دیا۔ بعض مورخین کا بیان ہے کہ چنگیز خان نے اس کے بعد پھر ایک ایلچی بھیجا اور لکھا کہ ایلچی کا قتل کرنا بادشاہوں کا کام نہیں ہے اور سوداگروں کی حفاظتکا انتظام کرنا بادشاہوں کا فرض ہے۔ میرے مطالبات پر آپ دوبارہ غور فرمائیں۔
جو ایلچی یہ پیغام لے کر گیا اس کو بھی خوارزم شاہ نے قتل کر دیا۔ اگرچہ بعض امراء نے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ کچھ بھی ہو ایلچی کا قتل کسی طرح بھی جائر نہیں۔ لیکن خود سر حکمران نے کسی کا کہا نہ مانا اور اس باقی ساتھیوں کو داڑھیاں جلا کر واپس کر دیئے۔
چنگیز خان یہ سن کر پہاڑی پر چڑھ گیا اور دیر تک اپنے مذہب کے مطابق سورج کے سامنے سر بسجود رہا۔
پھر بلند آواز میں پکارا ”جس طرح فلک لازوال پر دو سورج نہیں اسی طرح زمین پر دو خاقان نہیں ہوں گے۔ اگرچہ چنگیز خان اور خوارزم کی جنگ ناگزیر ہو چکی تھی۔ لیکن وہ مسلمانوں کے اتحاد سے ڈرتا تھا کہ اگر یہ متحد ہو گئے تو صحرائے گوبی کے ویرانوں میں بھی سر چھپانے کو جگہ نہ ملے گی۔
خلیفہ کی چنگیز خان کو مدد کی پیشکش:
اس سے قبل خلیفہ اور خوارزم کی ناچاقی ہو چکی تھی۔
خوارزم کا مطالبہ تھا کہ بغداد کی مساجد میں خلیفہ کے ساتھ اس کے نام کا بھی خطبہ پڑھا جائے۔ لیکن جب خلیفہ نے انکار کر دیا تو خوارزم نے بھی خلیفہ کے نام کا خطبہ سلطنت سے منسوخ کر دیا۔ چنگیز خان کو اس بات کا علم تھا اور وہ اس کوشش میں تھا کہ مسلمانوں کو متحد نہ ہونے دے ورنہ افریقہ سے ہندوستان تک کے مسلمان اس کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیں اور خلیفہ سے سازباز کرکے خوارزم پر حملے کی تیاریاں کرنے لگے۔
یہاں تک کہ خلیفہ نے ایلچی کے قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیا اور چنگیز خان کو یقین دلایا کہ حملے کی صورت میں کوئی مسلمان خوارزم کی حمایت نہیں کرے گا۔
یہ حالات سن کر چنگیز خان نے ترکستان کے جنگجو جو قبائل کی فوج مرتب کرنی شروع کی اور خوارزم شاہ کو بادشاہ کے نام سے یاد کرنا چھوڑ دیا بلکہ جب اس کا ذکر آتا کہتا وہ بادشاہ نہیں بلکہ چور ہے۔
کیونکہ بادشاہ ایلچیوں کو قتل نہیں کیا کرتے۔ اتفاق سے ان ہی ایام میں ایک سرحدی سردار توق تغان نامی سے کچھ سرکشی کی علامت کا معائنہ کرکے چنگیز خان نے اپنے بیٹے جوجی خان کو اس کی سرکوبی کیلئے روانہ کیا۔ توق تغان ماورالنہر کے علاقے میں چلا آیا۔ جہاں سلطان خوارزم شاہ بھی کسی سبب سے آیا ہوا تھا۔ جوجی خان نے توق تغان کا تعاقب کرکے اس کو گرفتار کر لیا۔
یہ دیکھ کر خوارزم شاہ نے جوجی خان کی طرف حرکت کی۔ جوجی خان نے خوارزم شاہ کے پاس خط بھیجا کہ آپ مجھ پر حملہ نہ کریں۔ میں آپ سے لڑنے پر مامور نہیں کیا گیا ہوں۔ میں تو صرف اپنے باغی کو گرفتار کرنے آیا تھا۔ میرا مقصد حاصل ہو چکا ہے اور میں واپس جا رہا ہوں۔ مگر خوارزم شاہ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور جوجی خان پر حملہ آور ہوا۔ شام تک زور آزمائی ہوتی رہی لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوا۔
رات کو جوجی اپنے لشکر گاہ میں آگ جلتی ہوئی چھوڑ کر ترکستان کی طرف کوچ کر گیا اور تمام حالات چنگیز خان کو سنائے۔
چنگیز خان یہ حالات سنتے ہی مغلوں کا لشکر عظیم لے کر ایران اور ممالک اسلامیہ کی طرف متوجہ ہوا۔
اس جگہ ہمیں سکون قلب کے ساتھ غور کر لینا چاہئے کہ ایک مسلمان بادشاہ سے کیسی ناعاقبت اندیشانہ حرکات سرزد ہوئیں۔ ورنہ ایک کافر بادشاہ کن حالات اور مجبوریوں میں ممالک اسلامیہ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ جہاں تک عدل و انصاف سے کام لیا جائے گا۔ ابھی تک چنگیز خان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

Chapters / Baab of Sultan Jelal-Ul-Din Muhammad Howrzam Shah By Sheikh Muhammad Hayat