Episode 13 - Zami Yava - Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik

قسط نمبر13۔ زِمی یاوا - طاقتور شکاری کا المیہ (افسانے) - طیب عزیز ناسک

زِمی یاوا
کالج سے گھرآتے ہوئے سامنے نہر روڑ پر عرفان سے ملاقات ہوگئی۔وہ بہت جلدی میں تھا ۔اس نے سفیدکُرتے کے ساتھ پشاوری چپل پہن رکھی تھی اور کندھے پر بندوق تھی۔ میں ابھی اُس سے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس نے بائیک کی رفتار تیز کرتے ہوئے ہاتھ کو مخصوص انداز میں گول گول گھماتے ہوئے کہا، واپس آ کر بات کرتے ہیں۔
میں تو واپس آ گیا لیکن میرے پہنچنے سے پہلے اس کے قتل کی اطلاع میرے گھر پہنچ چکی تھی۔
عرفان مارا گیا۔
میرے پہنچتے ہی بھائی نے اطلاع دی۔مرنے کے موقع پر پڑھے جانے والی مخصوص دعا میری زبان سے گویا بے اختیاری میں جاری ہو گئی اور میں بھائی کی طرف دیکھنے لگا۔ ایک لمحے میں اس کی ساری زندگی کا نقشہ میری آنکھوں میں گھوم گیا اور حقیقت حال پر شک ہونے لگا۔

(جاری ہے)


”جانتے ہو بھائی خانوں کے ڈیرے پر گیا تھا۔“
باپ کا بدلہ تو لے لیالیکن اندھا دھند فائرنگ میں خود بھی مارا گیا۔اللہ اس کی مغفرت فرمائے۔عزت اور غیرت کے نام پر قربان ہو گیا۔“
میں جانتا تھا کہ عرفان ایسا کوئی کام ضرور کربیٹھے گا۔
میری آنکھوں میں آنسو اور دل میں ایک نا ختم ہونے والا دکھ تھا۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیاکروں۔
میں ساتھ والے کمرے میں آ گیا اور چارپائی پر بیٹھ گیا۔اس سے دو دن پہلے ہو ئی ملاقات میں اس نے مجھے بتادیا تھا کہ جمعہ کا دن اِس کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔
انہی خیالات کو لیے میں گھر سے نکلا ۔
 ہر طرف یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔علاقے کے لوگ اس قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔جب میں پہنچا تو ان کے گھر کے ساتھ بڑی حویلی میں لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔

ابھی تک میت مردانے میں نہیں آئی تھی۔
میں وہاں جا کر بیٹھا تو اس کے چھوٹے بھائی اور چچا کو لوگ مبارک باد دے رہے تھے کہ بیٹا ہو تو ایساکہ جس نے اپنے باپ کا بدلہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر لیااور خود کو باپ پر قربان کر دیا۔اس کا چچا جو سامنے چارپائی پر بیٹھا اپنی مونجھوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور کہ رہا تھا
 ،بھائی بات سولہ آنے ہے ۔
قتل کا بدلہ قتل۔انہوں نے میرے بھائی کو مار کر جو چوٹ ہمیں لگائی ہے ہمارا پورا حق ہے کہ ہم بدلہ لیں اور اپنا دِفا کریں۔
ایک شخص جو ابھی ابھی آیا تھا اس نے بتایا کہ جنازہ اٹھانے کا وقت ہو گیا ہے، آپ سب احباب بھی آ جائیں۔ہم سب بھی وہاں سے اٹھے اور جنازہ گاہ آ گئے،میں بار بار عرفان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
 اسی دوران کلمہ شہادت کی صدا بلند ہوئی لوگ تیز تیز قدم اٹھاتے اور میت کو کاندھا دیتے جنازہ گاہ تک آ گئے۔

مولوی صاحب پہلے ہی وہاں موجود تھے ،جنہوں نے صف سیدھی کروانی شروع کیں۔میں دوسری لائن میں عین میت کے سامنے تھا ۔ایک درد کا طوفان تھا جو زندگی کی بے ثباتی کو دیکھ کر میرے اندر اتر آیا تھا۔صف سیدھی ہو چکی تھیں کہ عرفان کا چچا مولوی صاحب کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اوررخ لوگوں کی طرف کر کے کہنے لگا۔
”اگر عرفان احمدولد اکرام اللہ نے کسی کا قرض ادا کرنا ہے تووہ مجھ سے وصول کر سکتا ہے اور اگر اِس کے پیسے کسی نے دینے ہیں تو ہم انہیں معاف کرتے ہیں۔

 وہ یہ بات کہہ کر مولوی صاحب کو جنازہ پڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔
 قبر تیارہو چکی ہوتی ہے۔
تھوڑی ہی دیر میں میت آتی ہے۔ لوگوں کو چہرہ دیکھانے کے لیے منہ سے کفن ہٹایا جاتا ہے اورکافوری کی گہری خوشبواطراف میں پھیل جاتی ہے۔
میں نے چہرے کو دیکھا تو لمحہ بھر کے لیے وہ مجھے بہت پرسکون دکھائی دیا۔کبھی کبھی جب ہم نہر کے کنارے ملتے تو وہ میرے آنے سے پہلے ایسے ہی آنکھیں بند کیے لیٹا ہوتااور کہتا ”آ میری معشوق دے عاشق“۔
میں نے دوبارہ اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
 وقت آ پہنچا تھا۔
 لوگ اسے قبر میں اتارنے کی تیار ی کرنے لگے ۔میت کو قبر کے قریب لایا گیا اور بڑے گڑھے کے عین درمیان میں بنی قبر میں اتارا گیا اور سلیبوں سے درمیانی گڑھے کو ڈھک دیا گیا۔سب لوگ قبر کو مٹی سے بھرتے ، آخری دعا پڑھ کر گھروں کو لوٹ گئے۔
 جب میں گھر واپس آیا تو طبیعت بہت بوجھل محسوس ہو رہی تھی۔

میں اپنے کمرے میں چلا آیا۔ایک دن عرفان میرے گھر آیا تو ہم اسی کمرے میں بیٹھے تھے۔ایک لمحے کو مجھے اس کا چہرہ یاد آیا جو میں نے کفن میں لپٹا ہوا دیکھا تھا۔میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو گر پڑے۔میں بستر پر لیٹ گیا اور اس کی باتوں کو یاد کرنے لگا ۔ناجانے کب میری آنکھ لگ گئی اور میں نیند کی وادیوں میں بے لگام بھٹکنے لگا۔
جب آنکھ کھلی تو مغرب کا وقت گزر چکا تھا۔

 میں صحن میں آیا تو میرا چھوٹا بھائی بھی واپس آچکا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا لوگ کہتے ہیں عرفا ن بہت نڈر اور
 دلیرآدمی تھا ۔باپ کا بدلہ وہ نہ لیتا تو اور کون لیتا؟
 اس کا بڈھا چچا۔
میں نے اس کے جذبات کو بھانپتے ہوئے کہا جوکچھ لوگ کہتے ہیں وہ کس حد تک درست ہے اور کس حد تک غلط ،اس کا فیصلہ کون کر سکتا ہے۔ میں نے صحن میں بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

اماں کچن میں کھانا بنا رہی تھیں۔
میرا چھوٹا بھائی بھی ساتھ والی چارپائی پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا، بھائی جب میں نے آپ کو عرفان کے مرنے کی اطلاع دی تھی توآپ نے کہا تھا” میں جانتا تھا کہ عرفان ایسا کچھ ضرور کرے گا“ آپ کو پہلے سے ہی خبر تھی کہ وہ یہ سب کرنے جا رہا ہے؟
میں نے کہا عرفان نے مجھے کچھ دن پہلے ہی بتایا تھا کہ وہ ایسا کرے گا۔

دراصل وہ جیسا نظر آتا تھاویسا نہیں تھا۔
وہ تو بہت پیار کرنے والا انسان تھا۔باپ کے قتل کابدلہ لینا ،خاندان اور معاشرے کے خوف کے بارے میں وہ اکثر باتیں کرتا تھا اور مانتا تھا یہ سب کچھ غلط ہے لیکن پھر بھی اس نے سب کچھ کیا جس کی وہ خود بھی نفی کرتا تھا آخر کیوں؟
دراصل بات یہ ہے کہ کچھ عرصے سے میری اور عرفان کی دوستی بہت زیادہ ہو گئی تھی۔
وہ بڑے کھلے انداز سے مجھ سے بات کرتا اور اپنے دل کی باتیں سناتاتھا۔اس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ سٹیشن کے سامنے والی کالونی میں ایک لڑکی رہتی تھی میں کالج سے آتے جاتے اسے دیکھتا تھا، وہ بھی کالج میں پڑھتی تھی۔اس سے ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکل رہی تھی میں نے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔شاید اس نے میری حرکتوں سے تنگ آ کر عرفان کو بتا دیا۔

عرفان اس کو پہلے سے جانتا تھا۔
اب جس دن میں اس لڑکی کے پیچھے آ رہا تھا تو اچانک راستے میں عرفان آ گیا اس نے مجھے دیکھ لیا اور گویا ہوا” تو تم میری جان عزیز کو تنگ کرتے ہو“۔ ہم وہیں نہر کے کنارے پر بیٹھ گئے۔جہاں پانی کا ایک بڑا موگھا تھا اور اس میں سے پانی کھالوں سے گزرکر فصلوں کو دور تک سیراب کرتا تھا۔
عرفان سے اس دن کے بعد دوستی ہو گئی ۔
میں نے اپنی غلطی کی معذرت کی اور پھر اسے تنگ نہ کرنے کی قسم کھا لی ۔اس کے بعد ہماری باقاعدہ ملاقاتیں ہونا شروع ہو گئی ۔ عرفان نے بتایا کہ وہ اس لڑکی سے بہت محبت کرتا ہے۔دل و جان سے محبت کرتا ہے۔ایک دن جب وہ آیا تو کہنے لگا یار میرا دل کرتا ہے کہ زمین پھٹ جائے اور ساری نفرتیں اور کدورتیں اس میں بند ہو جائیں۔
میرے باپ نے دوسروں کی زمین پر ناجائزقبضہ کیا۔
جس کے بدلے میں اِنہوں نے میرے باپ کو مارڈالا۔
اِس زمین میں نہ جانے کیا کرنا تھا اس نے۔
خو د تو مر گیا اور ہمیں جھونک کیا بدلے کی آگ میں۔”زمی یاوا۔۔۔“
اگر باپ کے قتل کا بدلہ بڑا بیٹا نہیں لے گا تو اور کون لے گا؟
اگر بدلہ نہیں لیں گے تو خاندان اور گاؤں بھر میں رسوائی ہو گی۔خانوں کی ہمت اور بڑھ گئی تو وہ میرے اور خاندان کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
میں ان کو نہیں ماروں گا تو یہ ہمیں مار ڈالیں گے۔
میں تو اب صرف اتنا سوچتا ہوں کہ جو دن رہ گئے ہیں اپنی جان عزیز کے ساتھ گزاروں۔دن میں اس کی ایک جھلک اور چند باتیں ہی مجھے سرشار رکھتی ہیں۔کاش میں اس سے شادی کر سکتا۔
یار عرفان کمال ہے ،ایک طرف محبت کی باتیں کرتے ہو تودوسری طرف دشمنی؟
”میں لعنت بھیجتا ہوں اپنی دشمنی اور اپنے باپ پر۔
۔۔“
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے یہ ضروری ہے۔یہ نظام ہمارا نہیں بنایا ہوا نہیں ہے ۔اِسے پورے معاشرے نے کھڑا کیاہے۔جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر سب ٹھیک ہے۔اس کے منہ سے بے اختیار ہنسی نکل گئی۔ جمعہ کا دن میرا اس دنیا میں آخری دن ہو گا۔ میں اُن کے باپ کو اُن کے ڈیرے پر ہی مار کر آؤں گا یا خود مر جاؤں گا۔
 میں ایسا کر سکتا ہوں۔
اس نے ایک لمبی آہ بھری ۔سر کے پچھلے حصے پر اپنے بازوں باندھ دیے اور پیچھے کی جانب لیٹ گیا۔
میں چاہتا ہوں کل اپنی جانِ عزیز سے آخری ملاقات کر لوں۔مجھے اس کی بہت یاد آئے گی میں اس سے دور نہیں ہونا چاہتا۔افسوس میں مجبور ہوں۔شاید میرے دن پورے ہو گئے ہیں۔میری مجبوری کون سمجھ سکتا ہے۔ اس کے بعد میں اس سے کبھی نہیں ملوں گا۔
اگر تم اس لڑکی سے واقعی پیار کرتے ہو اور شادی کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اجازت ہے۔
تم دونوں بہت خوش رہو گے۔
میں خاموش ہو گیا۔
اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
بھائی ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہا تھا۔
اتنے میں امی بھی کچن سے کھانا لے کر آ گئیں۔
میرا بھائی میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔
” آپ جانتے ہیں ،اس کا جھوٹا بھائی اس کے قتل کا بدلہ لینے کی تیاری کر رہا ہے۔“

Chapters / Baab of Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik