Episode 12 - Ghenti - Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik

قسط نمبر12۔ گھنٹی - طاقتور شکاری کا المیہ (افسانے) - طیب عزیز ناسک

گھنٹی
کامی کا جسم شدید دردکر رہا تھا۔وہ کھیتوں کے درمیان بنی پکڈنڈ ی پر چلتے چلتے تھک چکا تھا۔گاؤں کے لوگوں کی کراہت آمیز نظریں اُسے آج بھی پریشان کر رہی تھیں۔شام کے سائے آہستہ آہستہ بڑھ رہے تھے۔ادھر سے گزرتے کسان جو سروں پر گھاس کی گٹھریاں لادے گھروں کی طرف جا رہے تھے۔
وہ اس کی طرف دیکھتے اور اس پر آوازیں کستے۔کامی بچارا کر ہی کیا سکتا تھا۔ایسا زندگی میں اس کے ساتھ پہلی مرتبہ تھوڑی ہو رہا ہے۔وہ تو ہمیشہ سے ہی لوگوں کا شکار رہا ہے۔ چوہدری کے باڑے سے گوئے چرانے کا الزام اس پر کئی مرتبہ لگ چکا تھا۔حالانکہ اس نے کبھی ایسی گھٹیا حرکت نہیں کی تھی لیکن گاؤں والے یہی سمجھتے تھے۔حلانکہ وہ جانتا تھا کہ گوئے (اوپلے) کس نے چرائے ہیں۔

(جاری ہے)

اس واقعے کے بعد اس کا دل بہت دکھی ہوا وہ چا ہتا تھا کہ کچھ کر گزرے لیکن اس کے بس میں کچھ نہ تھا۔
گاؤں سے تھوڑے ہی فاصلے پر اس کا جھونپڑا تھا۔اس نے تھوڑا عرصہ پہلے ہی اس جھونپڑے میں رہنا شروع کیا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ کرمو نائی جو چوہدری کے ہاں کام کرتا تھاشکایت لگائی کہ رات کو یہ بھینسوں کا دودھ نکال کر پیتا ہے۔چوہدری نے سزا کے طور پہ اس کی باڑے میں رہنے پر پابندی لگا دی۔
اس کے بعد اس نے یہاں جھونپڑا بنا لیا۔گاؤں میں اس کی بہت بدنامی ہوئی اور اس نے گاؤں کے لوگوں سے ملنا بھی ترک کر دیا۔اسی منہوس گھڑی میں فضلی کی بیوی کے ساتھ اُس کے عشق کے قصے لوگوں میں مشہور ہو گئے تھے۔ جوحقیقت کم اورلوگوں کی آئینہ گیری کازریعہ زیادہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کامی باڑے سے کا م ختم کر کے سیدھا جھونپڑے میں آکر سو جاتاہے۔ صبح سویرے اٹھ کر باڑے میں جاکر اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ہے اور کسی سے بات نہیں کرتا یہی اس کا معمول تھا۔

آج بھی کامی بڑی مشکل سے اپنے جھونپڑے تک پہنچااور چارپائی پر لیٹ گیا۔اس کا سیاہ بدن شدید درد کر رہا تھا۔چوہدری کی بھینسوں کا گوبر اٹھاتے اٹھاتے اس کا جسم نڈھال ہوا چکا تھا۔ایک عرصے سے اس کا یہی معمول تھا۔چوہدری کے باڑے کی نوکری اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس کے ہی سپرد کر دی گئی تھی اور اس کی ماں کو بھی مرے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا تھا۔
آصمہ جو فضلی کی بیوی تھی ،کامی چاہتا تھا کہ میری شادی اس سے ہو ،آصمہ بھی یہی چاہتی تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا اس بات کا پتا گاؤں والوں کو بھی چل گیا۔یہ شرارت کامی کے رازدارں کی تھی۔جس کی وجہ سے آصمہ کی شادی چند دنوں میں فضلی کے ساتھ ہوگئی ۔
شام ڈھل چکی تھی۔
وہ اپنے جھونپڑے سے باہر آ گیا اور درخت کے نیچے رکھے گھڑے سے پانی پینے لگا۔
دور گاؤں خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اِس خاموشی کو کبھی کبھار آوارہ کتوں کی آواز توڑ دیتی۔وہ جھونپڑے کے باہر رکھی چارپائی پر بیٹھ گیااور حقہ سلگانے لگا۔
تھوڑی دیر ہی گزری کہ اسے سامنے کھیتوں میں کوئی دکھائی دیا۔پہلے تو اس نے کوئی توجہ نہ دی لیکن آہستہ آہستہ اسے محسوس ہوا جیسے سامنے کھیتوں میں کوئی ضرور ہے۔ اس کے کان مسلسل سرسراہٹ کو محسوس کر رہے تھے جو کھیتوں کے درمیان چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔
وہ اپنی چارپائی سے اٹھ کھٹرا ہوااور سامنے کھیتوں کی طرف چلنے لگا۔ابھی وہ کھیت کے درمیان میں پہنچا ہی تھا کہ اسے ٹیوب ویل کے موگھے کے قریب فضلی دکھائی دیا۔وہ کسی عورت کے ساتھ موگھے کے قریب لیٹا ہوا بوسہ کنار میں مشغول تھا۔اس نے فضلی کو پہچان لیا تھا لیکن عورت اس کی پہچان سے باہر تھی۔اس کے دل میں جوانی کی تلخی انگڑائیاں لینے لگی اور ایک سرد لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔
اس نے اپنے جذبات پر قابو پایا اور وہاں سے چلا گیا اور فضلی سے کوئی بات نہ کی۔ رات دیر تک وہ چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا ۔
کامی صبح سویرے ہی باڑے میں پہنچ گیااور اپنے کا م میں جُت گیا۔رات کو نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں شدید درد کر رہی تھیں۔آہستہ آہستہ باڑے میں د وسرے کام کرنے والے بھی آرہے تھے۔ یہاں ابھی تک فضلی نہیں پہنچا تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی اس کے پاس آیا اور کہا چوہدری صاحب بلا رہے ہیں۔وہ نل سے ہاتھ دھو کر باڑے کے درمیان میں اس بڑے درخت کے پاس گیا جہاں بہت سی چارپائیاں بچھی ہوئیں تھیں۔فضلی وہاں ہی بیٹھا ہوا تھا ۔ چوہدری کی پیشانی کھنچی ہوئی تھی اور آنکھیں غصے سے لال ہو رہی تھیں ۔ کامی کو دیکھتے ہی چوہدری نے چلانا شروع کر دیا اور آدمی جو چوہدری کے ساتھ کھڑے تھے انہوں نے کامی پر گھونسے اور لاتیں برسانا شروع کر دیں۔
وہ رو رہا تھا اور چوہدری تلخ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہر ا غصے سے لال تھا ۔”مارو حرامی کو اور مارو “
 کامی زمین پر نڈھال پڑا تھا اور اس کا ناک منہ مٹی سے اٹ گیا تھا۔وہ زمین پر رینگتا ہوا چوہدری کے قدموں پر گر گیا۔چوہدری صاحب میرا قصور کیا ہے۔اس کے سوکھے ہوئے حلق سے بامشکل آواز باہر آئی۔اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسوں بہ رہے تھے۔

چوہدری غصے سے چلایا”تیرا قصور کیا ہے“ اورذور سے ٹانگ اس کے منہ پر ماری۔جس کی وجہ سے اس کے منہ سے خون بہنا شروع ہو گیا۔حرام زادے رات کو کہاں تھا۔ گاؤں کی عورتوں پر نظر رکھتا ہے۔ رات کو فضلی کی عورت پیشاب کرنے گئی تو اس کو کیوں دیکھا تو نے۔میں تیری آنکھیں نکال لوں گا۔ مارو حرامی کو چوہدری نے زور سے ٹانگ اس کی کی پیٹھ پر ماری۔چوہدری کے آدمیوں نے اندھا دھند مارنا شروع کر دیا۔
کامی نیم بے ہوشی کی حالت میں زمین پرگر پڑا۔وہ اس جھوٹے الزام کی غلاظت کو اپنے دامن میں لگا دیکھ کر چونک گیا تھا کیوں کہ وہ کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھااور خاص طور پر آصمہ کے بارے میں تو بلکل نہیں ۔جیسا گندا الزام فضلی نے اس پر لگا یا تھااور اس الزام سے آصمہ بھی فضلی سے جھگڑ پڑی تھی۔
چوہدری غصے سے چلایا”باندھ دو اس کو درخت کے ساتھ۔
صبح تک بندھا رہے گا یہیں ، کوئی اس کو کھانے کے لیے کچھ نہیں دے گا۔ یہی اس کی سزا ہے۔ کل اس کا فیصلہ ہو گا، جو کام اس نے کیا ہے اس کی سزا اس کو ضرور ملے گی۔گرج دار آواز میں چوہدری نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ کل صبح یہ فضلی اور اس کی بیوی سے معافی مانگے گا۔ اس کے بعد کامی کو درخت کے ساتھ باندھ دیا گیا۔
پورے گاؤں میں یہ بات پھیل گئی کہ کامی نے گزشتہ رات کیا حرکت کی۔
گاؤں کے ہر آدمی نے آ کر اس کو لعن تعن کی۔کسی کا غصہ اور غیرت زیادہ بڑھا تو اس نے کامی کو دو گھونسے بھی رسید کر دیے۔شام ہونے والی تھی۔ باڑے میں اب لوگوں کا آنا بھی بند ہو گیا تھا۔ آہستہ آہستہ سائے بڑھ رہے تھے ۔گاؤں خاموشی میں ڈوب چکا تھا جس کے درودیوار پر دو سائے منڈلا رہے تھے۔ دیو قامت سائے ۔
۔۔۔۔
صبح باڑے میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔
چوہدری اور گاؤں والے بھی باڑے میں آ چکے تھے۔فضلی بھیڑمیں بیوی کو ڈھونڈ رہا تھا۔جس درخت کے ساتھ کامی بندھا ہوا تھا وہاں ایک گھنٹی لٹک رہی تھی۔
بوتل میں بند پیاس
وہ کالج سے ڈیڑھ گھنٹے کی چھٹی لے کر بینک میں ایک چیک جمع کروانے کے لیے جا رہا تھا۔ماہ رمضان اورساتھ گرمی کا مہینہ تھا ۔اِسے شدید پیاس محسوس ہو رہی تھی۔
بہت سارے لوگوں کی طرح وہ بھی روزے رکھنے کا عادی نہیں ہو سکا تھا لیکن احترام کو مقدم جانتا تھا ۔ وہ اپنے خیالوں میں پانی اور جوس والی دکانوں کو تلاش کرنے لگا جو اس کے راستے ہی میں آتی تھیں۔ ایک قریبی دوکان پر پانی کی بوتل لینے کے لیے وہ رک گیا۔اسے ڈر تھا اگر کسی جاننے والے نے یا کسی سٹوڈینٹ نے دیکھ لیا تو بہت برا محسوس ہو گا اور اگر کوئی سخت طبیعت کا آدمی ٹکرا گیا تو دو چار باتیں بھی سننی پڑ سکتی ہیں ۔
اسی خیال سے اس نے بوتل بیگ میں ڈالی اور پھر بنک کی طرف روانہ ہوگیا۔ راستے میں بھی وہ بائیک روک کر پانی نہ پی سکا ۔اس لے کہ وہ چاہتا تھا بنک کا ٹائم ختم ہونے سے پہلے چیک جمع کروا لے۔
 جب بینک پہنچا تو پتہ چلا آج معمول سے زیادہ رش ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ماہ رمضان کا مہینہ تھا اور بینک کے اوقات شام چار بجے تک ہی تک محدود تھے۔اس وقت تقریبا پونے دو بجے تھے اور اسے تین بجے تک یہ چیک جمع کروا کر ہرصورت اپنے کالج واپس جا کر کلاس پڑھانی تھی۔

جب اس نے چیک ڈپوزٹ کا ٹوکن لیا تو اسے لگا شاید آج اس کا چیک جمع نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ سامنے کاونٹر پر ٹوکن نمبر۱۹۲ چل رہا تھااور اس کے ہاتھ میں جو ٹوکن تھا اس کا نمبر۲۵۲ تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا سوا گھنٹے میں چیک جمع کروا پائے گا؟
 اس نے ایک نظر اردگرد ڈالی۔تمام کرسیوں پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔بینک کے درمیان میں ایک چھوٹا سا کاؤنٹر تھا۔
جہاں ایک کرسی پڑی ہوئی تھی۔کونٹر خالی تھا اس نے اپنا بیگ سامنے رکھا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
 اسے پیاس محسوس ہو رہی تھی ۔
وہ اس بات کو بھی سمجھ رہا تھا کہ اسے یہاں پر ایک گھنٹہ بیٹھنا ہے اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔چیک جمع کروانا بھی لازمی ہے۔ جس کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اس کے دائیں ہاتھ پر بینک کی انٹرنس تھی۔جہاں سے ہر آ نے جانے والے پر اس کی غیر ارادی طور پر نظر پڑ جاتی تھی ۔
بائیں ہاتھ پر مین کاؤنٹر تھا جہاں پر لوگ آکر اپنے بل اورچیک جمع کروا رہے تھے۔
آہستہ آہستہ رش بڑھ رہا تھا۔
سامنے جہاں پر انتظاری کرسیاں لگی ہوئی تھی اور لوگ اپنے نمبر کا انتظار کر رہے تھے وہاں پر بیٹھا ایک آدمی جس کی عمر ۵۵ سے ۶۰ کے قریب ہوگی اپنی سیٹ سے اٹھا اور سامنے کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے لڑکے پر چیخنے لگا کہ تم لوگوں کو ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ بزرگ افرادیہاں پر انتظار کررہے ہیں۔
ماہ رمضان ہے، آپ لوگوں کو بزرگوں کے لیے علیحدہ کاونٹر رکھنا چاہیے تھا ہم لوگ اس عمر میں بھی اسی
 طرح ذلیل ہوتے رہیں گے۔
اب اس نے اپنا منہ بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف پھیر لیا اور بلند آوازمیں کہنے لگا ”تم لوگ کچھ بولتے نہیں ہو، گونگے ہو گئے ہو، اس لیے یہ لوگ تم سے ایسا سلوک کرتے ہیں۔اتنے بڑے بینک میں بزرگوں کے لیے ایک کاؤنٹر نہیں بن سکتا“۔
کچھ لوگ تائید میں سر ہلانے لگے ۔ وہ یہ کہتا ہوا بینک سے باہر چلا گیا۔
اب وہاں جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے کوئی اونچی تو کوئی مدھم آواز میں بینک والوں کو برا بھلا کہنے لگے۔
 اس تمام صورت حال کو دیکھ کر بینک منیجر باہر آگیا اور ماحول کا جائزہ لینے لگا۔پہلے وہ کاؤنٹر والے کیبن میں گیا اورملازمین کو کچھ کہا اورپھر باہر آگیا۔ابھی تک سامنے کاؤنٹر نمبر۲۰۷ چل رہا تھا۔

بینک میں مسلسل لوگ آ رہے تھے۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ایک خاتون آکر بیٹھی تھی اور جلد ہی دلبرداشتہ ہو کر کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص پر برس پڑی کہ انہوں نے دوسرا کاؤنٹر کیوں نہیں چلایا ۔اہلکاروں کے بتانے پر بھی کہ سسٹم میں خرابی ہے وہ اس کو ماننے پر تیار نہ ہوئی اور اس بات پر اڑی رہی کہ رمضان کے مہینے میں تو وہ لوگوں کا خیال کریں اور دوسرے کاؤنٹر کو لازمی چلائیں۔
وہ بھی اہلکاروں اور بینک کے رویے کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوئی اور چلی گئی۔
اب تو اسے بھی اس ماحول سے گھٹن ہو رہی تھی۔
وہ یہی سوچ رہا تھا کہ جلدی جلدی اس کا نمبر آئے وہ چیک جمع کروائے اورآفس پہنچ جائے۔ماہ رمضان کے مہینے میں وہ لوگ زیادہ تنگ ہوتے ہیں جن کا روزہ نہیں ہوتایا ایسے لوگ جو کسی وجہ سے روزہ رکھنے کے عادی نہیں ہوتے۔ اچانک اسکا دھیان بیگ کی طرف گیا اور اسے پانی کی شدید طلب ہونے لگی۔
اس کے پاس بوتل تو موجود تھی لیکن وہ حوصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ نکال کر پی سکے۔اُسے لگا شاید میری پیاس بوتل میں بند ہو گی ہے اور اب اُسے بوتل سے رہا کروانا ہے۔
کافی دیر بیٹھے بیٹھے اسے تھکاوٹ محسوس ہونے لگی ۔
اس کا دل کیا کہ وہ پانی کی بوتل نکال لے اور پینا شروع کر دے ،جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
 پھر خیال آیا کہ یہ رویہ زیادہ اچھا نہیں ہے۔
وہ استاد ہے اور لوگ کیا کہیں گے کہ استادوں کو خود اخلاقیات کا علم نہیں ہے۔
 ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ بینک کے اندر کوئی ایسی جگہ ہو جہاں وہ جاکر پانی پی سکے ۔ اسے ایک نظر دیکھنے سے تو کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئی ۔وہ کھلے عام پانی نہیں پی سکتا تھا کہ بینک میں بہت زیادہ لوگ ہیں ۔
ایک لمحے کے لیے اسے محسوس ہوا وہ کوئی چور ہے جو چوری کرنے سے پہلے پرگرام بنا رہا ہے اور ہر ممکن خطرے کوذہن میں رکھ کر اس سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسی دوران شور شرابے سے اس کی توجہ سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف ہوئی۔
 ایک عورت جو ۳۵ سے ۴۰ کے پیٹے میں تھی کاونٹر پر بیٹھے آدمی سے جھگڑپڑی کہ وہ مزید انتظار نہیں کر سکتی۔ بس اس کا چیک پہلے جمع کر لیا جائے۔ میں پورے دن بینک میں ایک چیک جمع کروانے کے لئے نہیں بیٹھ سکتی لیکن کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے آدمی نے معذرت کرلی اور چیک جمع نہیں کیا۔
وہ چیختی چلاتی ہوئی منیجر کے کمرے میں داخل ہوئی اور اپنا مسئلہ بتایا لیکن بینک منیجر نے بھی اس بات کی مخالفت کی کہ وہ دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر پہلے آپ کا چیک کیوں جمع کریں ۔بینک نے اس کے لیے ایک نظام ترتیب دیا ہے۔جس کی تمام کسٹمرپیروی کرتے ہیں۔اس طرف کچھ لوگ منیجر کے کمرے کے باہر جمع تھے اور تماشا دیکھ رہے تھے۔
تھوڑی دیر میں بینک منیجر باہر آگیا اور اپنے دوسرے ملازمین سے بات کرنے لگا۔
تھوڑی دیر میں بینک کے ایک اہلکار نے ان لوگوں سے سلپس لے لیں جنہوں نے صرف چیک جمع کروانے تھے ۔بینک کی مہر لگا کرسلپس واپس کردی گئیں۔اس کی ذمہ داری بنک نے لی کہ بعد میں یہ چیک جمع کر دیئے جائیں گے۔
 اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔وہ کالج پہنچ سکتا تھا۔اچانک اسے اپنے گلے میں خراش محسوس ہوئی اور پانی کی شدید طلب ہونے لگی۔

وہ بینک سے باہر آگیا۔
 کافی گرمی تھی۔
اُس نے اپنا بائیک سامنے فٹ پاتھ کے پاس کھڑا کیا تھا جہاں موچی کا ٹھئیاتھا۔اس نے بائیک پر بیٹھنے سے پہلے پانی کی بوتل نکالی اور اردگرد دیکھے بغیر پانی پینے لگا۔اِسی دوران موچی کے پاس بیٹھے دو آدمی آپس میں کھُسرپھُسر کرنے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کرتے وہ آفس کی طرف نکل چکا تھا۔

Chapters / Baab of Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik